آج یا کل ، انتخاب تو ہونے ہی ہونے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم با معنی انتخابات کے لیے سنجیدہ ہیں؟ اگر اس کا جواب ہاں میں میں ہے تو ہمیں چند پہلووں پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔ انتخابات میں ووٹر کے حق انتخاب کا شہرہ تو بہت ہے لیکن عملی طور اس حق انتخاب کو محدود تر کر دیا گیا ہے۔ دستیاب امیدواران میں سے ووٹر نے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ کہے ، مجھے ان میں سے کوئی بھی امیدوار پسند نہیں۔ یہ کسی کو منتخب کرنے یا منتخب نہ کرنے کا حق نہیں بلکہ حق صرف اتنا سا ہے کہ دستیاب امیدواروں میں سے کسی ایک کو منتخب کر لیا جائے۔ یہ حق محدود اور ناقص ہے۔ فرض کریں ایک حلقے سے تین، چار یا پانچ نا پسندیدہ شخصیات مختلف جماعتوں کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیتی ہیں یا ان میں سے کوئی آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اترتا ہے۔ اس حلقے میں ایک لاکھ ووٹر ہے۔ اس میں سے 70 ہزار ووٹرز کا خیال ہے کہ اس حلقے میں سامنے آنے والے تمام امیدوار اس قابل نہیں کہ انہیں ووٹ دیا جائے ، ان کی عمومی شہرت اچھی نہیں ، یہ ہر موسم میں وفاداری بدل لیتے ہیں یا کچھ کہی ان کہی ، دیگر وجوہات کی بنیاد پر اس حلقے کی غالب اکثریت ان سب کو ٹھکرا دینا چاہتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ان لوگوں کے پاس اپنی اس رائے کے اظہار کا کیا ذریعہ ہے؟ ذرائع ابلاغ پر نگران حکومت اور الیکشن کمیشن مل کر ایک مہم سی برپا کر دیتے ہیں کہ اے اہل وطن ووٹ ضرور ڈالیے ، یہ آپ کا قومی فریضہ ہے۔ اس سوال کا مگر کوئی جواب نہیں دیتا کہ ایسے میں یہ لوگ جو تمام دستیاب امیدواران سے بے زار ہیں ، اپنی رائے کے اظہار کے لیے کون سا طریقہ اختیار کریں؟ یہ اگرایک قومی فریضہ ہے تو اس صورت میں کیسے ادا کیا جائے؟نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ یہ اکثریت انتخابی عمل سے لا تعلق ہو جاتی ہے ، وہ ووٹ دینے ہی نہیں آتی۔ ٹرن آؤٹ محض 20 ، 25 یا 30 فی صد تک رہتا ہے۔ اب اس 30 فیصد ٹرن آؤٹ میں جس امیدوار کو زیادہ ووٹ ملتے ہیں وہ حلقے کا منتخب نمائندہ بن جاتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس نمائندے کو حلقے کی غالب آبادی نے تو ووٹ ہی نہیں دیا۔ ووٹ ڈالنے والے اقلیت میں تھے اور ووٹ نہ ڈالنے والے اکثریت میں۔ ایسے میں ناقص اور محدود تر مینڈیٹ کا حامل یہ شخص حلقے کا نمائندہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ اسے تو شاید حلقے کے رجسٹرڈ ووٹوں کا 15 فیصد بھی نہ ملا ہو۔ پارلیمان ، الیکشن کمیشن اور ان کا الیکشن ایکٹ اس بھاری پتھر کو اٹھانے تو کیا چھونے کو بھی تیار نہیں۔ انہوں نے ایک سادہ سا اصول بنا رکھا ہے کہ جسے زیادہ ووٹ مل گئے، وہ الیکشن جیت جائے گا۔ لیکن غور طلب معاملہ یہ ہے کہ اگر بائیکاٹ کرنے والوں اور الیکشن سے لا تعلق رہنے والوں کی تعداد زیادہ ہو جائے تو اس صورت میں الیکشن کا کیا اعتبار ؟ الیکشن ایکٹ میں ٹرن آؤٹ کی کم از کم شرح کا کوئی تعین نہیں کیا گیا۔ انتخابی عمل سے عوام کی عمومی لاتعلقی کا کسی نے سماجی اور نفسیاتی جائزہ لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اسے بالعموم عوام کی سستی اور غیر ذمہ داری تصور کیا جاتا ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے قومی فریضے کی ادائیگی میں غفلت کا ارتکاب کرتے ہیں۔