ایسے لگتا ہے کہ کمزور بہت ہے تو بھی جیت کر جشن منانے کی ضرورت کیا تھی اس جشن پر تو بعد میں بات کرتے ہیں جو ن لیگ اور پیپلز پارٹی پرویز مشرف کی سزائے موت کے فیصلے پر منا رہی ہے پہلے ایک وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ ’’غداری‘‘ کا لفظ سزائے موت سے زیادہ بدتر یا شدید ہے۔ بات تو ساری احساس کی ہے۔ ایک کہانی میں ہم پڑھا کرتے تھے کہ ایک کردار پر جھوٹا الزام تھا اور وہ اس الزام سے بری ہونے کے بعد بھی جھوٹا مشہور ہو گیا اس نے اسے دل پر لیا اور وہ یہ کہتے ہوئے مر گیا کہ ’’جھوٹا کہلوانے سے بہتر ہے کہ آدمی مر جائے‘‘غداری تو اس سے بھی زیادہ قبیح اور مجرمانہ فعل ہے۔ اس سے پیشتر بھی میں ایک قطع لکھ چکا ہوں جسے عوامی پذیرائی ملی تھی کہ مشرف کچھ بھی ہو سکتا ہے غدار نہیں۔ میرے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں پرویز مشرف کے خلاف وکلاء تحریک کاحصہ رہا ہوں اور اسے فرعون لکھتا آیا ہوں۔ مگر یہاں معاملہ کچھ اور ہے کہ جب آپ اسے غدار قرار دیتے ہیں تو آپ فوج کے سربراہ ہی کو نہیں پورے ادارے کے سیٹ اپ پر حملہ آور ہیں۔ دیکھیے بات ہو رہی ہے کہ آئین میں یہ لکھا ہوا ہے۔ آئین میں تو اور بھی بہت کچھ لکھا ہوا ہے۔ ویسے بھی آئین توڑنے کے جرم میں غدار لکھنے کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اپنے حلف کو ایفا نہیں کیا۔ اس کا کفارہ ہو سکتا ہے یا سزا۔ مگر غداری کا لفظ تو ملک دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرویز مشرف قوم کے مجرم ہیں کہ انہوں نے آئین توڑا‘ ایمرجنسی لگائی اور اس کے بعد بھی بہت کچھ کیا جو ناقابل تلافی ہے۔ ان کے فرد جرم میں جامعہ حفصہ‘ اکبر بگٹی اور باجوڑ مدرسہ جیسے کیس ہیں۔ امریکہ کے ایک فون پر سرنڈر کر کے اپنی پہچان اور تشخص کو بدلنے کی کوشش بھی ہے۔ میں اب نہیں لکھ رہا بلکہ پرویز مشرف کے بارے میں یہ سب کچھ لکھا تھا: اس نے چوروں سے سرعام شراکت کی ہے اس نے قاتل کو بھی مسند پہ بٹھا رکھا ہے اے خدا لوگ تجھے دیکھتے ہیں اور تونے ایک فرعون کی مہلت کو بڑھا رکھا ہے بات مگر یہ ہے کہ کیا اکیلا پرویز مشرف ہی سب کچھ تھا یا پھر اس کے لئے ماحول کو سازگار بنانے والے۔ اس لوہے کے کلہاڑے میں لکڑی کا دستہ کون تھا۔ نظریہ ضرورت کس کے ہاتھ میں تھا۔ اس سے بھی آگے چلتے ہیں کہ اس آمر سے دس سال کا معاہدہ کس نے کیا اور اس معاہدے کو قوم سے بھی چھپایا اور پھر ایک اور معاہدہ کر کے اسی آمر کو ملک سے خود نکالا’’اک بات کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے‘‘ اور آگے آئیے۔ 17ویں ترمیم پر دستخط کس کے ہوئے۔’’کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں‘‘ پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کس نے کیا۔ یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ ان کے ہاتھ سے دونوں جماعتوں نے حلف بھی اٹھایا اور یہ کام کالی پٹیاں بازوئوں پر باندھ کر کیا حالانکہ وہاں امام ضامن باندھنا چاہیے تھا۔ اب سب کے سب اٹھ کر جشن منا رہے ہیں اور بلاول صاحب فرماتے ہیں کہ جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے۔ جناب کون اس بات کو نہیں مانتا ہم تو اس کی تصدیق کرتے یں کہ اس جمہوریت نے جو انتقام ہم عوام سے لیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔وہ انتقام اب جمہوریت کے نام پر عمران خان لے رہے ہیں: وہ یہ کہتے ہیں کہ کیا میں نے بگاڑا تیرا ہم کبھی بیٹھ کے سوچیں گے سلامت کیا ہے تب کا چھوڑیے آپ اب کا معاملہ ہی دیکھ لیں کہ آپ لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ یہ نواز شریف کا قید سے نکل کر لندن پہنچنا۔ زرداری کے بعد خورشید شاہ اور فریال تالپور کا رہا ہو جانا کس بات کی غماضی کرتا ہے۔ میں کوئی فیصلے کو بالکل غلط نہیں کہہ رہا کہ یہ ایک دن ہونا ہی تھا: قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن مگر یہ ٹائمنگ بہت عجیب ہے کہ اس صورت حال میں ادارے مقابل آن کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ ملک کے لئے کسی صورت بھی اچھا نہیں۔ وکلا والا واقعہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا کہ عوام غم و غصہ کی حالت میں ہیں کہ دہشت گردی کرنے والوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔ مگر یہاں تو ایک اور مسئلہ کھڑا کر دیا گیا۔ ایک پروٹکشن کی صورت حال نظر آ رہی ہے۔ فوج کا فیصلہ کے خلاف فوری ردعمل بھی سب کچھ واضح کر رہا ہے۔ اس حکومت کا فوج کے ساتھ کھڑے ہونا کوئی عجوبہ نہیں بلکہ عین فطری ہے۔ عدیم ہاشمی نے کہا تھا: ایک ہے میری انا ایک انا کس کی ہے کس نے دیوار اٹھا دی مری دیوار کے ساتھ عجیب سی مثال مگر ہے تو حقیقت کہ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں فصل تو اجڑے گی اور بری طرح سب کچھ پامال ہو سکتا ہے۔ جو موقع پرست ہیں وہ ہر دور میں عیش کرتے رہیں گے۔ اس قبیل کے سب لوگ‘ ان کی ہمیشہ پانچوں گھی میں رہی ہیں اور سر کڑھائی میں۔عوام بے چارے پریشان ہیں کہ ایک ڈر یہ بھی ان کے دل سے نہیں جاتا کہ کہیں ساری بساط ہی لپیٹ نہ دی جائے۔ یہ بھی درست کہ فوج کا سیاسی عمل دخل ہرگز درست نہیں۔ مگر سیاستدانوں کی کارستانیاں اور لوٹ مار کس کو ہضم ہو رہی ہے۔ آپ ایک خورشید شاہ ہی کو دیکھ لیں کہ ایک میٹر ریڈر سیاست میں آ کر ارب پتی کیسے بنا۔ 1۔ والیم 10کو لیں نواز شریف کو پھانسی دیں۔ 2۔ میمو گیٹ کو لیں اور زرداری کو لٹکائیں۔ 3۔ ڈان لیکس پر مریم صفدر کو پھانسی دیں۔ 4۔ ماڈل ٹائون کیس میں شہباز شریف کو پھانسی دیں۔ 5۔ بلدیہ ٹائون کیس میں الطاف حسین کو لٹکائیں۔ یہ عوامی ردعمل کی ایک جھلک ہے۔ بات پھر وہیں آتی ہے کہ سب اداروں کے سوچنے کا وقت ہے کہ اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ ہوتا یہی آیا ہے کہ ان اداروں کو سیاستدانوں نے استعمال کیا اور پھر ایک ادارے نے سیاستدانوں کو استعمال کیا۔ہوتے ہوتے آخر دو متحارب گروپ بن گئے۔ اس وقت جبکہ کشمیری بے چارے محصور ہیں اور مودی مسلمانوں کے خلاف قوانین بنوا رہا ہے۔ ہم آپس کی لڑائی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اپنی اپنی غلطیوں کا احساس کرنے کا وقت ہے عدلیہ کے فیصلوں میں تعصب نظر نہیں آنا چاہیے۔ پرویز مشرف کے پاس ابھی ایک موقع ہے وہ آ کر اپنا کیس لڑیں۔ ان کو سنا جائے۔ اقبال کے شعر کے ساتھ اجازت: فرو قائم رابط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں