جوں جوں حج قریب آ رہا ہے حاجیوں کی مصروفیت بڑھتی جا رہی ہے۔ روضہ رسولؐ کی جلوہ آرائی کی اپنی شان تھی اور وہاں کی حاضری میں ایک اور طرح کی ٹھنڈک اور راحت تھی کہ وہ جمال ہی جمال ہے اور نور علی نور ۔ادھر مکہ میں جلال ہے۔ خانہ کعبہ پر نظر نہیں ٹھہرتی مگر یہ کیا کہ میں نے تو اسے دیکھتے ہی دعا کر ڈالی کہ مولیٰ اپنی قربت عطا کر حاجی مدینہ کو یاد کرتے ہیں کہ حج کے بعد پھر حاضری کی صورت چاہتے ہیں مجھے رہ رہ کر احمد ندیم قاسمی کی وہ نعت یاد آ رہی ہے جو انہوں نے وہاں سے واپسی پر مشاعرہ میں سنائی تھی۔ جس کا ایک شعر یہ تھا: یہ کہیں خامئی ایماں ہی نہ ہو میں مدینے سے پلٹ آیا ہوں وہاں جنت البقیع میں دفن ہونا کسی سعادت سے کم نہیں۔ مدینہ میں بھی ہم نے تقریباً ہر نماز کے بعد جنازہ پڑھا۔ یقینا ایک سے زیادہ میتیں بھی ہوتی ہونگی۔ محسوس ہوتا ہے کہ لوگ قرب و جوار ہی نہیں دور دور سے میت لے آتے ہیں کہ بخشش کی سبیل بن جائے ۔ ویسے بھی لاکھوں لوگ دعا میں شامل ہوتے ہیں مکہ میں بھی اسی طرح ہے۔ مکہ میں تو روز بروز رش بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ کڑکتی دھوپ میں بھی طواف جاری ہے۔ بیگم صاحبہ چھتری ساتھ لے کر گئی تو میں نے کہا کہ اتنے لوگوں میں چھتری کون سنبھال سکتا ہے وہاں تواپنے آپ کو توازن رکھنا ہی بڑی بات ہے۔ نائیجریا سے آئے ہوئے سیاہ فام گزرتے ہیں تو لوگوں کے اس سمندر میں ارتعاش نہیں بھنور سا پڑ جاتا ہے۔ کچھ طاقتور تو مجمع کو چیرتے ہوئے حجرہ اسود کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ طواف مکمل کر کے باہر نکلنے والے بھی بہت مسائل پیدا کرتے ہیں۔ آپ اندارہ کریں کہ نیچے اور تین منزلوں پر یعنی چار جگہ لوگ طواف کرتے ہیں اوپر کی منزل پر سفر بہت بڑھ جاتا ہے۔ جو بھی ہے طواف کرنے کا اصل لطف نیچے ہی ہے۔ پسینہ بھی نہیں آتا۔ لوگ جوش اور جذبے سے دعائیں پڑھ رہے ہوتے ہیں ایک تقدیس طہارت اور پاکیزگی رگ و پے میں محسوس ہوتی ہے۔ اب مقتدر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ حج کے قریب اپنی رہائش گاہ کی مسجد میں نمازیں ادا کریں کہ فقہی مسئلہ کے تحت یہ رہائش گاہیں حدود کعبہ میں آتی ہیں اور یہاں بھی ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے علما دلیل کے طور پر معراج کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی لوگ کشاں کشاں خانہ کعبہ کی طرف جاتے ہیں بعض تو رات بھی وہیں رہتے ہیں۔ کچھ کھانے کے لئے وہیں آتے ہیں کہ سرکاری کھانے کے بعد کچھ نہیں ملتا۔ کھانے کا ذکر چلا ہے تو اس ضمن میں سن لیں کہ یہاں وزارت حج کی جانب سے نہایت عمدہ انتظام ہے۔ شکایت اگر ہے تو انہیں حاجیوں سے ہے یہ بالکل برعکس قسم کی صورت حال ہے بیان کرتے ہوئے مجھے اچھا تو نہیں لگتا مگر یہ حقیقت ہے کہ حاجیوں کی اس حوالے سے بھی تربیت بہت ضروری ہے۔ کھانا اگرچہ وافر اور اچھا ہے مگر حاجیوں کی اکثریت حشر سامانی کرتی ہے۔ لائن بنتی ہے مگر کئی آزاد منش اس کی پروا نہیں کرتے۔ ایک آدمی چار چار پانچ پانچ آدمیوں کا کھانا لیتا ہے۔انتظامیہ منع نہیں کرتی۔ اگر ایک دہی اور ایک لسی یا ایک سیب ملتا ہے تو اس پر قناعت نہیں کی جاتی ۔ حاجیوں کو چاہیے کہ ضرورت کے مطابق سالن ڈلوائیں۔ کوئی منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ لوگوں کو منع کیا گیا اور لکھ کر بھی لگایا گیا کہ کمروں میں کھانا نہ لے جائیں مگر کئی اس ممانعت کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھتے۔ میں نے ایک بزرگ کو حلوہ کھاتے دیکھا تو وہ بیٹے کو کہہ رہا تھا ’’دیکھنا ذرا پیچھے حلوہ ختم نہ ہو جائے‘‘ یعنی اورلے آئو۔ وزارت حج نے انتظامات خوب کئے ہیں چیکنگ کے لئے بھی کچھ لوگ آتے ہیں۔ وہیں ہماری ملاقات لوئر مال کے ڈی ایس پی شوکت علی شیخ سے ہوئی۔ وہ یہاں سیکٹر کمانڈر کے طور پر سیکٹر 6کو دیکھنے آئے تھے۔ سرسری سی ملاقات سے ان کی مصروفیت معلوم ہو گئی گائیڈ کرنے کے لئے ان کے کئی معاون ہیں۔ سچ پوچھیے تو سرکاری حج پرائیویٹ حج سے کہیں آسان اور بہتر ہے کوئی پریشانی نہیں۔ یقینا وزارت حج مبارکباد کی مستحق ہے۔ یہاں مسجد میں درس بھی ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ آئے ہوئے قاری امجد دیتے ہیں اور ان کا یہاں ہونا غنیمت سے کم نہیں۔ انڈیا کے ایک عالم بھی سعودی حکومت کی طرف سے آئے تو انہوں نے بہت پیاری اور ایمان افروز باتیں کیں انہوں نے کہا کہ تین چیزیں حج کی قبولیت کے لئے لازمی ہیں۔ پہلی یہ کہ حج کس کے لئے کرنا ہے یقینا اللہ کے لئے دوسرا یہ کہ کیسے کیا جائے۔ یعنی ویسے جیسے رسول پاک ؐ نے کیا۔ حضورؐ نے خود کہا کہ ان سے مناسک حج سیکھ لیں۔ تیسری بات یہ کہ اپنا جائزہ لیں کہ آپ نے حرام تو نہیں پہنا۔ کسی کا حق تو نہیں ماراوغیرہ وغیرہ اپنا جائزہ لینا ضروری ہے۔ کسی نے حج کی قبولیت کی نشانی پوچھی تو انہوں نے کہا کہ حج سے واپسی پر آپ اگر تبدیلی محسوس کریں کہ برے کام سے آپ رکتے ہیں تو حج قبول ہی قبول ہے۔ ایسے ہی جیسے نماز برائی سے روکتی ہے۔ پاکستانی عزیزیہ میں ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ یہ مکہ کے مضافات میں محسوس ہوتا ہے۔ دوسرے غیر ملکی بھی ادھر ہیں کہ یہاں بے شمار ملٹی سٹوری عمارتیں ہیں۔ یہاں سے ایک فائدہ یہ ہو گا کہ منیٰ ساڑھے تین کلو میٹر ہے۔پہلے وہیں جا کر ہم نے ظہر‘ عصر‘ مغرب اور عشا پڑھنی ہے۔ اس کے بعد عرفات جائیں گے جو وہاں سے 12کلو میٹر کے فاصلے پر ہے وہاں سے دعائیں مانگنے کے بعد مغرب پڑھے بغیر مزدلفہ کے لئے نکلیں گے۔ ٭٭٭٭٭