اس وقت حالات کی سنگینی کا عالم یہ ہے کہ عوام کبھی اتنے خوفزدہ نہیں ہوئے جتنے آج ہیں، یہ شاید اس لیے ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنان یا اکا دکا عوام نے حقیقی ’’ریڈلائن‘‘ عبور کر دی ہے۔ جس کا شاید اُنہیں علم ہی نہیں تھایا اُنہیں کبھی ایجوکیٹ ہی نہیں کیا گیا تھا کہ اُن کی حدود کیا ہیں۔ بات سادہ سی ہے کہ جہاں جہاں بھی آزادی اظہار رائے کا وجود ہے وہاں کے ممالک نے اپنے عوام کے لیے اور باہر سے آنے والوں کے لیے ہر زبان میں لٹریچر فراہم کیا ہوا ہے۔ کینیڈا، امریکا، آسٹریلیا، برطانیہ، ملایشیا، یو اے ای وغیرہ سبھی ممالک نے یہ سہولت دے رکھی ہے۔بلکہ آسٹریلیا تو ہر ملک میں غیر قانونی طور پر آسٹریلیا جانے والوں کو خبردار کرنے کے لیے باقاعدہ مہم چلاتا ہے کہ اگر آپ آسٹریلیا غیر قانونی طریقے سے چلے بھی جائیںتو وہاں آپ کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسے تارکین وطن کے لیے انہوں نے الگ فورسز قائم کر رکھی ہیں، اُنہیں باقاعدہ ایجوکیٹ بھی کیا جا تا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ وہاں رہائش پذیر افراد کو عام اور سادہ زبان میں رہنے کے اصول و ضوابط سے آگاہ کیا ہوا ہے۔ تبھی عوام کو ’’ریڈلائن‘‘ سے بھی آگہی ہے اور گرین لائن کا بھی پتہ ہے۔ ہمارے ہاں ہر حکومتی عہدیدار اپنا سر فخر سے بلند کرتے ہوئے کہتا نہیں تھکتا کہ عوام میں شعور آچکا ہے، اُسے فریڈم آف سپیچ حاصل ہے یا وہ کھل کر اپنی بات کا اظہار کر سکتا ہے۔ اور پھر جب وہ بات کرتا ہے تو اُسے دھر لیا جاتا ہے۔ اُسے بتایا ہی نہیں جاتا کہ بھئی! کہاں تک جانا ہے اور کہاں رکنا ہے۔ یعنی اُنہیں ایجوکیٹ ہی نہیں کیا جاتا کہ اُن کو اپنے ملک میں رہنا ہے تو کیسے رہنا ہے؟ اُن کی حدود و قیود کیا ہیں؟ یعنی یہاں آئین تو بنا ہوا ہے مگر وہ اس قدر مشکل ہے کہ آپ کو بغیر وکیل کوئی قانون سمجھ ہی نہیں آسکتا۔ حد تو یہ ہے کہ کہیں عوام کی آگہی کے حوالے سے کوئی اقدام ہی نہیں کیے جاتے۔ سیمینار یا نصاب میں اس چیز کو حصہ بنانا تو دور کی بات سرکاری ویب سائیٹس پر آپ کو کہیں عوام کی آگہی کے لیے کوئی لٹریچر ہی نہیں ملے گا۔ جس کا بسا اوقات خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ آپ 9مئی کے واقعات کو ہی لے لیں، عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو اُس کے نتیجے میں وہی کچھ ہوا جس کا خان صاحب خود بھی تقاریر میں ذکر فرمایا کرتے تھے۔ نہیں یاد تو ’’ریڈلائن‘‘ وغیرہ جیسے بیانات آپ کو ضرور یاد ہوں گے۔ خیر عوام نے شاید 9مئی کو بھی یہی سمجھا ہوگا کہ جس طرح تحریک لبیک نے 2017-18ء میں ایک بار نہیں بار بار پورا ملک بند کیا، پورے ملک میں املاک کو جلا دیا گیااُنہیں کچھ نہیں کہا گیا، موٹروے تک کو روک کر گاڑیاں جلادی گئیںکسی کو کچھ نہیں کہا گیا۔پھر اُس سے پہلے طاہر القادری اور عمران خان کے دھرنے ہوئے جن میں پی ٹی وی کی عمارت اور پارلیمنٹ پر چڑھائی کر دی گئی، اکا دکا مقدمات درج ہوئے کسی کو کچھ نہیں کہا گیا، اُس سے بھی پہلے ایک جماعت کی طرف سے سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا کہ چیف جسٹس بھاگنے پر مجبور ہوگئے ، کسی کو سزانہ ملی، پھرپنجاب اسمبلی پر حملہ ہو سکتا ہے، پھر عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد پورے ملک میں جلائو گھیرائو ہوا۔