چنانچہ انتخابی گہما گہمی کے ساتھ ہی عوام کی تربیت کے لیے قومی ذرائع ابلاغ پر وعظ و نصیحت کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ قومی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے انتخابی عمل میں حصہ لیجیے۔ لیکن اس پہلو پر کوئی غور نہیں کرتا کہ انتخابی عمل سے عوام کی لا تعلقی کی کچھ اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں یا لازم ہے کہ اس لا تعلقی کو عوام کی جہالت ، سستی اور غیر ذمہ داری ہی قرار دیا جائے۔ عوام کے الیکشن سے لا تعلق ہونے اور اس کے نتیجے میں ٹرن آؤٹ کم ہونے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یہ پارلیمان اور الیکشن کمیشن کا کام تھا وہ اپنے سماج کے رجحانات کا مطالعہ کر کے کوئی رپورٹ تیار کرتے۔ لیکن انہوں نے آسان راستہ یہی چنا کہ سارا ملبہ ووٹر کی غیر ذمہ داری پر ڈال دیا جائے اور رسمی اور بے روح سی مہم چلا کر انہیں ترغیب دی جائے کہ ہم نے تو انتخابی عمل میں با معنی اصلاح کرنی نہیں ہے ، اس لیے آپ ہی اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے الیکشن والے دن تشریف لائیں اور چار پانچ نا پسندیدہ امیدواران میں سے کسی ایک کو ووٹ دے جائیں۔اس ساری الجھن کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ بیلٹ پیپر پر امیدواران کے نام اور انتخابی نشان کے بعد ایک اورخانے کا اضافہ کیا جائے اور اس میں لکھا ہو :NOTA یعنی None of the above۔ جو ووٹر بیلٹ پیپر پر موجود کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دینا چاہے ، وہ NOTA پر مہر لگا کر تمام امیدواران کو مسترد کر دے۔ ایک بار جب ووٹر کو یہ حق مل جائے کہ اگر وہ تمام امیدواران سے بے زار ہے اور وہ باقاعدہ طور پر اپنی اس رائے کا اظہار بیلٹ پیپر پر مہر لگا کر ، کر سکتا ہے تو پھر دیکھا جائے گا کہ کیا اب بھی وہ انتخابی عمل سے پہلے کی طرح لا تعلق رہتا ہے یا اس کے بعد ٹرن آؤٹ میں غیر معمولی بہتری آتی ہے۔ اس بندوبست کو علامتی بھی رکھا جا سکتا ہے ( جیسے بھارت میں ہے) اور اسے پوری معنویت کے ساتھ نافذ بھی کیا جا سکتا ہے۔ معنویت کے ساتھ نافذ کرنے کی شکل یہ ہو سکتی ہے کہ اگر جیتنے والے امیدوار سے زیادہ ووٹ NOTA کے آپشن کو ملیں تو تمام امیدواران کو شکست خوردہ قرار دے دیا جائے کیوں کہ اس حلقے کے اجتماعی ضمیر نے ان تمام امیدواران کو رد کر دیا ہے۔ اس کے بعد دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اس نشست پر ضمنی انتخاب کروایا جائے اور اس میں ان تمام امیدواران کے حصہ لینے پر پابندی ہو جنہیں حلقے کے عوام نے پہلے مرحلے میں رد کر دیا تھا۔ دوسری شکل یہ ہے کہ اس حلقے کو اگلے عام انتخابات تک خالی رہنے دیا جائے۔ اس عمل کے بہت سے فوائد ہوں گے۔ ٹرن آؤٹ بڑھے گا اور عوام کی انتخابی عمل سے عمومی لا تعلقی ختم ہو گی۔سیاسی جماعتوں پر دباؤ بڑھے گا اور وہ نسبتا بہتر امیدوار لانے کی شعوری کوشش کریں گی۔عوامی رائے کی معنویت میں اضافہ ہو گا اور ووٹر کی حیثیت ایک بے بس عامل کی نہیں رہے گی بلکہ لوگ خود کو حقیقی معنوں میں با اختیار سمجھیں گے۔بیلٹ پیپر میں NOTA کا آپشن نیا ، انوکھا یا ناقابل عمل نہیں۔ یہ بنگلہ دیش ، بھارت ، فرانس ، بلجیم ، بنگلہ دیش، یوکرین ، انڈونیشیا ، برازیل سمیت مختلف ممالک میں مختلف عنوانات کے تحت مختلف دائرہ ہائے کار میں یہ آپشن موجود ہے۔( جاری ہے)