پھولوں کے شہر پشاور میں نفرت اور انتقام کی آگ نے 102 پھول چہرے بھسم کر دیے گئے۔ پشاور ہی نہیں پورا ملک دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔کوئی دن نہیں گزرتا جب پاکستانیوں کا خون نہ بہایا جاتا ہو۔ سنٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2022ء میں دہشت گردی کے 376حملوں میں 400 شہادتیں ہوئیں ہیں۔ شہید ہونے والوں میں 282 سکیورٹی اہلکار شامل ہیں ان میں 376 حملوں میں سے 57 کی ذمہ داری ٹی ٹی پی ‘ داعش اور بی ایل اے نے قبول کی ہے۔باقی 314حملے کرنے والے کون تھے ان کے مقاصد کیا تھے؟ ان کی تحقیقات ہونا ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 28 نومبر 2022ء کو ٹی ٹی پی کے جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے بعد کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کے غیر معمولی واقعات ہوئے دہشت گردی کے حملوں میں ہونے والی کل اموات میں 64 فیصد پشاور جبکہ 26فیصد بلوچستان میں ہوئی ہیں ۔ان اعداد و شمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بلوچستان اور کے پی کے دشمن کا آسان اور اولین ہدف ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سڈیزکے اعداد و شمار کے مطابق 2021ء کے مقابلے میں 2022ء میں ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں 28فیصد اضافہ جبکہ اموات اور زخمیوں کی تعداد میں بالترتیب 37اور 35فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے ۔جس کا مطلب ہے کہ اس بار دہشت گرد ماضی کی نسبت زیادہ سفاک اور تباہ کن ہو کر سامنے آئے ہیں۔یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ ماضی میں2017ء میں 300 سے زائد حملے ہوئے تھے 2018ء سے 2021ء تک دہشت گردی کے واقعات میں کمی رہی یہ وہ وقت تھا جب امریکہ افغانستان سے نکلنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہا تھا۔ امریکی انخلا کے بعد پاکستان پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کی تیزی اورشدت میں آتی گئی۔ اطلاعات کے مطابق ماضی قریب میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو مدد کی پیش کش کی تھی ذرائع کے مطابق پاکستان نے امریکی پیشکش پر ’’شکریہ‘‘ تو ادا مگر تعاون قبول کرنے پر خاموشی اختیار کئے رکھی۔ اس ’’ شکریہ‘‘ اور خاموشی کے بعد ہی پاکستان میں حملوں میں شدت آئی۔ پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف امریکی تعاون قبول کرنے سے گریز کی اہم وجہ وہ احتیاط بتائی جاتی ہے کہ امریکی مداخلت دہشت گردی کے واقعات میں مزید اضافے کی وجہ بن سکتی ہے۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی وجہ ٹی ٹی پی سمیت دہشت گردوں تنظیموں کے ایجنڈے کے علاوہ عالمی ایجنڈا بھی ہے۔ یہ عالمی ایجنڈا ہی ٹی ٹی پی اور داعش ایسی تنظیموں جن کا مقصد عالمی سرحدوں کو روندتے ہوئے دنیا میں نام نہاد اسلامی امارت قائم کرنا ہے کو بلوچستان میں علیحدگی پسند بی ایل اے سمیت دیگر تنظیموں سے تعاون کا سبب بن رہا ہے۔افغانستان سے دہشت گردوں کے پاکستان میں داخلے کو روکنے کے لئے پاکستان نے 50کروڑ ڈالر کا خطیر سرمایہ خرچ کر کے افغان سرحد پر باڑ لگائی گو افغانستان سے مزاحمت ہوتی رہی مگر مجموعی طور پر افغانستان نے باڑ کو قبول کیا اس عرصہ میں ہی باڑ کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان سے امن مذاکرات کی کوششیں بھی جاری رہیں۔ امیدکی جا رہی تھی کہ امریکی انخلاء کے بعد طالبان کے دور حکومتمیں سرحد پر امن قائم ہو گا مگر اسے بدقسمتی کہیے یا پھر عالمی ایجنڈے کا شاخسانہ کہ امریکی انخلا کے بعد وہ طالبان جن کو پاکستان گزشتہ نصف صدی سے سٹریٹجک اثاثہ قرار دے رہا تھا وہی طالبان پاکستان پر حملے کرنے والوں کے حامی بن گئے۔ طالبان نے اول تو پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مصالحت کے لئے سہولت کاری کی پھر مذاکرات کے بے نتیجہ رہنے پر اپنا وزن ٹی ٹی پی کے پلڑے میں ڈال دیا جو اے پی ایس حملے کی طرح سانحہ پشاورمیں 102بے گناہوں کے خون ناحق کا سبب بنا۔ افغانستان کے حالات اورمخصوص عالمی ایجنڈنے نے ایک بار پھر پاکستان کو بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے اگر دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوتا ہے تو پاکستان اپنے مخدوش سیاسی اور معاشی حالات کے باعث دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی بالخصوص امریکہ کی مدد قبول کرنے پر مجبور ہو گا۔اگر امریکی تعاون قبول نہیں کرتا توبھارت جیسا ازلی دشمن ٹی ٹی پی اوربی ایل اے سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان کے خلاف استعمال کر کے خون بہائے گا۔ ان مشکل حالات سے پاکستان نمٹ سکتا ہے بشرطیکہ ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے یکسوئی سے منصوبہ بندی کی جائے۔ لیکن پاکستان کے پالیسی سازوں کی حالت بقول شاعر : مرحلہ اپنے تعین کا جب آیا کوئی روشنی کاٹ گئی راستہ بینائی کا پاکستان نے غیر ملکی جنگ سے نکلنے کے لئے آزاد خارجہ پالیسی کا سوچنا ہی تھا کہ روشنی نے راستہ کاٹ دیا۔ موجودہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کے ہوتے ہوئے جو اب ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اس نازک صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت وقت کو فیصلہ کرنا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ملک میں سیاسی استحکام اور اتفاق رائے پیدا کرنا ہے یا پھر اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لئے باہم دست و گریباں رہنا ہے ۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ 56فیصد اضافہ کے پیچھے افغانستان کی صورتحال کے علاوہ عالمی محرکات بھی ہیں۔ایک طرف پاکستان میں سیاسی اور معاشی بحران پیدا کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان کی سلامتی کا مسئلہ پیدا کر دیا گیا ہے۔جب تک پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ دہشت گردی معاشی اور سیاسی بحران کے پیچھے عالمی ایجنڈے کے محرکات کو نہیں سمجھتی اور منظم منصوبہ بندی نہیں کرتی پاکستان یونہی معاشی سیاسی اور سلامتی کے بحرانوں کی زد میں رہے گا۔ تھیوڈور ہاکل نے کہا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد ایسی چیز ہے جس کی خواہش کی جائے جس کے لئے کوشش کی جائے لیکن اس کی خواہش محض اعلانات سے نہیں ہو سکتی پاکستان کو خواہشات سے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے عملی اقدامات تب ہوں گے جب اسٹیبلشمنٹ سیاستدان اور تمام پاکستانی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے راست اقدام پر آمادہ ہوں گے۔سکندر اعظم نے کہا تھا یاد رکھیں ہر ایک کے طرز عمل پر سب کی تقدیر منحصر ہے۔پاکستان میں دہشتگردی کے خاتمے کا انحصار پاکستان کے ذمہ داران کے رویوں پر ہے اگر پاکستانی ابہام اور دو رخی کے اندھیروں سے نکلنے مین کامیاب ہوئے تو امن کی منزل پانا ۔دوسری صورت میں وہی ہوگا جسیا شاعر نے کہا ہے: ہم نے سایوں کا تعاقب نہیں چھوڑا اب تک کتنے اس راہ میں سچائی کے سورج ڈوبے