وزیر اعظم عمران خان کورونا سے صحت یاب ہونے کے بعد جب سے کام پر واپس آئے ہیں، بڑے انقلابی فیصلے کر رہے ہیں ۔ سب سے پہلے تو انہوں نے وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ جن کا شمار کابینہ میں ان کے سب سے فیورٹ ارکان میں ہو تا تھا کو بیک جنبش قلم برطرف کر دیا اور ان کے مقرر کردہ جانشین حماد اظہر نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں چینی ،کپاس اور دھاگہ بھارت سے درآمد کرنے کا حیران کن اعلان کر دیا ۔ یہ دونوں فیصلے نہ صرف ایک دوسرے سے متصادم ہیں بلکہ حیران کن بھی ہیں ۔ کابینہ کا بھارت سے سستی اشیا منگوانے کا ای سی سی کافیصلہ مسترد کرنا بھی عجیب سا معاملہ ہے ۔ حکومت ایک روز فیصلہ کرتی ہے کہ بھارت سے چینی اور کپاس منگوائیں گے، اگلے ہی روز حتمی منظوری دینے کا مجاز ادارہ سمریاں مسترد کر دیتا ہے گویا کہ خان صاحب کے ایک ہاتھ کو نہیں پتہ کہ دوسرا ہاتھ کیا کر رہا ہے ۔ غالبا ً چینی درآمد کرنے کا فیصلہ اقتصادی طور پر تو درست تھا لیکن سیاسی طور پر خان صا حب کو وارا نہیں کھا تا تھا اور نام نہاد چینی ملز مالکان جنہیں وہ اور ان کے وزراشوگر مافیا کہتے نہیں تھکتے ان کے سامنے سجدہ سہو کرنے کے مترادف ہے جبکہ ایف آئی اے اس حوالے سے پاکستان میں سب سے زیادہ چینی پیدا کرنے والے صنعت کار جہانگیر ترین کے پیچھے پنجے جھاڑ کر بھی پڑی ہوئی ہے ۔ دوسری طرف وزیر اعظم کو اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ کی شعلہ بیانی کا بھی سامنا ہے ۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے وہ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی بھارت سے پینگیں بڑھانے کی پالیسی کو ان کے کاروباری مفادات بالخصوص چینی کے حوالے سے اپنے کاروبار کی آبیاری کا الزام عائد کرتے تھے ۔ یہی وہ دور تھا جب ’ڈان لیکس ‘ کی تحقیقات میں نواز شریف پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام عا ئد کیا گیا، نہ صرف یہ بلکہ پا کستان کی تحویل میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے لیے نرم گوشہ ہونے کا بھی الزام لگایا گیا ۔یہ نعرہ بھی گھڑا گیا کہ ’مودی کا جو یار ہے وہ غدار ہے ‘۔اس پس منظر میں مسلم لیگ (ن) کا مخالفانہ ردعمل فطری ہے اور حکومت کو اس کے لیے تیار رہناچاہیے تھا ۔ عام خبر تو یہ ہے کہ جس کی ابھی تک کسی کونے سے تردید نہیں ہوئی کہ بھارت کے ساتھ چند ہفتے پہلے تک والی حکومتی پالیسی کے برعکس تعلقات بہتر کرنے کی حکمت عملی کے پیچھے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی خاموش ڈپلومیسی نے کلیدی رول ادا کیا ہے ۔ سب سے پہلے تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے18 مارچ کو سکیورٹی ڈائیلاگ میں اپنے کلیدی خطاب میں بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کا برملا اظہا ر کرتے ہوئے صاف کہا کہ’’ انڈیا اور پاکستان کے مستحکم تعلقات وہ چابی ہے جس سے مشرقی اور مغربی ایشیاکے مابین رابطے کو یقینی بناتے ہوئے جنوبی اور وسطی ایشیاکی صلاحیتوں کو ان لاک کیا جا سکتا ہے، تاہم یہ موقع دو ایٹمی ہمسایہ ممالک کے مابین تنازعات کی وجہ سے یرغمال بنا ہوا ہے، تنازع کشمیر واضح طور پر اس مسئلے کا مرکز ہے، جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوجاتا برصغیر میں امن کا خواب ادھورا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ماضی کو دفن کیا جائے اور آگے بڑھا جائے‘‘۔ اس سے پہلے25 فروری کو دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز کی میٹنگ ہوئی جس میں ایک دوسرے کے بنیادی معاملات اور تحفظات کو دور کرنے اور ایل او سی پر جنگ بندی پر سختی سے عمل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش اور کوششیں مثبت قدم ہے اور اصولی طور پر پاکستان کے مفاد میں بھی ہے لیکن بھارت سے تجارت کا معاملہ اتنا حساس ہے کہ اس بارے میں فیصلہ تمام محرکات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد کرنا چاہیے تھا اور فیصلے کا اعلان بھی قدرے احتیاط سے کرنا چاہیے تھا ۔