قومی اسمبلی میں آئے روز کورم ٹوٹ جاتا ہے ، سوال یہ ہے کہ معزز اراکین اسمبلی کی مراعات کا کورم کیوں نہیں ٹوٹتا؟عرفان ستار نے کہا تھا : رات مجھ سے مری بے بسی نے کہا ، بے بسی کے لیے ایک تازہ غزل۔ہمیں تو شعر کہنا بھی نہیں آتا ، ہم میر صاحب ہی کو یاد کر سکتے ہیں: ’’روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات اب یہی روزگا ر ہے اپنا ‘ــ‘ کیا آپ کو معلوم ہے معاشی بحران سے دوچار یہ غریب قوم اپنے اراکین قومی اسمبلی کی کتنی خدمت کر رہی ہے؟ بنیادی تنخواہ کی مد میں ایک لاکھ پچاس ہزار روپے، اعزازیہ کی شکل میں بارہ ہزار سات سو روپے، سمپچوری الائونس کی مد میں پانچ ہزار روپے ، آفس مینٹیننس الائونس کی شکل میں آٹھ ہزار روپے ، ٹیلی فون الائونس کے طور پر دس ہزار روپے اور ایڈ ہاک ریلیف کی صورت میں پندرہ ہزار روپے۔یہ ملا کر دو لاکھ ستر ہزار روپے ماہانہ بنتے ہیں۔کیا یہ ناز نخرے اس لیے اٹھائے جاتے ہیں کہ قانون سازی کی بجائے صدارتی آرڈی ننس آ جایا کرے اور اجلاس شروع ہو تو ایک دوسرے کو لعن طعن کے دیوان کہے جائیں یا پھر کورم ٹوٹ جائے اور سب ہنسی خوشی گھروں کو لوٹ جائیں؟ مراعات کا تو دریا بہہ رہا ہے۔ہر رکن قومی اسمبلی کو فری ٹریول یعنی مفت سفر کی مد میں تین لاکھ روپے کے سفری وائوچرز یا نوے ہزار روپے کیش دیا جاتا ہے اوربزنس کلاس کے پچیس ریٹرن ٹکٹ ان کے حلقہ انتخاب سے نزدیک ترین ائر پورٹ سے اسلام آباد تک دیے جاتے ہیں۔ وہ کنوینس الائونس ، ڈیلی الایونس اور ہاوسنگ الائونس بھی وصول فرماتا ہے۔ کنوینس الائونس کے دو ہزار ، ڈیلی الائونس کے چار ہزار آٹھ سو اور ہائوسنگ الائونس کے دو ہزار۔ یہ مل کر 8 ہزار 8 سو روپے یومیہ بنتے ہیں۔ قانون ساز جب اپنے ہی حق میں قانون سازی پر تل جائے تو قومی خزانے کو چراگاہ بننے سے کون روک سکتا ہے چنانچہ یہ ہائوسنگ الائونس بھی لیتے ہیں اور پارلیمانی لاجز میں خوبصورت رہائش گاہوں پر بھی قابض ہو جاتے ہیں۔ الائونسز کی تقسیم کا فارمولا بھی سمجھ لیجیے ۔ قانون یہ ہے کہ الائونسز کی یہ رقم اجلاس سے تین دن پہلے اور تین بعد بھی دی جائے گی۔یہی نہیں جب کبھی یہ قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں تشریف لائیں تو یہی تین الائونس انہیں ایک بار پھر مل جاتے ہیں۔ کمیٹی کا اجلاس ایک دن ہو تو انہیں اجلاس سے دو دن پہلے اور دو دن بعد تک یہ الائونس ملتا رہتا ہے۔مہینے میں قائمہ کمیٹیوں کے کتنے اجلاس ہوتے ہیں اور کتنا خرچ آتا ہے کبھی خود حساب کتاب کر کے دیکھ لیجیے۔ فضائی سفر ، ریل کے سفر ، یا سڑک پر سفر ہر صورت میں ان کے لیے الائونس تو ہیں ہی۔ یہ جب اسلام آباد قومی اسمبلی کے اجلاس یا قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوتے ہیں تو کنوینس الائونس بھی لیتے ہیں ۔ کنوینس الائونس کے ساتھ ساتھ انہیں آفیشل ٹرانسپورٹ بھی دی جاتی ہے۔ 1300 سی سی کار مہیا کی جاتی ہے اور تین سو ساٹھ لٹر پٹرول بھی فراہم کیا ہے۔ موجودہ وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا جب سپیکر قومی اسمبلی تھیں تو اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے تین دن پہلے انہوں نے خود کو مراعات کا مال غنیمت عطا فرما دیا۔انہوں نے کہا تمام لوگوں کو جو سپیکر رہ چکے یہ حق دیا جاتا ہے کہ سرکاری خرچے پر دنیا بھر میں جہاں چاہیں علاج کروائیں۔ان کو 12 افراد پر مشتمل سرکاری سٹاف اور 1600 سی سی کار بھی دی جائے گی۔ ان کے بعد مسلم لیگ( ن) کی حکومت تشریف لائی اور جاتے جاتے یہ واردات ڈالی کہ اقتدار کی مدت ختم ہونے سے چند گھنٹے قبل ان مراعات میں مزید اضافہ کر دیا۔انہوں نے تمام سابق ممبران اور ان کے اہل خانہ کے لیے تاحیات گریڈ بائیس کے افسران کے برابر میڈیکل کی سہولت کا اعلان کر دیا۔تمام سابق اراکین پارلیمان اور اہل کی اہلیہ یا شوہر کو تاحیات بلیو پاسپورٹ رکھنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔چیئر مین سینیٹ ، سپیکر ، اور قائمہ کمیٹیوں کے چیر مینوں کی مراعات میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ دو سال قبل پنجاب کے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر میں محمود الرشید نے انکشاف فرمایا تھا کہ پنجاب کے وزیر اعلی اور گورنر پر یومیہ اس قوم کا 30 لاکھ خرچ ہوتا ہے۔ اب وہ خاموش ہیں کچھ بھی نہیں بتاتے۔ البتہ یہ ہمیں معلوم ہے کہ سادگی کے دعووں کے باوجود ایوان صدر اور وزیر اعظم ہائوس کا بجٹ بڑھ چکا ہے۔کے پی کے تبدیلی کا نقش اول ہے۔یہاں عالم یہ ہے کہ اس مالی سال جب لوگوں سے کہا جا رہا تھا سادگی اختیار کریں اور دو کی بجائے ایک روٹی کھائیں، گورنر ہائوس کے لیے مختص رقم میں 46 ملین کا ااضافہ فرمایا گیا۔( ایک ملین دس لاکھ کا ہوتا ہے)۔ سر پیٹ لیجیے کہ ساڑھے تیرہ ملین روپے گورنر ہائوس نے صرف ’’ کنوینس الائونس‘‘ میں اڑا دیے۔اٹھارہ لاکھ کا ٹیلیفون بل تھا۔تیس ملین بجلی کے بل تھے۔گیس کا بل آٹھ ملین تھا۔ شاہ فرمان صاحب کے اس گورنر ہائوس کی شان دیکھیے،گورنر کام کیا کرتا ہے یہ تو معلوم نہیں کہ لاٹ صاحب کی خدمت میں 243 مستقل ملازم ہیں۔20 ڈرائیور، 33 نائب قاصد ، 23 کلرک،16 خاکروب، 8 خانسامے ، 16 ویٹر اور جانے کون کون لاٹ صاحب کی خدمت کے لیے موجود ہیں۔وزیر اعظم صاحب نے بھینسوں کی نیلامی سے بائیس لاکھ اکٹھے کیے اور ادھر لاٹ صاحب نے صرف تحائف کی مد میں غریب قوم کے 20 ملین برباد کر دیے۔باقی صوبوں کا حال بھی یقینا ایسا ہی ہو گا۔اور پھر رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے ایوان صدر بھی موجود ہے ، جس کا سالانہ بجٹ 992 ملین ہے۔ اور ہاں یہ تو مجھے بھول ہی گیا کہ ایک ایوان بالا بھی ہے جسے سینیٹ آف پاکستان کہتے ہیں۔جہاں لیڈر آف دی ہائوس کا صرف گیس یوٹیلٹی الائونس 22 ہزار روپے ہے۔چار چار ایڈ ہاک ریلیف لائونس ہر رکن لیتا ہے۔جانے کون کون سی مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ مراعات اور نوازشات کا یہ کورم کب ٹوٹے گا؟