دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا سر سے جمال یار کا سایہ نہیں گیا ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی مرے اختیار میں ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا معاملہ کسی انسان کا ہو یا ملک کا یہ محبتیں انسان کے بس میں نہیں ہوتیں۔ یہاں بے اختیاری اور سرشاری کام کرتی ہے۔ سبز ہلالی پرچم دیکھ کر اندر باغ کھل اٹھنا اور چاندنی چٹک جانا ایک فطری عمل ہے۔ میں صرف زمین اور مٹی کی بات نہیں کر رہا کہ اس میں نظریہ گندھا ہوا ہوا ہے اور اس کا خمیر بھی خاص ہے اپنی ترکیب میں سوچ اور فکر میں ہم آہنگی بھی اسی بنیاد پر ہوتی ہے۔ میں کوئی تفصیلی بات نہیں کرنے جا رہا بلکہ کرکٹ کے حوالے سے عام سی بات کرنے جا رہا ہوں ایک خاتون کی بات میں سن رہا تھا جو بھارت اور نیوزی لینڈ کی فتح پر پاکستانیوں کے حوالے سے تھی۔ میں اس خاتون کے جذبات کی قدر کرتا ہوں اور اس کے جذبہ حب الوطنی کو سمجھتا ہوں اور اس کا غصہ بالکل درست ہے۔ بات یہ ہے کہ کھیل میں ایسا ہوتا ہے۔ ایسے ہی جیسے مشاعروں میں ہوٹنگ نہ ہو تو وہ مشاعرہ کیا ہوا۔ اسی طرح کھیل میں یہ ہائو ہو اور شور شرابا تو ہوتا ہی ہے اور اس کے علاوہ پسند اور ناپسند کا اظہار بھی فطری ہی ہے۔ ایسے ہی جیسے محبت اور عشق نہیں چھپتا: ہماری آنکھ میں آئے تھے دفعتاً آنسو ہوا تھا عشق تو اظہار بھی ضروری تھا دوسری بات یہ کہ بھارت اور پاکستان روائتی حریف ہیںاور اپنے اپنے ملک کے ساتھ ہر کسی کا دل دھڑکتا ہے یہ جو کچھ لوگ نام نہاد دانشور یا مہذب بننے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے لوگوں کی خوشیوں کے اظہار کو سک مینٹیلٹی کہتے ہیں یہ کمپلکس کے مارے ہوئے لوگ ہیں دوسروں سے مغلوب ۔ یہ لوگ وہ ہیں جن کے اندر پاکستان نہیں ہوتا اسی لئے یہ کوشش کر کے باہر دوسرے ممالک میں نکل جاتے ہیں اور انہیں اپنا ملک کمتر لگنے لگتا ہے۔ آپ ان کی پروا نہ کریں یہ اقلیت میں ہیں اور اپنی شناخت اور پہچان دوسروں کو بناتے ہیں۔ مجھے عطاء الحق قاسمی کا یہ مصرع اچھا لگتا ہے کہ ’’مجھ کو اپنے ماجھے ساجھے اچھے لگتے ہیں‘‘ مقصد یہ نہیں کہ یہاں ماجھے ساجھے ہوتے ہیں بلکہ یہ کہ یہاں کا ہر باسی ہمارا ہے بہت خوبصورت بات ایک مرتبہ یاور حیات نے مجھے کہی’’شاہ صاحب یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنی شناخت کا نہیں سوچتے‘ ہمارے پاس تو مسلمان ہونے کے علاوہ کوئی شناخت ہے نہ پہچان۔ یہی ہماری شخصیت ہے۔ اپنے ملک اور اپنی قوم کے لئے اپنے جذبات کا اظہار کرنا تو Healthy mentalityہے کہ آپ شعور رکھتے ہیں۔ یہ کھیل کا حسن بھی ہے کہ آپ اس سے لطف اٹھاتے ہیں۔ اگر میں اپنے دوسرے پاکستانیوں کی طرح بھارت کی شکست پر خوش ہوا ہوں تو یہ فطری بلکہ عین فطری ہے۔ میں بھارت کی ہار پر ایسے ہی خوش تھا جیسے میں پاکستان کی فتح پر خوش ہوتا ہوں۔ یہاں تو ہمیں نیوزی لینڈ کے لئے دل سے دعا کرنا پڑی۔ یہ دعا تو ہم نے بھارت کے جیتنے کے لئے بھی کی تھی کہ وہ انگلینڈ سے جیت جائے تاکہ ہم سیمی فائنل میں پہنچ جائیں مگر ہندو کی متعصب سک مینٹیلٹی چھپائے نہیں چھپتی۔ وہ ہمیں دوڑ سے باہر کرنے کے لئے سپورٹس مین سپرٹ کو طاق پر رکھتے ہوئے ڈرامہ کر کے ہارے اور پھر ہندوستانیوں نے سٹیڈیم سے نکل کر اس بات پر جشن منایا کہ انہوں نے ہار کر بھی بازی جیتی کہ پاکستان کو نکال باہر کیا قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا جس نیوزی لینڈ کو انہوں نے بچایا تھا وہ ان کے لئے بھاری ثابت ہوا اور بھارت کی ساری فرعونیت اس نے نکال دی۔ ہم نے تب بھی لکھا تھا کہ وہ اگر پاکستان کو دوڑ میں رہنے دیتا تو اس کا کام آسان ہو جاتا ہے کہ ہمارے کھلاڑی ان سے ’’خیر سگالی‘‘ ہی میں ہار جاتے ہیں۔ اب آتے ہیں عوامی جذبات کے اظہار کی طرف ہمیں کتنا اچھا لگا کہ جب بھارت نیوزی لینڈ سے ہار رہا تھا تو ایک خاتون بار بار ٹشو پیپر کے ڈبے سے ٹشو نکال کر کولہی کے لئے پیش کرتے ہوئے ہوا میں لہرا رہی تھی اب بتائیے یہ تو ایک تخلیقی عمل تھا۔ کچھ لوگوںنے مزیدار پوسٹیں لگائیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈرا کو دکھایا کہ جیسے وہ کہہ رہی ہوں’’لو پاکستانیو! اب تو خوش ہو اب میں تمہارے لئے کشمیر کو بھی آزاد کروائوں گی۔ کیا کیا جائے انسان کے بس میں کچھ نہیں: الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا جب قسمت ہاری ہو تو سب تدبیریں الٹی پڑ جاتی ہیں کچھ یہ خیال بھی آتا ہے کہ یہ کھیل واقعتاً بائی چانس ہے مگر اتنا بھی بائی چانس نہیں کچھ غیب کا عمل دخل بھی ہے۔ روہت شرما جو ورلڈ کپ میں پانچ سنچریاں سکور کر چکا تھا مگر اس دن کھاتا ہی نہ کھول سکا کولہی بھی ایسے چلا گیا۔ جو کھلاڑی ٹیم کی اساس تھے خزاں کے پتوں کی طرح گرے۔ آپ کو اگر یاد ہو تو بھارتیوں نے کہا تھا کہ وہ پاکستان ٹیم کے ساتھ میچ نہیں کھیلیں گے۔ انہیں دو پوائنٹ لوز کرنے سے فرق نہیں پڑے گا۔ گویا انہیں کتنا غرور تھا: آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا دوبارہ بات سک مینٹیلٹی پر کریں تو آپ کو یاد کرائیں کہ ایک مرتبہ کرکٹ میچ میں جو کہ بھارت میں ہو رہا تھا وہاں کے تماشائی نے ہمارے کرکٹر مشتاق احمد کے ہاتھ پر سلام لیتے ہوئے بلیڈ پھیر دیا تھا۔ ہم نے بھارت کے کرائوڈ کو میچ ہارنے کے بعد فرنیچر کو آگ لگاتے کئی بار دیکھا۔ اب یہ کون سی مینٹیلٹی ہے اس کے علاوہ جو وہ ہار کا غصہ وہاں کے بے چارے مسلمانوں پر نکالتے ہیں کیا یہ حد نہیں ہو گئی کہ محمد شامی کو برطانیہ کے خلاف زبردست پرفارمنس دکھانے کے باوجود ڈراپ کر دیا گیا پھر فقیروں کی بددعائیں لگ تو جاتی ہیں پاکستانی کرائوڈ نے تو کبھی ایسے نہیں کیا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دشمن کا دوست بھی آپ کا دشمن ہوتا ہے۔ کھیل کو کھیل ہی لینا چاہیے۔ اب دیکھیے آسٹریلیا فیورٹ تھا مگر برطانیہ نے اسے بے بس کر دیا اور بظاہر تو سب یہی کہہ رہے ہیں اور لگ بھی رہا ہے کہ انگلینڈ کے ورلڈ چمپئن بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں مگر کل کلاں نیوزی لینڈ کی مدد کرنے پھر موسم آ جائے کہ برطانیہ کے موسم کا کچھ پتہ نہیں۔ جو کچھ بھارت اور آسٹریلیا کے ساتھ ہوا ہے۔ ہمارے ساتھ تو تب ہوا جب ہم ویسٹ انڈیز سے کھیلے تھے۔ ماجد خاں سے پوچھا گیا کہ آپ للی کے بائونسر کا کیا کریں گے۔ ماجد نے کہا جس دن میں بائونسر سے ڈر گیا۔ کرکٹ چھوڑ دوں گا۔ للی نے ماجد کا ہیٹ اتارنے کا چیلنج کیا تھا اور بائونسر مارا۔ ماجد نے ہک کر کے گیند سٹیڈیم سے باہر پھینک دی اور خود جا کر ہیٹ للی کو پیش کر دیا تب سے اسے Mighty majidکہا جانے لگا۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: ایک ہچکی میں دوسری دنیا سعدؔ اتنی سی بات ساری ہے