نئے وزیر خزانہ نے تو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے فوراً ہی بعد پریس کانفرنس کر کے کہا کہ بھارت سے تجارت کرنے سے عوام اور چھوٹی صنعتوں کو فائدہ ہو گا،کمیٹی نے اپنے اجلاس میں 30 جون تک بھارت سے زمینی اور سمندری راستے کے ذریعے 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کے علاوہ اسی عرصے میں کاٹن اور دھاگہ بھی امپورٹ کرنے کی اجازت دی لیکن اگلے ہی روز کابینہ نے دونوں فیصلے مسترد کر دئیے ،اس کے بعد حماد اظہر کی کابینہ میں کیا حیثیت رہ جاتی ہے ۔ حماد اظہر نے اسی پریس کانفرنس میں اپنے پیش رو حفیظ شیخ کی کھل کر تعریف کی اور کہا کہ’’ سابق وزیرخزانہ حفیظ شیخ کا احترام کرتے ہیں، انہوں نے معیشت کودرست سمت میں گامزن کرنے کیلئے محنت کی ہے،ان کے دور میں معیشت کو استحکام ملا‘ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں آیا اور بنیادی خسارہ سرپلس میں آیا، غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، ان کی قابلیت اوردیانت داری سے کوئی انکارنہیں کرسکتا،ہم حفیظ شیخ سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے‘‘۔حماد اظہر کے مطابق کارکردگی اتنی ہی اچھی تھی تو حفیظ شیخ کو سزا کس جرم کی دی گئی۔ دوسری طرف ڈاکٹر حفیظ شیخ کو جس سمری ٹرائل کے اندازمیں وزارت سے فارغ کیاگیا، اس سے دال میں کچھ کالا لگتا ہے کہ اچانک حضرت شیخ سے کیا جرم سرزد ہوا کہ خان صاحب نے بیماری سے اٹھتے ہی پہلی فرصت میں انہیں فارغ کر دیا۔ جس انداز سے حکومت نے آئی ایم ایف سے پچاس کروڑ ڈالر کی دوسری قسط حاصل کر نے کے لیے اس کی بعض شرائط کو من وعن تسلیم کیا اور فوری عمل درآمد کیا ہے اس پر حکومت پر خاصی تنقید ہوئی ہے بالخصوص سٹیٹ بینک کو کامل خودمختاری دینے کے محرکات پر میڈیا نے خاصی تنقید کی ہے اور شا ید ہی کوئی حلقہ ہو جس نے اسے سراہا ہو ۔ اسی طرح آرڈیننسوں کے ذریعے تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھانے اور پارلیمنٹ کے اختیارات کم کرنے کے فیصلے شدید ہدف تنقید بنے لیکن اس میں صرف وزیر خزانہ قصوروار ہیں یا خان صا حب جنہوں نے فیصلے کی توثیق خود کی تھی ۔ کہنے کو تو ملک میں پارلیمانی نظام نافذ ہے لیکن عملی طور پر صدارتی ہے کہ وزیر اعظم کوئی بھی فیصلہ بدل کر انگوٹھا چھاپ کابینہ سے اس کی منظوری حاصل کر لیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حفیظ شیخ کورونا میں مبتلا ہو گئے ہیں لیکن ان کی اصل بیماری صدمہ ہے، ان کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ ابھی تک حیران ہیں کہ ’مجھے کیوں نکا لا ‘ ۔ ویسے توعمران خان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ اپوزیشن کے ارکان ایک دوسرے سے ہی دست وگریبان ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی نے مضحکہ خیز دھمکی دی ہے کہ جس انداز سے یوسف رضا گیلانی کو پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوایا ہے ہم انہیں اپوزیشن لیڈر نہیں مانتے۔پیپلز پارٹی نے جواب دیا ہے کہ پھرہم قومی اسمبلی میں شہبازشریف کو اپوزیشن لیڈر تسلیم نہیں کریں گے۔ پیپلز پارٹی نے گیلانی صاحب کو زبردستی لیڈر آف اپوزیشن’’ منتخب‘‘ کروا کر پرلے درجے کی بے اصولی کا ثبوت دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹروں رضا ربانی اور مصطفی نوازکھوکھر نے بھی اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا بلوچستان میں حکمران جما عت باپ کی مدد سے جس کا قبلہ سب کو معلوم ہے لیڈر آ ف اپوزیشن منتخب کرانے سے پارٹی کے نظریاتی تشخص کو نقصان پہنچا۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی نچلی بیٹھنے کو تیار نہیں اورطنز بھری مخالفانہ بیان بازی سے پیچھے نہیں ہٹ رہی۔ مریم نواز نے اچھا کیا ہے کہ وہ بیماری کے با عث آج کل میڈیا سے گفتگو نہیں کر رہیں گویا کہ یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں ہو گا کہ خان صاحب کی بطور حکمران ٹامک ٹوئیوں کے باوجود انہیں کم از کم اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