اللہ نے کسی ایرانی، شامی، سعودی یا پاکستانی سے مدد اور نصرت کا وعدہ نہیں کیا، بلکہ ان سے کیا ہے جو اس کی مدد کرتے ہیں فرمایا، ’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا‘‘(محمد:8)۔ جو اللہ کے دین میں اس کی مدد نہیں کرتے، رسوائی ان کا مقدر ہو جاتی ہے اور وہ جس دنیا کی طلب میں مرے جارہے ہوتے ہیں وہ بھی کئی دفعہ ان کے ہاتھ نہیں آتی۔ یہ ہے وہ افتاد ہے جو بحیثیت مجموعی آج قوموں پر ٹوٹی ہوئی ہے۔ ایسی قوموں کی نشانی یہ ہے کہ ان کا توکل اللہ کی ذات سے اٹھ جاتا ہے اور وہ خالصتاً اسبابِ دنیا پر بھروسہ کر کے انہی کی کمی کا رونا روتی رہتی ہیں، دوئم یہ کہ اللہ انہیں اجتماعی طور پر ویسی استغفار کی توفیق عطا نہیں دیتا، جیسی سیدنایونسؑ کی قوم کودی تھی اور اللہ نے فرمایا تھا ’’اور ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیاوی زندگی میں ان سے ٹال دیا اور ان کو ایک خاص وقت کے لیے زندگی سے لطف اندوز ہونے کا موقع دے دیا (یونس : 98)‘‘۔ سب سے بدنصیب وہ قومیں ہوتی ہیں جن کے درمیان نیک، تہجد گزار، عابدوزاھد اور جہاد کرنے والے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں لیکن اللہ ان کی اجتماعی دعائیں قبول نہیں کرتا۔ سید الانبیائؐ نے فرمایا، ’’لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ مومن، مسلمانوں کی حمایت کے لیے دعا کرے گا، مگر قبول نہیں کی جائے گی، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، تو اپنی ذات کیلئے اور اپنی پیش آمدہ ضروریات کیلئے دعا کر، میں قبول کروں گا، لیکن عام لوگوں کے حق میں قبول نہیں کروںگا، اسلئے کہ انہوں نے مجھے ناراض کر لیا ہے‘‘ (کتاب الرقائق)۔ اللہ ہم سے کیوں ناراض ہوتا ہے، وہ تو رحمٰن و رحیم ہے اور اپنے بندوں پر شفیق ہے۔ ہم پر مصیبت اور وبا کیوں مسلط ہو جاتی ہے۔ ہم اپنے ایک حکمران سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں، وہ ہمارے لیے سوہانِ روح بن جاتا ہے، ہم دوسرے کو مسیحا سمجھنے لگ جاتے ہیں، وہ پہلے سے بھی بدتر ثابت ہوتا ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے۔ چونکہ جمہوریت دنیا میں سکہ رائج الوقت بن چکا ہے، اس لئیے ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم اپنے لیے حاکم خود منتخب کرتے ہیں۔ غیر منتخب حکمرانوں کے بارے میں بھی زیادہ سے زیادہ ہماری عقل ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ خواہ وہ مقامی ہویا عالمی، وہی ایسے حکمرانوں کو تخت پر بٹھاتی ہے۔ یہ ہے وہ خالص شرک جس نے ہماری آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اللہ بادشاہت، حکومت یا اختیار دینے کا مکمل اور کلی اختیار اپنے پاس رکھے ہوئے ہے، وہ فرماتا ہے، ’’تو کہہ اے اللہ، بادشاہی کے مالک! جسے تو چاہتا ہے سلطنت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلطنت چھین لیتا ہے، جسے تو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے تو چاہے ذلیل کرتا ہے‘‘ (آلِ عمران: 26)۔ قرآنِ پاک میں بتائے گئے اس بنیادی اصول کی وضاحت اس حدیثِ قدسی سے ہوتی ہے، رسولِ اکرمؐ نے فرمایا، ’’اللہ فرماتا ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ (قبضۂ قدرت) میں ہیں۔ لہذا جب میرے بندے میری اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیںتو میں ان کے حق میں بادشاہوں کے دلوں کو رحمت و شفقت کی طرف پھیر دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں بادشاہوں کے دلوں کو غضب ناکی اور سخت گیری کی طرف پھیر دیتا ہوں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کو سخت عقوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں تم اپنے آپ کو ان بادشاہوں کے لیے بد دعا کرنے میں مشغول نہ کرو، بلکہ میری بارگاہ میں تضرع و زاری کرو، تاکہ میں تمہارے ان بادشاہوں کے شر سے تمہیں بچائوں (المشکوٰۃ المصابیح)۔ اللہ لوگوں پربرے حکمران مسلط کرنے کے لیے بھی ایک اصول بتاتا ہے جس کی وضاحت خود قرآنِ پاک میں کی گئی ہے، ’’تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں سے کیے ہوئے کاموں سے پہنچتی ہے اور بہت سارے گناہوں سے تو اللہ درگذر کر دیتا ہے‘‘ (الشوریٰ: 30)۔ بدترین، ظالم، بددیانت اور نااہل حکمران بھی اللہ کی ناراضگی کی علامت ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ایک اور جگہ فرماتے ہیں، ’’اس طرح ہم ظالموںمیں سے بعض کو بعض پر مسلط کرتے رہتے ہیں، ان اعمالِ بد کے باعث جو وہ کمایا کرتے ہیں‘‘ (الانعام: 29)۔ اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے سید الانبیائؐ نے فرمایا، ’’جیسے تم ہوگے ویسے ہی تمہارے اوپر حکمران مقرر کیے جائیں گے‘‘ (المشکوٰۃ، بہقی)۔ یوں کسی بھی حکمران کے لوگوں پر مسلط کیے جانے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے لوگوں کے اعمال کے ساتھ منسلک کر دیا ہے۔ صالح اعمال کے بارے میں ایک عمومی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ عبادات یعنی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ہی اعمالِ صالح ہیں۔ عبادات صرف اعمالِ صالح کا ایک حصہ ہیں۔ اعمالِ صالح تین بنیادی حصوں میں تقسیم ہیں، عبادات، اخلاق اور معاملات۔ اخلاق اور معاملات سے محروم عبادت گزار لوگ بھی ایسے ہوتے ہیں جن کی عبادات اللہ کے ہاں قابلِ قبول نہیں ہوتیں، جن کی دعائیں رد کر دی جاتی ہیں۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا ایک آدمی جو طویل سفر کی وجہ سے غبار آلود اور پراگندۂ حال ہے اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر کہتا ہے، اے رب، اے رب، حالانکہ اس کا کھانا حرام کا، پینا حرام کا، لباس حرام کااور غذا حرام کی ہے تو اس کی دعا کیوں کر قبول ہوگی؟ (المشکوٰۃ)‘‘۔ آج ہم پوری دنیا پر نظر دوڑائیں توہم پرمسلط کرونا کی آزمائش بخوبی سمجھ میں آجاتی ہے۔ ہم اس دنیا کے باسی ہیں جہاں مہذب اور غیرمہذب، ’’اخلاق باختہ‘‘ اور ’’اخلاق یافتہ‘‘ دونوں اقوام نے اپنے رویوں سے ثابت کیا ہے کہ وہ بدترین حکمرانوں کی مستحق ہیں۔ دنیا کی قدیم ترین جمہوریت اور اخلاقیات کا درس دینے والی قوت برطانیہ کا عالم یہ ہوا کہ بی بی سی کی 7 اپریل کی رپورٹ کے مطابق ڈبل روٹی دگنی قیمت پر 3 پونڈ میں، ٹائلٹ رول 9 پونڈ میںاور سینیٹائزر 15 پونڈ میںفروخت ہوا۔ یہی کیفیت امریکہ اور یورپ کے ممالک میں پیش آئی اور ہمارے پیارے پاکستان میں بھی ایک ہزار والا آکسی میٹرنو ہزار میں اور پندرہ ہزار والا آکسیجن سلنڈر پینتیس ہزار میں بکنے لگا۔ منافع خوری کا کمال دیکھیں کہ ابھی گندم کی کٹائی ہوئی ہے، نئی فصل مارکیٹ میں ہے، کبھی ان دنوں گندم بازار میں سرکاری ریٹ سے بھی کم ملا کرتی تھی، مگر منافع خور ی کا عالم یہ ہے کہ تیرہ سوروپے من کی بجائے دوہزار روپے پرمل رہی ہے۔ ایسے اعمال کے ساتھ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم پر عادل، اہل اور منصف مزاج حاکم مسلط ہوں گے۔ ایسا ہونا اللہ کے اپنے بنائے ہوئے بنیادی اصولوں کے ہی خلاف ہے۔ زمین پر کوئی قوم اللہ کی لاڈلی نہیں ہے، وہ اس دنیا پر بسنے والی تمام مخلوقات کو اپنا کنبہ قرار دیتا ہے۔ جوبھی قوم بحیثیت مجموعی اللہ کے کنبے پر ظلم کرتی ہیں، ایسی قوم پر اللہ کی ناراضگی اور سزا کی سب سے بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس پر ظالم حکمران مسلط کردئیے جاتے ہیں۔ آج دنیا ایسے ظالم حکمرانوں سے پٹ چکی ہے۔ ظلم و زیادتی پورے کرۂ ارض کا خوفناک چہرہ ہے۔ ان حالات میں ہمیں معافی کیسے مل سکتی تھی۔ ہمیں تو اللہ نے یونس ؑ کی قوم کی طرح توبہ کی توفیق سے بھی محروم کر دیا ہے۔ حجاز کے خادمین سے لے کر ملائشیا و مراکش تک کسی ایک حکمران کو بھی میرے اللہ نے یہ توفیق عطا نہیں فرمائی کہ وہ اپنی قوموں کو لے کر اجتماعی طور پر اللہ کے حضور معافی طلب کرتا ہے تاکہ ہم پر اللہ کی ناراضگی کم ہوتی۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی حرم اور مسجدِ نبوی ؐ کے دروازوں پر قطاریں لگ جاتیں، ایک ٹولی اللہ کے حضور گڑگڑانے کے لیے جاتی تو دوسری باہر منتظر کھڑی ہوتی۔ لیکن آج اللہ نے یہ توفیق بھی ہم سے چھین لی ہے۔ اس سے بڑی ناراضگی اور کیا ہو گی۔