حکومت نے آئندہ مالی سال کے دوران 24ارب ڈالر کا قرض ادا کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے قرض کا نیا معاہدہ کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق بجٹ کے فوری بعد اس سلسلے میں عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں گے۔نئے معاہدے سے آگاہ حلقوں کا کہنا ہے کہ نیا بیل آئوٹ پیکیج موجودہ پیکیج سے زیادہ سخت اور 3سال سے زائد عرصہ کے لئے ہو گا۔ماہرین کا خیال ہے کہ نئے انتخابات سے پہلے آئی ایم ایف سے معاہدہ ضروری ہے۔ پی ٹی آئی نے 2018ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد ملک کو بیرونی قرضوں سے بچانے کی خاطر آئی ایم ایف سے نئے قرضے نہ لینے کا اعلان کیا۔یہ اعلان زمینی حقائق کے برعکس تھا۔اس کے پس پردہ معاشی اور مالیاتی محتاجی سے آگاہی کی بجائے مقبول سیاسی نعرہ اہم کردار ادا کر رہا تھا۔وطن عزیز میں عام طور پر حکومتیں اپنی ناکامی اور بدانتظامی کا ملبہ کسی نہ کسی عالمی ادارے پر پھینکنے کو تیار رہتی ہیں‘ ملکی معیشت کی بحالی میں ناکام رہنے والی حکومتیں عوام کو باور کراتی رہی ہیں کہ آئی ایم ایف انہیں اصلاحات نہیں کرنے دیتا۔سچائی اور ہے۔آئی ایم ایف عالمی ادارہ ہے جو مختلف ممالک کی معیشتوں‘ ان کے زرمبادلہ کے ذخائر اور بیرونی قرضہ جات پر نظر رکھتا ہے۔اگر کسی ملک کو بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے قرض کی ضرورت ہو تو آئی ایم ایف یہ سہولت فراہم کرتا ہے۔آئی ایم ایف قرض دیتے وقت اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اس کا قرض ڈوب نہ پائے۔قرض کی واپسی یقینی بنانے کے لئے آئی ایم ایف کے ماہرین قرض لینے والے ملک کو ایسی اصلاحات تجویز کرتے ہیں جن سے معیشت قرض ادا کرنے کے قابل رہے۔ نئے ٹیکسوں کا نفاذ‘ ٹیکس محاصل کا حجم بڑھانا‘ کچھ شعبوں کو دی جانیوالی سبسڈی کا خاتمہ‘ بینکوں کی شرح سود میں کمی بیشی اور بینکنگ کے شعبے کی ترقی کے لئے آئی ایم ایف سفارشات پیش کرتا ہے۔پاکستان کے معاملے میں یہ ہوا کہ سابق حکومتوں نے آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض دانشمندی سے استعمال نہیں کیا۔ 1990ء اور بعدازاں 2013ء کے بعد قائم ہونے والی مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے عالمی اداروں سے لیے گئے قرض کو انتہائی لاپرواہی سے استعمال کیا جس کے نتیجے میں ملک پر اس کی سالانہ آمدن سے زیادہ قرض کی ادائیگی کا بوجھ آن پڑا۔اب قرض اتارنے کے لئے قرض لیا جاتا ہے ۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کا ایک ضابطہ ہے۔اس ضابطے کے تحت کوئی بھی ملک اپنے کوٹہ کے 25فیصد کے برابر قرضہ صرف ادائیگیوں کے توازن کو درست کرنے کے لئے حاصل کر سکتا ہے۔غریب ممالک کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ تخفیف غربت کے پروگرام کے تحت عالمی ادارے سے سستے قرضے حاصل کر سکتے ہیں۔پاکستان قائم ہوا تو اسے مالی وسائل کی اشد ضرورت تھی۔آئی ایم ایف نے بارہا پیشکش کی لیکن 11سال تک پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ سے کوئی قرض نہ لیا۔1958ء میں ایوب خان کے دور میں پاکستان نے پہلا قرضہ لیا۔تب سے لے کر اب تک پاکستان 21مرتبہ آئی ایم ایف سے مختلف طرح کے قرض اور پیکیج وصول کر چکا ہے‘1988ء سے سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام شروع کیا گیا۔اس پروگرام کے تحت آئی ایم ایف شدید معاشی مشکلات کے شکار ملک کو مخصوص شرائط کے تحت نیا قرض دیتا ہے۔ 2019ء کی ابتدا تک پاکستان پر غیر ملکی قرض مجموعی طور پر 106ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا‘ یعنی جی ڈی پی کے 72.5فیصد سے زیادہ۔ گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف حکام کی پاکستانی حکام سے ملاقاتیں ہوئیں۔مشن کی سربراہ اور وزیر اعظم کے مابین براہ راست ملاقات میں بھی 2019ء سے جاری بیل آئوٹ پیکیج کی نئی قسط پر اتفاق رائے نہ فراہم کر سکی۔حکومت نے گلہ کیا ہے کہ آئی ایم ایف قرض کی شرائط میں سیاسی مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے۔آئی ایم ایف نے ایک ہفتہ قبل حکومت پاکستان کو یاد دلایا تھا کہ وہ ملک میں سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیوں کو آئینی و قانونی طریقہ کار کے مطابق رکھیں۔حکومت کا خیال ہے کہ پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ‘ ڈالر کے نرخوں پر حکومتی کنٹرول ختم کر کے اور دیگر شرائط پر عمل کر کے وہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر چکی ہے۔اس لئے آئی ایم ایف کو نئی شرائط تھمانے کی بجائے بیل آئوٹ پیکیج کی قسط جاری کر دینی چاہیے۔ آئی ایم ایف وفد کے ساتھ حکومتی ملاقاتوں کے بعد شائد یہ سمجھا جا رہا ہے کہ 6ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کی مزید شرائط کے ساتھ نہیں چلا جا سکتا‘ ان حالات میں حکومت نیا معاہدہ کرنے پر غور کر رہی ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ نیا معاہدہ پہلے والے سے سخت شرائط کا حامل ہو گا۔اللہ خیر کرے، پاکستان کے عوام قرضوں کے بدترین اثرات بھگت رہے ہیں جبکہ قرضوں پر عیش کرنے والی حکمران اشرافیہ کی نظر نئے قرضوں پر ہے۔بہتر ہو گا کہ ابھی سے سخت شرائط کی خبر دینے کی بجائے حکومت پہلے والا معاہدہ مکمل کرنے پر توجہ دے۔ آئی ایم ایف کا قرض ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا سکتا ہے۔آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ پاکستان کی حکومت ملک میں جاری سیاسی بحران کو آئین و قانون کے دائرہ کار میں طے کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد حکومت کی پالیسیوں کی حمایت نہیں کر رہی۔حکومت اس سلسلے میں نئے انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان کرکے اس بدگمانی کو دور کر سکتی ہے۔