پاکستان ایک بڑا توشہ خانہ ہے جس کے ذرائع پیداوار‘ عوام اور جغرافیہ کو حکمران طبقات اپنے لئے تحفہ سمجھتے ہیں۔کبھی انتخابات میں کچھ رقم خرچ کر کے اور کبھی قیمے کے نان کھلا کر‘ بہت کم قیمت پر عوام کو اپنی ملکیت میں لے لیتے ہیں اور ملکی ذرائع پیداوار اور ملک پر قابض ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔جو رقم ان تحائف کو حاصل کرنے میں لگاتے ہیں‘اقتدار میں آ کر اس کو کئی ہزار گنا منافع میں تبدیل کرتے ہیں، اگر عوام اس پر کبھی احتجاج کرتے ہیں تو ان کو معاشی‘ سیاسی اور ثقافتی غلبے میں رکھنے کے لئے ریاستی اداروں کو استعمال کرتے ہوئے بدترین تشدد کے ذریعے خوف و ہراس پھیلا کر اپنے ان تحائف کو اپنے قبضے میں رکھنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔غیر سیاسی حکمران تو یہ تحائف مفت میں حاصل کرتے ہیں، جب چاہے آتے ہیں، توشہ خانے میں جو کچھ بھی ہے، اسے بلا شرکت غیرے اپنی ملکیت سمجھ کر جب تک چاہیںاس پر قابض رہتے ہیں۔اس بڑے توشہ خانے میں ایک محکمہ توشہ خانہ بھی ہے جو کیبنٹ ڈویژن کے باعث کام کرتا ہے۔اس سال مارچ میں اس محکمے نے 446صفحات پر مبنی 2002ء سے 2023ء تک کے تحائف کی فہرست شائع کی ہے اور سابقہ صدور، وزرائے اعظم اور وفاقی وزراء کو ملنے والے تحائف کی اس فہرست کو عام کر دیا گیا ہے۔اس ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ 2023ء کے دوران یعنی تین ماہ کے عرصے میں 59تحائف لئے گئے جبکہ 2022ء میں 224‘2021ء میں 116‘2015ء میں 177‘2014 میں 91تحائف شامل ہیں۔ان تحائف کو کچھ نے مروجہ قوانین کے مطابق ادائیگی کر کے اورکچھ نے بغیر کسی ادائیگی کے اپنی ملکیت میں لیا، جس کا نہ تو کوئی حساب ہے اور نہ ہی کوئی پوچھنے والا ہے۔البتہ الیکشن کمیشن توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو لپیٹنے کے چکر میں ہے جبکہ اس دستاویز میں عمران خان کے علاوہ 2002ء سے لے کر 2023ء تک کے تمام سابق وزرائے اعظم ‘ وزراء اور صدور، ان کی بیگمات اور اہل خانہ جنہوں نے تحائف کو اپنی ملکیت میں لیا، اس کی تفصیلات موجود ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ ان سب کا بھی قانون کے مطابق محاسبہ کیا جائے گا۔ارشد شریف مرحوم یہ سوال ہمیشہ پوچھتا رہا کہ توشہ خانہ کے حوالے سے سیاست دان حکمرانوں کا چرچا ہے ۔کروڑوں مالیت کی لگژری کاریں مہنگی گھڑیاں ‘ پرفیومز‘ آئی فونز‘ زیورات جو توشہ خانہ سے سول حکمرانوں نے حاصل کیں اس کا حساب تو نہ جانے کب ہو گا مگر پاکستان بطور بڑا توشہ خانہ جس لوٹ کھسوٹ کا شکار چلا آ رہا ہے، اس کا حساب تو عوام ایک نہ ایک دن ضرور لیں گے۔ توشہ خانہ فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے، خزانہ گھر۔مغلوں کے دور حکمرانی میں توشہ خانہ وہ جگہ تھی جہاں پر بادشاہ سلامت اور شہزادے تحفے اور اعزازات کو اپنی آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کرتے تھے۔