منتوں مرادوں آرزوئوں اور تمنائوں کے بعد معرض وجود میں آنے والی خوش نصیب حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ عوام کو مہنگائی کی چکی میں اس طرح پیس کر رکھ دیا ہے کہ انہیں دال روٹی‘ آٹے‘ چینی کے حصول کے علاوہ کوئی فکر دامن گیر نہیں رہنے دی۔ ادویات سے لے کر ضروریات تک اشیاء کی قیمتیں رات کو اور جبکہ صبح سویرے خریداری کے لئے جائیں تو ازخود نوٹس کی طرح دکانداروں‘ تاجروں‘سرمایہ داروں اور ساہوکاروں نے من مانے نرخ بڑھا رکھے ہوتے ہیں۔ اب تو حالت یہ ہے کہ ایک خریدار نے آٹھ ہزار روپے کی خریداری ایک شاپنگ کے برابر کی تو شاپنگ بیگ میں ابھی دو ہزار روپے کی اشیاء سمیٹے جانے کی گنجائش تھی۔ دکاندار کو کوسنے اور طعنے دینے کے انداز میں گاہک نے کہا کہ ہر چیز کو آگ لگی ہوئی ہے‘ دکاندار بھی ہر گاہک کو وضاحتیں کر کرکے بیزار بیٹھا تھا۔ کہنے لگا کہ شکر کرو آٹھ ہزار روپے کا شاپر بھر گیا ہے۔اگر دو تین سال یہی چلن رہا تو اتنی اشیائے خورو نوش کو خریدنے کے نہیں’’دیدار‘‘ کے پیسے بھرنا پڑیں گے۔ گاہک شرمندہ ہو کر دکاندار کے تھڑے سے اتر گیا۔ راستے میں اسے دوسری بار حج اور عمرہ کا ارادہ رکھنے والے حاجی صاحب مل گئے۔ وہ بھی کوشش اور ضبط کے باوجود مہذب انداز میں صلواتیں سناتے ہوئے بولے کہ اس بار تو کورونا کی وجہ سے اور کچھ مہنگائی نے امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اتنی دیر میں ایک استاد اور پروفیسر صاحب آ گئے جنہوں نے حج اور عمرے کا آسان بلکہ مفت طریقہ بتایا وہ کہنے لگے کہ آپ نے سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کا یہ بند نہیں پڑھا۔ ایہہ تن میرا چشمہ ہووے تے میں مرشد ویکھ نہ رجاں ہو لوں لوں دے مڈھ لکھ لکھ چشمہ ہووے‘ اک کھولاں اک کجاں ہو ایتناں ڈٹھیاں صبر نہ آوے ہور کسے ول پجھاں ہو مرشد دا دیدار اے مینوں‘ لکھ کروڑاں حجاں ہو پروفیسر صاحب نے بتایا کہ اب تصوراتی حج اور عمرے کرو‘ وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس بند کے بارے میں صاحبزادہ نجیب سلطان صاحب نے ایک بار وضاحت کی تھی کہ سلطان العافین نے یہ بند آقائے دوجہاںؐ کے بارے میں لکھا ہے کہ مرشد سے مراد پوری کائنات کے مرشد آقائے نامدار ہیں کہ باہوؒ زمانے میں کہ میرا تن من سراپا آنکھ بن جائے تو اس عظیم المرتبت مرشد کا دیدار کرتے کرتے آنکھ سیر نہ ہو ایک ایک بال کی جڑ میں لاکھ لاکھ آنکھیں ہوں‘میں ایک آنکھ کھولوں اور ایک آنکھ میں چھپا لوں۔ اتنے دیدار اور زیارت کے باوجود مجھے صبر نہ آئے اور ایسے میں ‘میں کسی اور کی طرف کیوں دوڑوں؟آقا نبی کریمؐ کا دیدار اور زیارت مجھے لاکھوں بلکہ کروڑوں بار حج کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ بدقسمتی سے آج کے دور نے بالخصوص سوشل میڈیا نے علم و ادب اور عمل سے دوری پیدا کرنے میں انتہا کر دی ہے۔ آج کے نوجوانوں یا طلباء سے صوفیا کے کلام کے بارے میں کلام کریں تو وہ سراپا حیرت بن کر کہیں گے صوفی کیا ہوتا ہے عارفانہ کلام سے مراد وہ عارف لوہار کے گائے ہوئے کلام کے بارے میں بتا کر سمجھتے ہیں کہ علم کے سمندر کی تہہ سے گویا نایاب سے ثناور ہو گئے ہیں۔ وہ کیا زمانہ تھا کہ جب گائوں کے چوپال میں وارث شاہؒ کی شہرہ آفاق ’’ہیر‘‘ گائی جاتی تھی اور مقابلہ ہوتا تھا۔کسی بھی زبان میں صوفیاء بابا خوشحال خاں خٹک‘ سچل سرمست‘ میاں غلام رسول عالم پوری اور دیگر شعراء نے اپنے فن کا لوہا منوایا۔ پنجاب کی سدا بہار اور زرخیز زمین کی کوکھ سے جن صوفیاء عظام نے جنم لیا اور لافانی کلام لکھا‘ ان میںبابا بلھے شاہؒ ‘ ،بابا فرید،ؓ خواجہ غلام فریدؒ، ‘ شاہ حسین،ؒؒ‘ سلطان باہوؒ،‘ پیر مہر علی شاہؒ‘ کھڑی شریف ، میاں محمد بخشؒ اور دیگر صوفیاء نے معرفت کے وہ راز چند مصرعوں میں افشاء کئے کہ پڑھنے والا حیرت کدے میں گم ہو جاتا ہے۔ اس کی تفصیل پھر کبھی سہی آج کی نوجوان نسل کے لئے میاں محمد بخشؒ کے شہرہ آفاق کلام کی ایک جھلک پیش کی جا رہی ہے کہ جنہوں نے پنجابی زبان کو زندہ و جاوید کر دیا، ورنہ کاٹھے انگریز کے پیرو کار تو پنجابی زبان پر ہی پابندی عائد کر چکے ہوتے۔ تھور کیکر دی گوڈی کریے امب کدی نئیں لگدے اصلاں نال جے نیکی کریے نسلاں تک نئیں بھل دے بد نسلاں نال جے نیکی کریے پٹھیاں چالاں چل دے آخر پر میاں محمد بخشؒ کا یہ شعر تو ضرب المثل بن چکا ہے جو آبِ زر سیلکھنے کے قابل ہے نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کِسے نئیں پایا ککر تے انگور چڑھایا ہر گُچھا زخمایا