اس میں شک نہیں کہ ماضی کی حکومتوں کے برعکس عمران خان نے کشمیر کو عالمی اسٹیج کے مرکز پہ پہنچا دیا ہے۔ بھارت کے حالیہ غیر آئینی اقدام کے بعد ماضی میں ہمارے حکمرانوں کی مسئلہ کشمیر سے مجرمانہ چشم پوشی کی روایت سے کچھ بعید نہیں تھا کہ دو چار مذمتی بیانات کے بعد وہی خاموشی چھا جاتی جوعشروں پہ محیط ہے۔یہ عمران خان کا بہت بڑا کریڈٹ ہے کہ انہوںنے برسوں بعد مسئلہ کشمیر کو اس طرح زندہ کیا ہے کہ اب اسے دبانا بھارت کے لئے مشکل ہوگیا ہے۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ اس سے قبل بات ساڑھیاں بھجوانے، آم کھلانے اور بھارتی سرمایہ داروں سے چوری چھپے مشکوک ملاقاتوں تک محدود تھی۔عمران خان کشمیر کے لئے حالت امن میں دستیاب ہر سفارتی حربہ استعمال کررہے ہیں۔یہ ان ہی کی مسلسل سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج مسئلہ کشمیر پچاس سال بعد سلامتی کونسل کا موضوع بنا۔ صدر ٹرمپ نے ایک بار نہیں دوسری بار ثالثی کی پیشکش کی۔روس نے ویٹو نہیں کیا۔ فرانس خاموش رہا۔اب پاکستان کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف عالمی عدالت انصاف کا در کھٹکھٹائے گا۔یہ وہ اقدامات ہیں جو گزشتہ ستر برسوں میں اگر تسلسل سے ہوتے رہتے تو آج شاید خطے کا سیاسی ہی نہیں جغرافیائی نقشہ بھی مختلف ہوتا۔معاف کیجیے گا اب یہ اقدامات بعد از مرگ واویلا سے زیاد ہ اہمیت نہیں رکھتے اور ہمیں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی موت دکھا کر مقبوضہ کشمیر سے دستبرداری کے بخار پہ راضی کرلیا گیا ہے۔بدقسمتی سے عمران خان اس وقت برسراقتدار آئے ہیں جب مریض کو دوا کی نہیں سرجری کی ضرورت ہے۔کیس تو گزشتہ حکومتوں نے اپنی نااہلی، مفاد پرستی،خود غرضی اور بے حسی کے ہاتھوں اتنا خراب کردیا تھا کہ اقوام عالم کو علم ہی نہیں تھا کہ کشمیر میں ہو کیا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ستر برسوں سے کشمیر میں مسلم نسل کشی جاری ہے اور آبادی کا تناسب تبدیل کیا جارہا ہے۔عورتوں کی عصمت دری ہورہی ہے۔بچے اور نوجوان غائب کرکے شہید کئے جارہے ہیں۔ناکے اور محاصرے بھی کوئی آج کی بات نہیں۔ ہمارا سرکاری ٹی وی ہر سال یوم کشمیر پہ ایک گھسی پٹی فوٹیج کے سوا کچھ دکھانے کا روادار نہیں تھا۔نواز شریف صاحب اس میں بھی ڈنڈی مار گئے تھے۔ہم تو اس قابل بھی نہیں تھے کہ کشمیر یہ ایک ڈھنگ کی فلم ہی بنا سکیں۔یہ سعادت بھی ایک بھارتی فلم ساز وشال بھردواج کو حاصل ہوئی جنہوں نے فلم حیدر میں کشمیر کے نوجوان کی نفسیاتی اور ذہنی اذیت کو اس سفاکی سے فلم بند کیا کہ آج تک اس کی اذیت مجھے دل میں محسوس ہوتی ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ ہدایت کار نے زیب داستان کے لئے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے ۔اس فلم کی ریلیز کے کچھ سال بعد حریت رہنما سید علی گیلانی کی صاحبزادی اور نواسی میرے گھر مہمان رہیں۔ مذکورہ فلم حیدر کا اسکرین پلے ان کے گھر کے ڈرائنگ روم میں لکھا گیا تھا۔ میں نے کسی خوش گمانی کے پیش نظر سوال کیا کہ کیا واقعی مقبوضہ کشمیر میں حالات اتنے ہی خراب ہیں جتنے دکھائے گئے ہیں؟ان کا جواب تھا کہ جو کچھ آپ نے دیکھا ہے وہ محض تیس فیصد ہے۔آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ قدم قدم پہ ناکے،بھارتی فوجیوں کا شرمناک رویہ،آئے روز کے چھاپے،عصمت دری،توہین،قتل ،گمشدگی،حراستی مراکز اور جبر کے روز نئے ہتھکنڈے آپ کی نفسیات پہ کیا اثر ڈالتے ہیں۔انسانی حقوق کی خلاف ورزی عالمی قوانین انصاف کی محض ایک اصطلاح ہے۔ کشمیر اس سے بہت آگے جہنم کی طرح جل رہا ہے۔اس دلخراش گفتگو کے دوران ہی خبر آئی کہ فلم حیدر میں کام کرنے والے نوجوان ثاقب بلال کو بھارتی فوج نے بربریت کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کردیا۔اس کی عمر محض پندرہ سال تھی۔ہم خاموشی سے سری نگر کی زعفران کا قہوہ پیتے رہے۔ قہوہ میں ثاقب بلال کے گرم لہو کی خوشبو تھی۔میں نے پیالی ہونٹوں سے ہٹالی۔اس کے بعد چن چن کر نوجوان طالبعلم اور استاد شہید کئے جاتے رہے۔ نسل کشی کا ایک میکنزم ہوتا ہے۔جب کسی خطے کی ڈیموگرافی تبدیل کرنا مقصود ہو تو تین قسم کے جرائم کا پوری شدت سے بلاجھجھک ارتکاب کیا جاتا ہے۔ایک نوجوانوں اور بچوں کا قتل عام۔دوسری عورتوں کی اجتماعی عصمت دری تاکہ نسل تبدیل ہوسکے تیسرا بچی کچھی آبادی کو ہنکال کر نقل مکانی پہ مجبور کرنا۔یہی قدیم تاریخ میں بھی ہوتا آیا ہے اور لیگ آف نیشنز کے بعد والی اقوام متحدہ کے بعدجنم لینے والی مہذب دنیا گواہ ہے کہ اگر یہ جرائم مسلمانوں کے خلاف ہورہے ہوں تو سلامتی کونسل،اقوام متحدہ کے امن مشن اور تمام بڑی طاقتیں تماشا دیکھنے اور روایتی بیان بازی کے سوا کچھ نہیں کرتیں۔ ہم اس حقیقت کو جب تک تسلیم نہیں کریں گے فریب کا شکار ہوتے رہیں گے یا حارث سلاجیک کی طرح نم آنکھوں اور رندھے گلے کے ساتھ دہائیاں دیتے رہیں گے۔عمران خان نے اس حقیقت کو پہچانا ہے۔ تاریخ اور مسلم تاریخ پہ ان کی گہری نظر ہے ۔یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کمال چابکدستی سے مودی کو ہٹلر بنا دیا۔ یہ ایک ایسا استعارہ تھا جسے امریکی سیاست پہ چھائے یہود یوں سے زیادہ کون سمجھ سکتا تھا۔ نازی ازم کے ڈسے ہوئے یہودیوں نے ساری دنیا سے انتقام لیا۔بی جے پی کو نازی سے تشبیہہ دے کر عمران خان نے جہاں یہودیوں کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا وہیںبھارت کو بھی بتا دیا کہ بدنامی بہت ہوگی۔انہوں نے دنیا کو یہ بھی باور کروادیا کہ اب کشمیر سے جو عسکریت اٹھے گی وہ ساری دنیا کو لپیٹ میں لے گی۔یہ بھی جتا دیا کہ جنگ ہوئی تو روایتی جنگ میں ہم آپ سے کب لڑ سکتے ہیں۔یہ ایک ایٹمی جنگ ہوگی اور اس کا ذمہ دار بھارت ہوگا۔ عمران خان نے خود کو دنیا بھر میں کشمیر کا سفیر قرار دے کر قابل ستائش کام کیا لیکن کیا حارث سلاجیک اور عزت بیوگویچ ساری دنیا میں بوسنیا پہ ٹوٹ پڑنے والی قیامت کی دہائیاں نہیں دیتے رہے تھے؟کیا اسی سلامتی کونسل نے بوسنیا میں امن مشن تعینات نہیں کیا تھا جس میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس امن مشن کاکام بس اتنا تھا کہ سربوں اور کروٹوں کے ہاتھوں قتل عام کے بعد مسلمانوں کی لاشوں کو ٹھکانے لگا دے ۔ کشمیر بوسنیا نہیں ہے۔ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسا فلیش پوائنٹ ہے جو دنیا کا امن تباہ کرسکتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ہم ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم یف کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن شمالی کوریا جیسے انتہائی کمزور ملک نے اپنی جوہری طاقت کا فائدہ اٹھا کر امریکہ کو ثالثی پہ مجبور کردیا تھا۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم جوہری ہتھیار استعمال نہیں کریں گے کیونکہ ہم ایک ذمہ دار ملک ہیں تو آپ کے پاس کیا آپشن رہ جاتا ہے۔ آپ جنگ کے موڈ میں نہیں ہونگے، شاید اس پوزیشن میں بھی نہ ہوں لیکن امن عالم کو تہہ وبالا کرنے کی دھمکیوں کا آپ کے پاس آپشن بھی ہے اور حق بھی۔اس پہ غور کرنا ہوگا ورنہ ایک جنگ مسلط کرہی دی گئی تو آپ کیا کریں گے؟