خلق خدا مہنگائی کے ہاتھوں جاں بہ لب اور وزیراعظم انہیں صبر کی تلقین کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اتنی سیاست تو سیکھ ہی لی ہے کہ حالات کا رخ خواہ کتنی ہی بدحالی کی طرف مڑ جائے بس سیاسی بیان دیتے رہو۔ ایک بار پھر پٹرول‘ ڈیزل‘ گیس‘ مٹی کے تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھا کر عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں کہ ہر طرح کی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں پٹرول ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ خودبخود بڑھ جاتی ہیں۔ کل کا اخبار اٹھائیں تو حالات کی دومتضاد تصویریںہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک طرف مہنگائی کا سونامی آنے یا آتش فشاں پھٹنے کی خبر عوام کو دی جا رہی ہے تو اسی کے ساتھ اخبار کی شہ سرخی وزیراعظم کا ایک سیاسی بیان ہے اور وہ یہ کہ مہنگائی اس سے کم ہے جتنی حکومت سنبھالنے کے وقت پر تھی۔ مزید فرمایا کہ معیشت بہتر ہورہی ہے اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ معاشی ٹیم کو چوکنا رہنے کا حکم دے دیا ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اچھی خبریں صرف حکمران طبقے کو کیوں سنائی دیتی ہیں۔ اس کی گونج غریب عوام کے کانوں تک کیوں نہیں پہنچتی۔ معاشی اشاریے بہتر ہورہے ہیں تو غریب عوام کے معاشی اشاریوں میں ابتری کی حالت کیوں ہے۔ اس کی جیب اور چنگیر خالی کیوں ہے۔ اس کے چہرے پر بھوک اور حسرت کی زردی کیوں کھنڈی ہے۔ یہ جو چوکوں‘ چوراہوں کے گرد مزدور طبقہ اپنے اپنے رمبے‘ کھرپے کا سامان، رنگ کے ڈبے‘ برش‘ ڈرل مشینیں ہاتھ میں لیے مزدوری کے انتظار میں بیٹھا ہوتا ہے اس سے پو چھیے کہ اس کے معاشی اشاریوں کی سمت کیا ہے؟ اس سے پوچھیں کہ وزیراعظم کی چوکنی معاشی ٹیم جو دن رات معاشی بہتری کے اقدامات کر رہی ہے کیا اس کے اثرات اور ثمرات اس کی جیب اس کے خستہ مکان‘ اس کے ہانڈی چولہے تک بھی پہنچتے ہیں؟ مزدور‘ دیہاڑی دار کا تو کیا ہی پوچھنا اس مہنگائی نے تو متوسط طبقے کی بھی چیخیں نکال دی ہیں۔ لوگ مہنگائی کے سیاپے پر حکمرانوں کو کوستے ہیں لیکن وہاں اقتدار کے ایوانوں تک ان کی آواز کہاں جاتی ہے۔ وہاں مسند اقتدار کے گرد حواریوں اور خوشامدیوں کے گھیرے ہیں‘ واہ واہ کی آوازیں ہیں۔کیا آپ جانتے ہیں کہ ماش کی ایک کلو کی دال تین سو بیس کی ہے۔ گھی ایک کلو کا پیٹ دو سو ساٹھ روپے کا ہے۔ چنے کی دال ایک سو اسی روپے کلو ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ غریب دال ساگ کھا کرگزارا کرلیتا ہے لیکن جہاں دال بھی تین سو بیس روپے کی کلو آئے گی وہاں غریب کی مجال ہے کہ دال خریدنے کا بھی سوچے۔ سوال یہ ہے کہ اب اگر دال بھی اس کی قوت خرید سے باہر ہے تو غریب کھائے گا کیا؟ اس پر وزیراعظم فرماتے ہیں کہ صبر کریں۔ کبھی فرماتے ہیں کہ گھبرانا نہیں۔ کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ سکون تو صرف قبر میں ہے کیونکہ یہاں زندگی میں تو آپ کو آئی ایم ایف کی قاتل معاشی پالیسیوں کو سہنا پڑے گا لہذا سکون‘ آسودگی‘ خوشحالی جیسے لفظوں کو اپنی لغت سے نکال باہر کریں۔ یہ حکمران کا کام نہیں ہے کہ عوام کو صبر کی تلقین کرے‘ صبر کی تلقین تو بے چارے غریب ایک دوسرے کو کرتے ہی رہتے ہیں۔ ان کے پاس صبر کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ پالیسیاں بنانا ان کا اختیار نہیں ہے۔ معاشی پالیسیاں بنانا‘ مہنگائی کو قابو کرنا‘ قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنا یہ حکومت کا کام ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کوقابو میں رکھنا‘ خوراک، دوا اور تعلیم کو عوام کی قوت خرید میں رکھنا یہ کم سے کم توقع ہے جو عوام حکومت وقت سے کر سکتے ہیں اور آپ ان سے اس توقع کا حق چھین کر انہیں صبر کی تلقین فرما رہے ہیں کہ جو ہورہا ہے اس پر خاموش رہیں اور آہ بھی نہ کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کا غریب طبقہ معجزانہ طور پر اس وائرس سے محفوظ رہا ہے۔ سو ہماری عرض یہ ہے کہ جناب وزیراعظم صاحب غریبوں کو کورونا ویکسین کے ملنے کی خوشخبری سنانے کا کوئی فائدہ نہیں کہ انہیں اس سے کیا لینا دینا۔ انہیں خبر ہی نہیں کہ یہ بیماری ہے کیا؟ اور دوسری بات اسی ویکسین سے جڑی ہے جو ہماری صوبائی وزیر صحت محترمہ یاسمین راشد نے تازہ پریس کانفرنس میں کہی کہ ویکسین تو آ گئی ہے مگر جس نے لگوانی ہے، اپنے رسک پر لگوائے کیونکہ ویکسین سے اموات ہونے کی خبریں بھی آئی ہیں۔ وزیر صحت کے اس بیان کے بعد کون ہوگا جو ویکسین لگوائے گا؟ کچھ بھی کہیں مگر ڈاکٹر یاسمین راشد کا یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے۔ میں ان کے سچ بولنے کو ضرور سراہوں گی کہ انہوں نے حقیقت بیان کردی ہے۔ ہمارے ہاں تو ابھی پولیو ویکسین کے حوالے سے مزاحمت موجود ہے جوکہ رسک فری ہے تو کورونا ویکسین کے حوالے سے صورتحال کیا ہوگی جو ابھی ٹرائل اینڈ ایرر کے مرحلے میں ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں رضاکارانہ طور پر ویکسین لگوانے والے افراد پر اس ویکسین کے مضر اثرات ہوئے ہیں۔ آنے والا وقت ہی بتائے گا پاکستانیوں کا کورونا ویکسین کے حوالے سے ردعمل کیا ہوگا۔ کتنے فیصد لوگ یہ ویکسین لگوائیں گے۔ کالم کا خلاصہ یہی ہے کہ غریب وطن مہنگائی اور مزید مہنگائی کے بھنور میں پھنسا اپنی خالی جیب‘ خالی پیٹ اور بجھتے چولہے کا ماتم کرنا ہے اور حکمران وقت‘ مزید مہنگائی کا اعلان کرتے ہوئے اسے صبر کی تلقین کر رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