گیت نگار اور فلمساز گلزار کا ایک کردار کتنی تکلیف سے کہتا ہے کہ ’’پونا سے لیکر موہن جو داروتک ایک لمبی سانس لینا چاہتی ہوں‘‘۔ جب انسان شدید گھٹن کا شکار ہوتا ہے تو اس کو اس قسم کے خیالات آتے ہیں۔ جب قصور میں بے قصور اور معصوم زینب زیادتی کے بعد قتل کی گئی تھی اور میڈیا میں اس قدر شور مچا تھا کہ پورے ملک کے حساس انسانوں نے اپنا دم گھٹتا محسوس کیا تھا۔ وہ کیفیت ایک بار پھر اس ملک کے انسانوں نے اس وقت محسوس کی جس وقت پانچ برس کی چھوٹی سی بچی علیشا پانچ دنوں تک سندھ کے ایک شہر کشمور میں ایک درندے کے پاس یرغمال رہی اور وہ درندہ اس کو جنسی بھیڑیا بن کر نوچتا رہا۔ یہ پورا نظام جہاں سیاستدان ’’کرسی کرسی‘‘ کھیل رہے ہیں۔ جہاں سرسرمایہ دار غریب ملک کے شہری ہونے کے باوجود دنیا کے بڑے امیروں میں شمار ہوتے ہیں۔ جہاں این جی اوز نے ہر واقعہ پر موم بتیاں جلا جلا کر معاشرے جو روشن زخموں سے بھر دیا ہے۔ جہاں لوگ اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے دل کھول کر دولت لٹاتے ہیں۔ جہاں دیہاتوں میں برادری اورشہروں میں سکیورٹی ایجنسیوں کے ملازم گھر کے در سے لیکر سکول کے در تک امیروں کے بچوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس معاشرے اور اس صورتحال میں ان غریبوں کے بچے کیا کریں؟ جن کے گھر اتنے تنگ و تاریک ہوتے کہ لوڈشیڈنگ ہوتے ہی انہیں کہا جاتا ہے کہ ’’جاؤ باہر جاکر گلی میں کھیلو‘‘ جس معاشرے میں گھر محفوظ نہیں وہاں گلیاں کتنی محفوظ ہو سکتی ہیں؟ اس وجہ سے میڈیا پر چیخ اٹھتی ہے کوئی بریکنگ نیوز کبھی اس زینب کے حوالے سے جس کو قتل کر کے کوڑے کے ڈھیر پر پھینکا گیا اور کبھی اس علیشا کے بارے میں جس کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ پڑھتے ہوئے انسان اپنے آپ کو شرم میں ڈوبتا محسوس کرتا ہے۔ علیشا کی کہانی بہت طویل نہیں کہ اس کے لیے کسی کتاب کی ضرورت پیش آئے۔ علیشیا کی کہانی علیشا کی طرح بہت چھوٹی اور بیحد مختصر ہے۔ علیشا اس غریب ماں کی بیٹی تھی جس کو مجرم صفت لوگ کراچی سے کشمور یہ جھانسہ دیکر لے آئے کہ اسے وہاں عزت اور تحفظ حاصل ہوگا۔ اس کو ایسی ملازمت ملے گی جس کی وجہ سے اس کا مستقل محفوظ ہو جائے گا۔ کشمور میں پہنچ کر اس ماں کی عزت لوٹ لی گئی اور اس کی معصوم بیٹی اس سے چھین لی گئی اور اس کو کہا گیا کہ اگر وہ اپنے ساتھ کوئی نوجوان لڑکی نہ لائی تو اس کی کمسن بیٹی کو قتل کیا جائے گا۔ اس کی معصوم بیٹی کو جسمانی طور پر تو قتل نہیں کیا گیا مگر اس کا روحانی قتل ضرور ہوا۔ وہ ماں جس کے جگر کا ٹکڑا کسی درندے کے پاس ہو وہ اس کو کشمور جیسے اجنبی شہر میں چھوڑ کر کیسے جائے؟ وہ ماں پانچ دن کشمور میں رکی رہی۔ اس کو پناہ ملی تو ایک ایسے اے ایس آئی کے گھر پر جہاں اس کے اپنے بچے تھے۔ وہ عورت سارا دن روتی رہتی اور ان کی منت کرتی کہ اسے صرف اس کی بیٹی دلوائی جائے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کشمور کو چھوڑ کر کراچی چلی جائے۔ اس ملک میں کتنے بڑے ادارے ہیں؟ اس ملک میں کتنے ہتھیار ہیں؟ اس ملک میں کتنے سہارے ہیں؟ مگر علیشا کو کچھ کام نہ آیا۔ اس کی مدد ایک سندھی پولیس اہلکار اور اس کی نوجوان بیٹی نے کی۔ انہوں نے اس عورت سے کو سمجھایا کہ فون پر اس کی پولیس اہلکار کی بیٹی سے بات کروائے اور کہے کہ وہ اس کو لیکر آئی ہے۔ عورت نے ایسے ہے کیا اور جب اس مجرم کو انہوں نے شہر میں بلایا تو اس پولیس اہلکار کی لڑکی نے اسے گریبان سے پکڑ کر اپنے والد کو بلایا۔ اس طرح وہ درندہ قانون کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ اس کی گرفتاری کے بعد اس کے دوسرے ساتھی کی گرفتاری کو عمل میں لانے کے لیے بقول پولیس اسے خاص جگہ پر لے جایا گیا اور وہاں دوسرے مجرم نے فائرنگ شروع کی جس میں گرفتار شخص ہلاک ہوگیا۔ اس کی ہلاکت کو بھی پولیس کا کارنامہ قرار دیا گیا اور سندھ میں پولیس کی پائمال عزت ایک ایس آئی اے کے معرفت نہ صرف بحال ہوئی بلکہ مذکورہ اے آئی کو پورے ملک کا ہیرو قرار دیا گیا اور اس کی بیٹی کے لیے دس لاکھ روپے کا اعلان سندھ حکومت نے اور بیس لاکھ روپے کا اعلان سندھ پولیس کے سربراہ نے کیا۔ حالانکہ اس شخص نے یہ عمل کسی انعام کے لیے نہیں کیا تھا۔ اس نے تو ایک دکھی ماں کی مدد کی اور اس کی وجہ سے وہ اتنا مقبول ہوا کہ نہ صرف وزیر اعلی سندھ بلکہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اس سے فون پر بات کی اور اس سے محبت کا اظہار کیا۔ یہ بات کشمور جیسے چھوٹے شہر کے ایک چھوٹے پولیس اہلکار کے لیے بہت بڑی تھی۔ اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ ایک دن وہ اتنا مشہور ہوجائے گاکہ پورے ملک کی میڈیا اس سے دو منٹ خصوصی بات کرنے کے لیے منت کرے گا۔ یہ بات اگر اس کو کوئی نجومی بتاتا کہ اسے ایک دن آئی جی سندھ خصوصی طور پر دعوت دیکر بلائیں گے اور اس کا پرتباک استقبال کیا جائے گا۔ پولیس چیف اس کی آمد پر اس کو خود سلیوٹ کرے گا اور وہ اپنی بیٹی اور اپنی بیوی کے ہمراہ پورے صوبے کے اعلی پولیس اہکاروں کے درمیاں بیٹھا ہوگا تو کیا وہ اس بات پر اعتبار کرتا؟ کون کہتا ہے کہ ہیروز نے جنم لینا ختم کردیا ہے؟ کون کہتا ہے کہ اب ہیروز صرف فلموں اور ناولوں میں مل سکتے ہیں۔ علیشا کی کہانی صاف طور پر دکھا رہی ہے کہ اس دور میں ہیروز پیدا ہوسکتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہیروز اسلام آباد اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں پیدا ہوں۔ ہیروز تو کہیں بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ علیشا کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ اس معاشرے میں صرف برے لوگ نہیں ہوتے۔ علیشا کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ پولیس جیسے بدنام محکمے میں بھی فرشتوں جیسے اہلکار موجود ہیں۔ اور علیشا کی کہانی ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ایک علیشا کو انصاف ملنے کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا کی ہر علیشا کے لیے قانون آغوش مادر ہوگیا ہے۔ علیشا کی کہانی ہمیں بتا رہی ہے کہ غیرمحفوظ ہوکر پھر محفوظ ہونا ایک معجزہ ہے۔ یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ اس دور بھی معجزے ہو سکتے ہیں۔ اور یہ کہانی ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ معجزے ہر روز نہیں ہوتے۔