کس رعونت سے آئے تھے۔ کس خجالت سے نکالے جائیں گے۔ امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے لیکن باعزت واپسی کا کوئی تو راستہ ہو۔کل کے مجاہدین جس طرح آج افغان لیڈروں کے ساتھ بھوربن میں بیٹھے خوش گپیاں کررہے ہیں،کیا حرج تھا اگر نوے کی دہائی میں یہی راہ اپنا لی جاتی۔مرحوم قاضی حسین احمد نے گلبدین حکمت یار کو ربانی اور احمد شاہ مسعود سے صلح کا مشورہ دیا جو حکمت یار نے رد کردیا۔ اس قصے کے راوی معروف صحافی اور افغان امور کے ماہر اسلم خان ہیں جنہوں نے راقم کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر یہ قصہ سنایا اور اپنے کئی کالموں میں اس کا ذکر بھی کیا ۔ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے حکمت یار کا انکار قاضی حسین احمد کو پہنچایا تو انہوں نے اس شدت سے رد عمل دیا کہ قاصد کو اپنی جان اور عزت دونوں خطرے میں پڑتے نظر آئے اور وہ دم سادھے چپ چاپ آتش فشاں سے شرر پارے پھوٹتے دیکھتا رہا۔لب لباب یہ تھا کہ اب حکمت یار ہمیں شریعت اور حکمت سکھائے گا؟پاکستان میں کچھ لوگوں کو کس بات کا زعم تھا کہ وہ روس کے شرمناک انخلا اور انحطاط کے بعد آپس میں برسر پیکار مجاہدین ہمیشہ ہی ان کے کہے پہ لبیک کہیں گے۔ آج لیکن وہ کون ہے جس کے خوف سے یہی گلبدین حکمت یار ستاون افغان لیڈروں کے ہمراہ بھوربن میں بیٹھے پاکستان کی امن کوششوں کو سراہ رہے اور طالبا ن کو امن مذاکرات کا مشورہ دے رہے ہیں؟کیا طالبان ان ہی لیڈروں کی آپسی چپقلش ، اقتدار پہ قبضے کی خواہش اور اس کے نتیجے میں ہونے والی خانہ جنگی اوراس جنگ سے تباہ حال افغانستان کے کھنڈر بن جانے سے تنگ آکر مدرسوں سے نہیں نکل آئے تھے؟ جنرل نصیر اللہ بابر جنہیں اپنے بچے کہا کرتا تھا۔ بچے کتنے بڑے ہوگئے۔ جب یہ بڑوں کو سمجھاتے تھے تو کون سنتا تھا؟آج یہ کسی کی کیوں سنیں؟ ملا عمر طالبان کے بجنگ آمد کا قصہ یوں سناتے تھے:ایک دن میں مدرسے میں بیٹھا پڑھ رہا تھا۔اچانک کتاب بندکردی ۔ اپنے ساتھ ایک طالب کو لیا ۔ہم سڑکوں پہ گھومتے رہے۔ اللہ کا دین پامال کیا جارہا تھا۔ لوٹ مار جاری تھی۔عزتیں محفوظ نہ رہی تھیں۔فسق وفجور کا بازار گرم تھا۔کسی کو اللہ کے دین کی پروا نہیں تھی۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اگر ہم اللہ کے لئے یہ تعلیم حاصل کررہے ہیں تو اللہ ہی کے لئے یہ تعلیم چھوڑنی ہوگی۔ہم نے طلبا کو اقامت دین کے لئے جہاد پہ مائل کیا۔اگلے دن تک تریپن طلبا کشک نخود میں جمع ہوئے۔ہم نے جہاد کا آغاز کیا کہ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔یہی ملا عمر فاتح کی حیثیت سے کابل میں داخل ہوئے اور امیر المومنین کہلائے۔گلبدین حکمتیار ایران چلے گئے جہاں وہ چھ سال ایرانی حکومت کی نگرانی میں پناہ گزین ہوئے۔ کہاں اسلام آباد ، پشاور اور پنڈی کی کھلی فضائیں اور کھلے بازو والے میزبان اور کہاں کڑی نگاہ رکھنے والے ایرانی نگہبان۔ حکمت یارکو پاکستان کی یاداکثر ستاتی رہی۔ خود ساختہ جلا وطنی کے اس دور میں سابق مجاہد نے اسرار القران لکھی ہی نہیں ریڈیو تہران پہ سنائی بھی۔نائن الیو ن کے بعد ایران نے امریکہ اور کرزئی انتظامیہ کے دبائو پہ انہیں ملک بدرکردیا اور ایران میں حزب اسلامی کے دفاتر بند کردیے گئے۔ امریکہ کو ان پہ اسامہ بن لادن کی معاونت کا شک بھی تھا۔ اس کے بعد وہ کسی نامعلوم مقام پہ پائے گئے۔ شنید ہے کہ پاک افغان سرحد کے آس پاس کسی دیہات میں وہ مامون و محفوظ رہے۔ اس دوران امیر المومنین ملا عمر کاپر امن افغانستان امریکہ کے غیض و غضب کا نشانہ بن رہا تھا۔ ان پہ اسامہ بن لادن کی حوالگی کا دبائو تھا۔ طالبان کی حکومت میں برسوں کی خانہ جنگی اور بدامنی سے بے حال افغانستان کو ایک عرصے بعد امن نصیب ہوا تھا۔ پاکستان سے طالبان کے اساتذہ مفتی شامزئی اور دیگر ملا عمر کو سمجھانے اور کوئی راستہ نکالنے کے لئے کئی روز تک آتے جاتے رہے۔ مولانا شاہ احمد نورانی قائد اہلسنت نے ایک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بھی حکومت نے ملا عمر سے بات چیت کے لئے بھیجنا چاہا لیکن میں ان سے کیا کہتا کہ تم بیعت توڑ دو اور امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال دو۔میں تو ان سے کہتا کہ نہیں تم ڈٹ جائو اور مقابلہ کرو۔بیعت کی اہمیت ہم سے زیادہ کون جانتا ہے۔ یہی بات مجاہد جلیل جلال الدین حقانی نے اسلم خان سے کہی۔میں نے ملا عمر کے ہاتھ پہ بیعت کرلی ہے۔ اب یہ شرعی مسئلہ ہے۔جہاد جاری رہے گا۔ کیا قاضی حسین احمد مرحوم کو جلال الدین حقانی سے کچھ کہنے کی ہمت ہوئی؟کابل میں تو کٹھ پتلی حکومت ہی تھی۔ اس وقت مجددی کی تو اس وقت کرزئی اور غنی کی۔ یہ باتیں مجاہدوں کی سمجھ نہیں آتیں۔جلا وطن ہونے والوں کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ بیس سالہ جلا وطنی کے بعد جب حکمت یار سے پابندیاں اٹھائی گئیں، ان سے دہشت گردی کا لیبل اتارا گیا،ان کے اکاونٹس رواں ہوئے اور سب سے بڑھ کر انہیں کابل میں قدم رنجہ فرمانے کی اجازت ملی تو اس شان سے کہ انہوں نے کابل میں صدارتی محل میں خطاب کیا اور دہائیوں قبل کمیونسٹ دور میں اپنے جلال آباد حملے پہ ندامت کا اظہار بھی کیا کہ اس تقریب میں اسی حملے میں زخمی ہونے والے حنیف اتمر بھی موجود تھے۔ اس وقت جب طالبان افغانستان کے نصف پہ حکومت کررہے تھے اور امریکہ یہاں سے باعزت واپسی کی راہ ڈھونڈ رہا تھا امن کا پرچم ہاتھ میں تھامے گلبدین ہی نہیں رشید دوستم بھی کابل پدھارے تھے۔ان بیس سالوں میں طالبان کی حکومت امارات اسلامی کس رعونت کے ساتھ ملیا میٹ کردی گئی۔ہم نے تورا بورا بننے کے خوف سے ملا عبدالسلام ضعیف کوتمام سفارتی آداب و عمومی اخلاقیات بالائے طاق رکھتے ہوئے کس حقارت کے ساتھ امریکہ کے حوالے کیا۔ ملا عمر لیکن جہاد میں مشغول رہا۔اڑتالیس سال سے جہاد پہ قائم کبھی اپنے اجتہاد سے سرمو انحراف نہ کرنے والے ملا جلال الدین حقانی نے ان کے ہاتھ پہ بیعت کرلی آج نصف سے زائد افغانستان کے عملی فرمانروا طالبان کو حکمت یار اور ہم نوا مشورہ دیتے ہیں کہ وہ انتخابات کے راستے اقتدار میں آئیں کہ یہی امن کا واحد راستہ ہے۔ آج بھوربن کانفرنس کے بعد حکمت یار طالبان کے اس موقف پہ ڈٹ جائیں کہ جب تک ایک بھی غیر ملکی افغانستا ن میں موجود ہے ،مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے تو کیا تب بھی وہ امن کے داعی کہلائے جائیں گے؟ پانی لیکن سر سے بھی گزر چکا اور پلوں کے نیچے سے بھی۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ پل بنانے والے بھی طالبان ہیں اور موڈ بگڑتے ہی پل اڑا کر سب کچھ تلپٹ کردینے والے بھی یہی۔ طالبان ہی تو ہیں جو فرعونوں کی ناک زمین پہ رگڑائے اس پہ اپنی پشاوری چپلیں دھرے اس شان سے کھڑے ہیں کہ شاطروں کو نئی چالیں سوجھ ہی نہیں رہیں۔کیا پرانی چالوں سے طالبان کو دیوار سے لگایا جاسکے گا؟