برطانوی نو آبادیاتی حکمرانی کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہل کاروں کو حکمرانوں یا ان کی رعایا سے سفارتی تحائف ‘ زیورات جنہیں خلعت کہا جاتا تھا، قبول کرنے کی اجازت نہیں تھی۔یہ تو ابتدائی دنوں کی بات ہے مگر بعد میں تو پورا ہندوستان ہی سلطنت برطانیہ کے توشہ خانہ میں آ گیا۔امریکہ کے صدر کی حیثیت سے تھامس جیفرسن نے غیر ملکی معززین سے قیمتی تحائف قبول نہ کرنے کی پالیسی کو قائم کیا اور برقرار رکھا۔البتہ کسی کتاب یا پمفلٹ کو بطور تحفہ قبول کیا جا سکتا تھا۔1806ء میں انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت کرکے کہا کہ یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ میں اپنے اوپر الزام تراشی سے بھی محفوظ رہوں اور کسی بھی ایسے عمل سے دور رہوں جو اختیارات کے غلط استعمال کی ترغیب دیتا ہو۔1805ء میں انہوں نے چار گھوڑے جو تیونس کے سفیر نے انہیں پیش کئے تھے اس لئے قبول کئے تھے کہ ان گھوڑوں کو بیچ کر تیونس کے سفیر کے دورے پر خرچ ہونے والی امریکی حکومت کی لاگت پوری ہو جائے گی۔صرف ایک بار جیفرسن نے اپنی پالیسی سے اسثنیٰ حاصل کیا تھا جب روسی حکومت نے امریکی قونصل لیوٹ ہیرس کو الیگزنڈر اول کا مجسمہ پیش کیا تھا اور ہیرس نے یہ مجسمہ جیفرسن کو پیش کر دیا تھا۔یہ مجسمہ جیفرسن کے آبائی گھر مونٹیسلو میں موجود ہے۔ خیر سگالی کے طور پر تحائف کا لین دین انسانی تہذیب کی ابتدا سے ہی چلا آ رہا ہے۔757قبل از مسیح بازنطینی شہنشاہ قسطنطین نے فرانس کے بادشاہ Pipin the Shortکو ایک مکینیکل ایجاد کا تحفہ دیا تھا جس کا مقصد بازنطینی ٹیکنالوجی کی برتری کا اظہار تھا۔ بعض اوقات بہت عجیب قسم کے تحائف بھی دیے جاتے ہیں۔2009ء میں باراک اوباما امریکی صدر نے برطانیہ کے وزیر اعظم گورڈن برائون کو 25ڈی وی ڈیز کا تحفہ دیا ،جو کہ برطانوی ڈی وی ڈی پلیئرز کے سسٹم کے مطابق نہیں تھیں چنانچہ بے کار تھیں۔ 2003ء میں ارجٹائن کے صدر ینسٹرر کرچز نے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کو 300پائونڈ بھیڑ کا گوشت تحفے میں پیش کیا تھا یہ غالباً 1996ء کی بات ہے مجھے اور پروفیسر عارف کو آذر بائیجان کے دارالخلافہ باکو میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا، اس وقت باکو کمیونسٹ پارٹی کے صدر آقا عزت پاشا تھے اور ملک کے صدر حیدر علی تھے۔ہماری لندن واپسی کے روز صدر کی جانب سے ہمیں ایک گز لمبے نان اور دس کلو وزنی تربوز کے تحفے دیے گئے۔ ان کا اندراج تو کسی توشہ خانہ میں کروانا دور کی بات اس کا اٹھا کر لانا بھی ناممکن تھا۔1947ء میں الزبتھ اور فلپ کی شادی کے موقع پر Queens landگورنمنٹ نے انناس کے 500ڈبے تحفے کے طور پر بھیجے تھے ۔سننے میں آیا ہے کہ شہنشاہ جاتی امرا نے جہاں توشہ خانہ پر ہاتھ صاف کئے وہاں ان کی بیٹی نے انناس کے ڈبے بھی نہیں چھوڑے۔1953ء اور اس کے بعد جب کبھی بھی ملکہ الزبتھ نے Fijiکا دورہ کیا انہیں Tabuaیعنی سپرم وہیل مچھلی کے دانت کا تحفہ دیا جاتا تھا۔