دن مشقت میں اگر تم نے گزارا ہوتا رات کا جین تمہیں ہم سے بھی پیارا ہوتا یہ تو خاکسار کا احساس ہے وگرنہ عمل کا نعم البدل کچھ نہیں ہوتا۔ اقبال نے اپنے انداز میں سوئے آسمان دیکھا ’’تو قادرو عادل ہے مگر تیرے جہاں میں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات‘‘ میرے پیش نظر وزیر اعظم کا حالیہ بیان ہے کہ تعمیراتی شعبہ مکمل طور پر کھول دیا جائے گا۔ ابھی رات ہی میرے مستری کا فون آیا کہ وہ مجھے ملنا چاہتا ہے میں سمجھ تو گیا مگر میں نے وجہ دریافت کر لی تو وہ جھجکتے ہوئے کہنے لگا ’’سرجی آج کل کام نہیں کچھ پیسے ادھار چاہئیں‘‘۔ میں نے کہا نہیں بھئی ادھار تو نہیں آپ ویسے ہی کچھ پیسے آ کر لے جائیں۔وہ آیا تو میں نے اس سے آنکھیں بھی نہیں ملائیں اور اس کے ہاتھ میں پیسے دے دیے مقصد یہ کہ مجھے اس کو احساس نہیں دلانا تھا خیر ایک خیال اس سے جڑ گیا۔ سیمنٹ والے دکاندار سے پوچھا کہ ایک غریب ریڑھی والا بھی تو تھا اس نے اس کے ساتھ دو اور ریڑھی والے بھی بھیج دیے کہ ضرورت مند ہیں مجھے عجیب تو لگا مگر سوچا کہ یہ تو کرم ہے اللہ کا ذرا سی اپنی ناگواری پر مجھے بہت شرمندگی ہوئی اور میں نے اللہ سے وسعت قلب کی دعا کی۔ تعمیراتی شعبہ کو کھولنے کا فیصلہ مستحسن اس لئے ہے کہ اس شعبے کے ساتھ بہت زیادہ لوگ جڑے ہوتے ہیں مجھے تو اس کا بہت زیادہ تجربہ رہا کہ جب بھی اعوان ٹائون کے باہر سے یا سبزہ زار چوک سے لیبر لینے جائیں تو وہ آنے والے کو یک دم گھیر لیتے ہیں۔ سچی بات ہے اس منظر پر دل دکھتا ہے کہ ہمارے ہاں بہت ہی بے روزگاری ہے۔ وہ بزرگ بھی ہوتے ہیں جن کے آرام کے دن ہوتے ہیں۔ مجھے ایک روز مولانا ناصر مدنی کی بات بہت ہی اچھی لگی کہ مکان بنانے والا دوسرے مزدوروں کے ساتھ ایک دو عمر رسیدہ مستری مزدور کو بھی لے آئے اور اس کو نگرانی پر بٹھا دے تو کیا فرق پڑے گا کہ لاکھوں وہ خرچ کر رہا ہوتا ہے۔ اصل میں یہ مستری اور مزدور افراد نہیں یہ خاندان ہیں۔ وہ دن بھر خود کو خرچ کرتے ہیں تو گھر کا چولہا جلتا ہے۔ درست کہا گیا کہ وبا کے ساتھ ساتھ ہمیں غربت اور بے روزگاری سے بھی تو لڑنا ہے اور پھر ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ ڈر ڈر کر خود کو تباہ کر لیں۔ احتیاط کے ساتھ آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا: ہم ہیں مثال ابر مگر اس ہوا سے ہم ڈر کر سمٹ ہی جائیں گے ایسے بس ہم نہیں کل ہمارا غصیلہ کرکٹر شعیب اختر بڑے موڈمیں تھا اور ایک ڈاکٹر سے محو گفتگو تھا کہ مغرب میں وائرس سے اموات بہت زیادہ ہوئی ہیں۔ وہ ڈاکٹر حقیقت حال یہ بتا رہا تھا کہ وہاں کے لوگ نرم و نازک ہیں۔ناپ تول کر کھاتے ہیں۔ ان میں مدافعت کم ہے۔ ہو سکتا ہے اس بات میں سچائی ہے یا نہیں لیکن اس بات میں وزن ہے کہ ہمارے ہاں کے لوگ تو لکڑ پتھر بھی ہضم۔ کی صورت بڑے مضبوط معدے رکھتے ہیں وجہ یہ کہ یہاں تو پانی تک خالص نہیں پتہ نہیں۔ کیا کچھ ہم کھاتے ہیں۔ اس لئے ہمارے معدے ملاوٹ کے عادی ہو گئے ہیں۔ وائرس کو بھی ایسے معدے میں آ کر مشکلات کا سامنا پڑتا ہو گا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ یہ مغرب کے لوگ زیادہ گرمی بھی برداشت نہیں کرتے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ وہاں ایک مرتبہ پینتیس یا چالیس درجہ حرارت ہوا تو آدھی قوم سمندر کے کنارے پر مختصر لباس پہن کر آن بیٹھی۔ ہمیں ان کے آلام کا دکھ ہے اور بہت ہے کہ انسانی جان کا معاملہ ہے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے لوگ غریب اور مزدور سہی مگر ان کا امیونٹی سسٹم یعنی مدافعتی نظام لڑنے کا عادی ہوتا ہے۔ آپ خانہ بدوشوں اور جھگیوں میں رہنے والوں کے بچوں کو کبھی دیکھیں سخت سردی کے دنوں میں بھی وہ ننگے پائوں بلکہ بعض اوقات ننگ دھڑنگ پھر رہے ہوتے ہیں لگتا ہے یہاں کے موسم انہیں خود تیار کرتے ہیں۔ انشاء اللہ منظر بدلنے والا ہے کہ بدلنا بھی تو اسی نے ہے جو سمندروں سے بادل اٹھاتا ہے اور پھر مردہ زمینوں کو زندہ کرتا ہے۔ پھر اس پر فصلیں سونے کی طرح نظر آنے لگتی ہیں۔ کیڑے سنڈیاں اور پھر سنڈیوں کا چڑیوں کے لئے رزق بننا‘سب کچھ اس کی مشیت ہے۔ بس اسے یاد رکھیے۔ بھولو گے تو وہ بے نیاز ہے پھر اس کی ناراضگی ہمیں بہت کچھ بھولا ہوا یاد دلاتی ہے۔ اس نے نفسا نفسی کا منظر جیتے جاگتے دکھا دیا تو پھر آخرت کے لئے تیاری کریں۔اپنی ذمہ داری پہچانیں۔ پیدا ہونے کا مقصد جانیں اور فطرت کو اپنے اندر اتاریں۔ بس ضرورت نیت اور خلوص کی ہے کہ ’’اتنا نہ کر لوٹ کے گھر جانا ہے‘‘ پھر اذانیں تو دینا پڑتی ہیں مگر بات پھر وہی ہے کہ وہ بھی پراثر ہو جیسا کہ جاوید رامش نے کہا ہے: اذانیں دو بلالی لکنتوں میں سفر راتوں کا لمبا ہو گیا ہے دوبارہ پھر موضوع کی طرف آتے ہیں کہ ہمیں بہر طور زندگی کرنی ہے یہ تعمیراتی انڈسٹری اور سی پیک منصوبوں پر کام کھولنا بہت خوش آئند ہے۔ یہ وقت ہے کہ چین کے ساتھ مل کر سی پیک کو آگے بڑھائیں۔ اب چین ہی ہمارے لئے وبا سے لڑنے کے لئے سازو سامان بھیج رہا ہے۔ ریسرچ کمیٹی اور اس کے لئے کثیر رقم مہیا کرنے کی سوچ تعمیری سوچ ہے۔ ہمیں اپنی ترجیحات ایسے ہی بدلنا پڑیں گی۔ اورنج ٹرین بھی ایک ترجیح ہے کہ اربوں روپے ایک ڈھانچے کی صورت بے ثمر نظر آتے ہیں۔ حوصلے اور عزم ہو تو زندگی رکتی نہیں ہے۔ یہ پانی کی طرح ہے کہ جو خود ہی راستہ بناتاہے: کچھ نہیں ہاتھ کی لکیروں میں زندگی راستے بناتی ہے ہم عوام بھی اپنی اپنی سطح پر سوچیں کہ ہمارا اپنے پیارے وطن کی ترقی میں کیا رول ہو سکتا ہے۔ اب تو سرکاری ملازم بھی کچھ سوچ لیں کہ ادارے کیسے درست کرنے ہیں کہ کسی بھی سطح پر بغیر رشوت کام نہیں چلتا وہ قدرت کا اشارہ سمجھ جائیں کہ یہ موقع ملا ہے۔ وہ کفارہ ادا کریں انصاف کرنے والے بھی اور خود کو سپید و سیاہ کا مالک سمجھنے والے بھی۔ باردگر اپنے منصوبوں کی درجہ بندی کریں پھر دیکھیے کہ اللہ کی مدد کیسے شامل حال ہوتی ہے ہمارے پاس غلطی کی گنجائش نہیں: دھوپ میں جلنے والو آئو بیٹھ کے سوچیں اس رستے میں پیڑ لگایا جا سکتا تھا