اور سینکڑوں گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ پھر حال ہی میں سب نے دیکھا کہ سپریم کورٹ کے مین گیٹ پر کئی مولانا حضرات چڑھ دوڑے۔ لیکن ان سب کو’’ سیاسی اقدامات ‘‘کا نام دے کر جان چھڑوالی گئی۔ اب کی بار بھی بیچارے عوام اسی بھول بھلیوں میں تھے۔یہ واقعی بے شعور عوام کے لیے محض ایک شغل ہی تھا۔ اور پھر حکمران کا شغل یہ ہے کہ اُنہوں نے یہ بتانا بھی عوام کو مناسب نہیں سمجھا کہ اُن کی حدود کیا ہیں؟ حالانکہ اب عوام کی نشاندہی کے لیے کروڑوں روپے کے جو اشتہار دیے جا رہے ہیں ، تو کیا یہ اشتہارات پہلے نہیں دیے جا سکتے تھے؟ کہ اگر کسی نے احتجاج کے دوران سرکاری املاک، فوجی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش تو اُنہیں سخت سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ بہرحال گرفتار ہونے والے سب پاکستانی شہری ہیں ان سب کی اصلاح ہو سکتی ہے، ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لیے اگر کسی کا کریمنل ریکارڈ نہیں ہے تو وہ کسی غلطی کی وجہ سے وہاں پہنچا ہوگا۔ یا ورغلایا گیا ہوگا تو ایسے افراد کے لیے معمولی سزائیں دی جائیں، بلکہ جس طرح دنیا بھر کی جیلوں میں اخلاقی سزائوں کا طریقہ کار بھی ،ملتا ہے بالکل اسی طرح یہاں بھی یہ طریقے رائج کیے جائیں کہ کسی کو جیل کی صفائی کی سزاد ی جائے اور کہا جائے کہ وہ ہر پیر کے روز پنجاب اسمبلی کی یا کسی اور سرکاری عمارت کی صفائی ستھرائی کا کام کرے گا۔ یا وہاں کے لوئیر سٹاف کے ساتھ مل کر کا م کرے گا۔ بلکہ میں تو کہتا ہوںکہ پوری قوم کی اصلاح کریں، اگر کہیں پشتون ناراض ہیں تو اُنہیں ایجوکیٹ کریں، بلوچی ناراض ہیں تو اُنہیں پہاڑوں سے نیچے لے کر آئیں، ایم آرڈ ی تحریک کے بعد سندھی بھی ہم سے ناراض ہوئے۔ 1983ء کے بعد تو سندھ میں رات کو سفر کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ ابھی بلوچستان میں بھی یہی حال ہے۔ تبھی عوام بھی متنفر ہو چکے ہیں۔ آپ اس سے پیچھے چلے جائیں ، سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت بھی ریاست نے ماں کا کردار ادا نہیں کیا تھا۔ تبھی عوام میں غم و غصہ اور بے چینی جیسی کیفیت پائی جاتی تھی۔ اور پھر پیپلزپارٹی کے ساتھ 10 سال تک جو کچھ ہوا کیا کیا پیپلزپارٹی ختم ہوگئی ؟ میرے خیال میں کبھی ختم نہیں ہوگی، ایسے سختی کرنے سے کسی پارٹی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے قوم پر مہربانی کریں۔ انہیں جوڑنے کی کوشش کریں، کیوں کہ بے جا سختی بھی انسان کو باغی کر دیتی ہے۔ درحقیقت مجھے ڈر یہ بھی ہے کہ کہیں ولی خان کی یہ بات سچ نہ ہو جائے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری جنگ پنجاب سے ہی لڑی جائے گی۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ادارہ اپنا احتساب خود کرے، ادارے سوچیں کہ اُن کی کس غلطی پر عوام میں ردعمل بڑھتا ہے۔ ورنہ ہم سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور دشمن فائدہ اُٹھاجائے گا !لہٰذا دست بستہ گزارش ہے کہ قوم کے بچوں کو ریلیف دیں، بلکہ قوم کی بیٹیوں کو رہا کریں، اس سے ہر گزاچھا تاثر قائم نہیں ہو رہا ،اور حقیقت میں آزادی اظہار رائے کا پرچار کریں تاکہ ہمارے مسائل کم ہوں اور دنیا دیکھے کہ ہمارے ہاں واقعی آزادی اظہاررائے کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ٭٭٭٭٭