1991ء میں ملکہ برطانیہ کو امریکہ کی طرف سے Cow boyبوٹ تحفے میں دیے گئے اسی طرح ملکہ 2000ء میں آسٹریلیا کے دورے پر Tillyکے ٹیمیڈ جو‘ کتے کو نہلانے کے صابن کی چکیا دی گئی تھی۔ایک زمانہ تھا جب برٹش ورجن آئی لینڈ کے گورنر پر لازم تھا کہ برطانیہ کے بادشاہ یا ملکہ کو جزیرے کے کرائے کے عوض ہر سال ایک پونڈ نمک بھیجے۔ یہ رسم آج بھی جاری ہے ۔ایک پونڈ نمک ہر سال برطانیہ کے بادشاہ کو وصول ہوتا ہے مگر تحفے کے طور پر۔مئی 1972ء میں دنیا کے سب سے طاقتور ممالک کے دو رہنمائوں نے اسٹریٹجک آرمز لمیٹیشن ٹاکس (Salt)معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے ملاقات کی۔یہ ملاقات صدر نکسن اور سوویت یونین کے صدر برژنیف کے درمیان تھی ۔اس موقع پر برژنیف نے نکسن کو Cloisonne Liqueurکا سیٹ تحفے میں دیا جس میں تامچینی کی صراحی اور پیالیاں تھیں۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی تحائف کا تبادلہ بین الاقوامی تعلقات کا حصہ ہے مگر کچھ حکمرانوں نے گھڑیوں ‘ کاروں اور زیورات کے تحائف کے ذریعے بین الاقوامی تعلقات کو کرپٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔توشہ خانہ تحائف کا معاملہ جس کروٹ بھی بیٹھے‘ پاکستان جو کہ بڑا توشہ خانہ ہے اس کے وسائل اور اس پر حق حکمرانی کے اختیار کو اپنے قبضے میں لینے کے لئے عوام باشعور بھی نظر آتے ہیں اور ظلم و بربریت کے باوجود تیار بھی۔
پاکستان ایک بڑا توشہ خانہ
هفته 03 جون 2023ء
پاکستان ایک بڑا توشہ خانہ ہے جس کے ذرائع پیداوار‘ عوام اور جغرافیہ کو حکمران طبقات اپنے لئے تحفہ سمجھتے ہیں۔کبھی انتخابات میں کچھ رقم خرچ کر کے اور کبھی قیمے کے نان کھلا کر‘ بہت کم قیمت پر عوام کو اپنی ملکیت میں لے لیتے ہیں اور ملکی ذرائع پیداوار اور ملک پر قابض ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔جو رقم ان تحائف کو حاصل کرنے میں لگاتے ہیں‘اقتدار میں آ کر اس کو کئی ہزار گنا منافع میں تبدیل کرتے ہیں، اگر عوام اس پر کبھی احتجاج کرتے ہیں تو ان کو معاشی‘ سیاسی اور ثقافتی غلبے میں رکھنے کے لئے ریاستی اداروں کو استعمال کرتے ہوئے بدترین تشدد کے ذریعے خوف و ہراس پھیلا کر اپنے ان تحائف کو اپنے قبضے میں رکھنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔غیر سیاسی حکمران تو یہ تحائف مفت میں حاصل کرتے ہیں، جب چاہے آتے ہیں، توشہ خانے میں جو کچھ بھی ہے، اسے بلا شرکت غیرے اپنی ملکیت سمجھ کر جب تک چاہیںاس پر قابض رہتے ہیں۔اس بڑے توشہ خانے میں ایک محکمہ توشہ خانہ بھی ہے جو کیبنٹ ڈویژن کے باعث کام کرتا ہے۔اس سال مارچ میں اس محکمے نے 446صفحات پر مبنی 2002ء سے 2023ء تک کے تحائف کی فہرست شائع کی ہے اور سابقہ صدور، وزرائے اعظم اور وفاقی وزراء کو ملنے والے تحائف کی اس فہرست کو عام کر دیا گیا ہے۔اس ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ 2023ء کے دوران یعنی تین ماہ کے عرصے میں 59تحائف لئے گئے جبکہ 2022ء میں 224‘2021ء میں 116‘2015ء میں 177‘2014 میں 91تحائف شامل ہیں۔