آج مجھے ذکر کرنا ہے طواف زیارہ کا کہ یہ حج کا تیسرا اور آخری فرض ہے اس سے قبل پہلا نیت اور دوسرا وقوف عرفات جس کا تذکرہ ہو چکا۔ باقی چھ وجوب یعنی واجب ہیں پہلا وقوف مزدلفہ‘ دوسرا شیطان کو کنکریاں ‘ تیسرا قربانی چوتھا حلق یعنی ٹنڈ‘ پانچواں طواف زیارہ کی سعی اور چھٹا طواف زیارہ یعنی آخری طواف آنے کے وقت۔ شیطان کو کنکریاں مارنے کا ذکر میں نے کیا تھا کہ تیسری مرتبہ بھی ہم نے چوتھی منزل یا ٹریک پر آ کر تینوں شیطانوں کو سات سات کنکریاں ماری تھیں۔ ہم اب کے سٹیشن منی ون سے بیٹھے۔ دوسرا سٹیشن منی ٹو تھا اور تیسرا جمرات کا۔ اب جمرات پر اتر کر لمبا بل کھاتے ہوئے شیطانوں کے پاس آ جاتے ہیں۔ دھوپ سے بچائو کے لئے یہاں بڑے بڑے شیڈز بنائے گئے ہیں اور ہر وقت فین چلتے ہیں تاکہ حاجیوں کے لئے موسم قابل برداشت رہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹا‘ درمیانہ اور پھر بڑا شیطان ہے کنکری اسے لگ کر قریب قوس نما پیالے میں گرتی ہے۔ وہاں سے واپس آپ ٹرین میں منیٰ کے لئے آ سکتے ہیں مگر ہم نے وہاں سے طواف زیارہ کے لئے جانا تھا۔ شام کے وقت پاکستان کے اعلان کے مطابق ہم نے حلق کروا کے احرام کھول دیے تھے اور شلوار قمیص زیب تن کر لی تھی۔ مغرب کے وقت حلق کروانے والوں کا عجب منظر تھا۔ وہاں حلق کروانا یعنی ٹنڈ کروانا باقاعدہ ایک انڈسٹری کی صورت نظر آتا ہے حرم کے قریب بھی حجاموںنے اپنے بندے چھوڑے ہوئے ہیں جو حاجیوں کو باقاعدہ گھیر کر اپنی اپنی دکانوں کی طرف لاتے ہیں۔ طریقہ کار ان کا یہ ہے کہ ایک بندہ آپ کے ساتھ ساتھ چلنے لگے گا اور دھیمی آواز میں کہے گا خمسہ ریال یا پانچ ریال حلق ہے ساتھ یہ بھی کہے گا کہ بائیں مڑ آئیے‘ شرطہ نہ دیکھ لے۔ گویا سرعام اس طرح گاہکوں کو پکڑ کر لانا منع ہے۔ مزے کی بات یہ کہ آپ سیدھا دکان پر جائیں گے تو ٹنڈ دس ریال میں ہو گی مگر مسابقت میں ایجنٹوں کے تھرو آپ کو پانچ ریال میں حلق پڑے گا۔ پہلی مرتبہ جس 19نمبر دکان میں مجھے لایا گیا وہ سارے سرائیکی تھے۔ وہاں حجام بہت خوش حال ہیں۔ منیٰ میں چونکہ حلق کا کوئی خاص بندوبست نہیں تھا۔ وہاں تو خیر کوئی بندوبست بھی ٹھیک نہیں تھا جس کا تذکرہ میں منیٰ میں حاجیوں کے ساتھ بدسلوکی‘ میں کر چکا ہوں۔ خیموں سے باہر کچھ کالے حجام تھے اور حاجی خبریں لانے لگے کہ کالا حجام پچاس ریال مانگتا ہے سب سوچنے لگے کہ حرم جا کر ٹنڈ کروائیں گے۔ مگر ہوا کچھ عجیب مغرب ہوتے ہی کئی حجام نمودار ہوئے ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں قربانی کے دنوں میں ہر کوئی قصاب بن جاتا ہے اور دیہاڑی لگاتا ہے۔ ایک تو خیر باقاعدہ حجام تھا شاہد اس کا نام تھا۔ کراچی کا رہنے والا۔ میں نے بھی اس سے خمسہ ریال میں حلق کروایا۔ وہ بہت اچھا شخص تھا کہنے لگا’’میں تو حج کرنے آیا ہوں دیکھا کہ حاجی مشکل میں ہیں۔ اس شخص نے بعد میں ساری کمائی خیرات کر دی۔ ایک کالا حجام کسی کا حلق کر رہا تھا وہ شرطے کو دیکھ کرآدھے بال درمیان میں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ کچھ بابے کانپتے ناکارہ سیفٹی سے ایک دوسرے کی ٹینڈکرنے کی کوشش کر رہے تھے جو بھی تھا دلچسپ منظر تھا۔ اللہ بھی تو دیکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ بار بار بندے کی اکڑ ختم کی جائے۔ بندہ کیسے آرام سے سر جھکا کر ٹنڈ کروا لیتا ہے۔ یہ بال تو اس کے لئے کلغی ہوتے ہیں اور یہاں اس کی کلغی بار بار اترتی ہے۔ اپنی انکساری کو حاجی چھپا بھی نہیں سکتا۔ سب حاجی نہا دھو کر اس کوشش میں تھے کہ جلدازجلد طواف زیارہ کر لیا جائے کہ پہلے دن کرنا افضل ہے مگر اس دن بہت رش ہو جاتا ہے ہم دوسرے روز کنکریاں مارنے کے بعد جمرات سے حرم کو نکل گئے۔ جمرات سے بورڈ نشاندہی کرتے ہیں۔ حرم کی طرف اکثریت پیدل ہی نکلتی ہے ایک سرنگ سے ہوتے ہوئے یہ ہجوم چلتا جاتا ہے ہم نے پل پر چڑھ کر کوشش کی کہ ٹیکسی مل جائے کہ بہن کے گھٹنے میں درد تھا۔ وہاں پہنچے تو ٹیکسیاں کیا‘ بس اور ویگنیں بھی تھیں۔ جو کرایہ عام حالات میں پانچ یا دس ریال ہوتا ہے اب کے پچاس سے سو ریال ہو جاتا ہے۔ پاکستانی ڈرائیور بھی عربی لباس پہنے لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ ہم تو بس میں سوار ہو گئے جس نے تیس ریال فی کس کرایہ لیا اور حرم سے ذرا دور اتار دیا۔ ہم حرم پہنچے تو رش کو دیکھ کر گھبرا گئے مگر طواف زیارہ تو فرض تھا۔ طبیعت کی ناسازی کے باوجود طواف کیا اور سعی بھی کی جو طواف سے زیادہ مشکل تھی۔ سعی بھی چار منزلہ ہے اور ہر منزل فل پیک تھی۔ طواف زیارہ اگر تین دن میں نہ ہو سکے تو بعد میں کفارہ کے ساتھ کرنا پڑتا ہے۔ سعی کر کے ہم نے گویا پانچواں واجب مکمل کر لیا تھا۔ اب ایک واجب رہ گیا ہے جو ہم 30اگست کی واپسی سے پہلے کسی دن بھی کر لیں گے۔ طواف تو ہم کرتے ہیں لیکن طواف وداع ہو گا کہ جس کے بعد پھر ہم کوئی طواف نہیں کریں گے۔ حج کے بعد لوگوں کا خیال تھا کہ اب مزے ہی مزے ہیں رش کم ہو جائے گا لیکن سارے اندازے غلط ثابت ہو گئے رش تو پہلے سے بھی بڑھ گیا۔ آنے والوں نے اپنے باقی وقت کو غنیمت جانا اور طواف تقریباً روزہی کرنے لگے۔ کچھ لوگ زیارات کے لئے جاتے ہیں۔ کچھ حاجیوں نے طائف کا قصد کیا۔89مکتب سے پانچ بسیں گئیں صرف ایک وہاں تک نکل سکی۔ چار کو پولیس سکیورٹی نے واپس کر دیا۔ پتہ چلا کہ وہاں کے لئے پرمٹ لینا پڑتا ہے۔ کچھ مدینہ کے لئے دوبارہ جانا چاہتے ہیں مگر سنا ہے اس کے لئے آپ کے پاس پاسپورٹ ہونا ضروری ہے۔ مگر پاسپورٹ تو کفیل کے پاس ہیں ہمیں واپسی کے وقت ملیں گے۔ طواف زیارہ کر کے واپس منیٰ کے لئے ٹیکسی لی کہ وہ ہمیں جمرات چھوڑ دے تاکہ ہم ٹرین کے ذریعہ منیٰ ون پہنچ جائیں۔ ٹیکسی نے ہمیں جمرات چھوڑا تو پتہ چلا کہ واپسی کے راستے وہ ہرگز نہیں جوآتے ہوئے تھے۔ ایک ٹنل یعنی سرنگ کے پاس اس نے ہمیں اتارا تو گھن گرج کے ساتھ بادل برسنے لگے اتنی تیز بارش اور ہوا شروع ہوئی کہ چھتریاں بھی بے بس ہو کر دوہری ہو گئیں۔ جلدی جلدی ہم نے ٹنل میں پناہ لی اور حاجی بھی اس میں سے جا رہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد اس ٹنل میں بارش کا پانی بہنے لگا۔ ٹنل کے دوسرے نکرے پر پہنچے تو پتہ چلا کہ وہاں تو ایک بڑا قافلہ بارش کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔ بارش کم ہوئی تو حاجی چل پڑے ہم نے جمرات سٹیشن کا پوچھنے کی بہت کوشش کی مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ اس کو غنیمت جانا کہ حاجیوں کے اس چھتری بردار جلوس کے ساتھ ساتھ چلتے گئے۔ بارش اگرچہ کم تھی مگر مسلسل ہوتی گئی۔ ہوتے ہوتے ہم گلی محلوں میں نکل آئے کبھی انڈین گائیڈز سے پوچھتے اور کبھی پاکستانی گائیڈز سے۔ تاہم آخر کار ہم 162محلہ میں اپنی گلی 6/513میں پہنچے یعنی 89مکتب میں تو جان میںجان آئی۔ اصل میں یہ مکاتب کسی اچھی منصوبہ بندی سے نہیں بنائے گئے۔ اگر 90مکتب یہاں ہے تو 89اس سے کہیں دور ہے۔ اپنے خیموں میں پہنچے تو باہر پڑے وہ قالین جن پر ہم نماز پڑھتے تھے بھیگ چکے تھے شکر ہے مزید بارش نہیں ہوئی۔ وگرنہ منیٰ کے خیموں کا پانی سے بچنا ممکن نہیں تھا۔ اس حوالے سے مفتی منیب الرحمن نے ٹھیک لکھا ہے کہ منیٰ میں تعمیرات بھی ہو سکتی ہیں کہ محفوظ ہوں۔ میں تو کہتا ہوں کہ عرفات میں بھی ایسا بندوبست ہونا چاہیے کہ طوفان بادو باراں میں حاجی محفوظ رہ سکیں۔