ان تحائف کو کچھ نے مروجہ قوانین کے مطابق ادائیگی کر کے اورکچھ نے بغیر کسی ادائیگی کے اپنی ملکیت میں لیا، جس کا نہ تو کوئی حساب ہے اور نہ ہی کوئی پوچھنے والا ہے۔البتہ الیکشن کمیشن توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو لپیٹنے کے چکر میں ہے جبکہ اس دستاویز میں عمران خان کے علاوہ 2002ء سے لے کر 2023ء تک کے تمام سابق وزرائے اعظم ‘ وزراء اور صدور، ان کی بیگمات اور اہل خانہ جنہوں نے تحائف کو اپنی ملکیت میں لیا، اس کی تفصیلات موجود ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ ان سب کا بھی قانون کے مطابق محاسبہ کیا جائے گا۔ارشد شریف مرحوم یہ سوال ہمیشہ پوچھتا رہا کہ توشہ خانہ کے حوالے سے سیاست دان حکمرانوں کا چرچا ہے ۔کروڑوں مالیت کی لگژری کاریں مہنگی گھڑیاں ‘ پرفیومز‘ آئی فونز‘ زیورات جو توشہ خانہ سے سول حکمرانوں نے حاصل کیں اس کا حساب تو نہ جانے کب ہو گا مگر پاکستان بطور بڑا توشہ خانہ جس لوٹ کھسوٹ کا شکار چلا آ رہا ہے، اس کا حساب تو عوام ایک نہ ایک دن ضرور لیں گے۔ توشہ خانہ فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے، خزانہ گھر۔مغلوں کے دور حکمرانی میں توشہ خانہ وہ جگہ تھی جہاں پر بادشاہ سلامت اور شہزادے تحفے اور اعزازات کو اپنی آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کرتے تھے۔برطانوی نو آبادیاتی حکمرانی کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہل کاروں کو حکمرانوں یا ان کی رعایا سے سفارتی تحائف ‘ زیورات جنہیں خلعت کہا جاتا تھا، قبول کرنے کی اجازت نہیں تھی۔یہ تو ابتدائی دنوں کی بات ہے مگر بعد میں تو پورا ہندوستان ہی سلطنت برطانیہ کے توشہ خانہ میں آ گیا۔امریکہ کے صدر کی حیثیت سے تھامس جیفرسن نے غیر ملکی معززین سے قیمتی تحائف قبول نہ کرنے کی پالیسی کو قائم کیا اور برقرار رکھا۔البتہ کسی کتاب یا پمفلٹ کو بطور تحفہ قبول کیا جا سکتا تھا۔1806ء میں انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت کرکے کہا کہ یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ میں اپنے اوپر الزام تراشی سے بھی محفوظ رہوں اور کسی بھی ایسے عمل سے دور رہوں جو اختیارات کے غلط استعمال کی ترغیب دیتا ہو۔1805ء میں انہوں نے چار گھوڑے جو تیونس کے سفیر نے انہیں پیش کئے تھے اس لئے قبول کئے تھے کہ ان گھوڑوں کو بیچ کر تیونس کے سفیر کے دورے پر خرچ ہونے والی امریکی حکومت کی لاگت پوری ہو جائے گی۔صرف ایک بار جیفرسن نے اپنی پالیسی سے اسثنیٰ حاصل کیا تھا جب روسی حکومت نے امریکی قونصل لیوٹ ہیرس کو الیگزنڈر اول کا مجسمہ پیش کیا تھا اور ہیرس نے یہ مجسمہ جیفرسن کو پیش کر دیا تھا۔یہ مجسمہ جیفرسن کے آبائی گھر مونٹیسلو میں موجود ہے۔ خیر سگالی کے طور پر تحائف کا لین دین انسانی تہذیب کی ابتدا سے ہی چلا آ رہا ہے۔757قبل از مسیح بازنطینی شہنشاہ قسطنطین نے فرانس کے بادشاہ Pipin the Shortکو ایک مکینیکل ایجاد کا تحفہ دیا تھا جس کا مقصد بازنطینی ٹیکنالوجی کی برتری کا اظہار تھا۔ بعض اوقات بہت عجیب قسم کے تحائف بھی دیے جاتے ہیں۔2009ء میں باراک اوباما امریکی صدر نے برطانیہ کے وزیر اعظم گورڈن برائون کو 25ڈی وی ڈیز کا تحفہ دیا ،جو کہ برطانوی ڈی وی ڈی پلیئرز کے سسٹم کے مطابق نہیں تھیں چنانچہ بے کار تھیں۔ 2003ء میں ارجٹائن کے صدر ینسٹرر کرچز نے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کو 300پائونڈ بھیڑ کا گوشت تحفے میں پیش کیا تھا یہ غالباً 1996ء کی بات ہے مجھے اور پروفیسر عارف کو آذر بائیجان کے دارالخلافہ باکو میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا، اس وقت باکو کمیونسٹ پارٹی کے صدر آقا عزت پاشا تھے اور ملک کے صدر حیدر علی تھے۔ہماری لندن واپسی کے روز صدر کی جانب سے ہمیں ایک گز لمبے نان اور دس کلو وزنی تربوز کے تحفے دیے گئے۔ ان کا اندراج تو کسی توشہ خانہ میں کروانا دور کی بات اس کا اٹھا کر لانا بھی ناممکن تھا۔1947ء میں الزبتھ اور فلپ کی شادی کے موقع پر Queens landگورنمنٹ نے انناس کے 500ڈبے تحفے کے طور پر بھیجے تھے ۔سننے میں آیا ہے کہ شہنشاہ جاتی امرا نے جہاں توشہ خانہ پر ہاتھ صاف کئے وہاں ان کی بیٹی نے انناس کے ڈبے بھی نہیں چھوڑے۔1953ء اور اس کے بعد جب کبھی بھی ملکہ الزبتھ نے Fijiکا دورہ کیا انہیں Tabuaیعنی سپرم وہیل مچھلی کے دانت کا تحفہ دیا جاتا تھا۔1991ء میں ملکہ برطانیہ کو امریکہ کی طرف سے Cow boyبوٹ تحفے میں دیے گئے اسی طرح ملکہ 2000ء میں آسٹریلیا کے دورے پر Tillyکے ٹیمیڈ جو‘ کتے کو نہلانے کے صابن کی چکیا دی گئی تھی۔ایک زمانہ تھا جب برٹش ورجن آئی لینڈ کے گورنر پر لازم تھا کہ برطانیہ کے بادشاہ یا ملکہ کو جزیرے کے کرائے کے عوض ہر سال ایک پونڈ نمک بھیجے۔ یہ رسم آج بھی جاری ہے ۔ایک پونڈ نمک ہر سال برطانیہ کے بادشاہ کو وصول ہوتا ہے مگر تحفے کے طور پر۔مئی 1972ء میں دنیا کے سب سے طاقتور ممالک کے دو رہنمائوں نے اسٹریٹجک آرمز لمیٹیشن ٹاکس (Salt)معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے ملاقات کی۔یہ ملاقات صدر نکسن اور سوویت یونین کے صدر برژنیف کے درمیان تھی ۔اس موقع پر برژنیف نے نکسن کو Cloisonne Liqueurکا سیٹ تحفے میں دیا جس میں تامچینی کی صراحی اور پیالیاں تھیں۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی تحائف کا تبادلہ بین الاقوامی تعلقات کا حصہ ہے مگر کچھ حکمرانوں نے گھڑیوں ‘ کاروں اور زیورات کے تحائف کے ذریعے بین الاقوامی تعلقات کو کرپٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔توشہ خانہ تحائف کا معاملہ جس کروٹ بھی بیٹھے‘ پاکستان جو کہ بڑا توشہ خانہ ہے اس کے وسائل اور اس پر حق حکمرانی کے اختیار کو اپنے قبضے میں لینے کے لئے عوام باشعور بھی نظر آتے ہیں اور ظلم و بربریت کے باوجود تیار بھی۔
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں هفته 03 جون 2023ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں