کئی موضوعات ہیں جو مجھ پر قرض ہیں۔ایک تو وحید الدین خاں کی وفات پر کالم نہیں لکھ پایا۔ یہ ایک بھارتی سکالر تھے جو مذہبی موضوعات پر لکھا کرتے تھے۔میں نے انہیں مذہبی سکالر بھی نہیں لکھا اس کی وضاحت ضرور کروں گا۔ تاہم اس عرصے میں بہت سے اہل دانش نے ان پر طبع آزمائی کی ہے اور ان کی لبرل ازم سوچ کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ 95سال کے اس مرد ضعیف نے بہت جم کر کام کیا ہے۔ تاہم مذہب کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ خیر اس پر الگ سے لکھنا مجھ پر قرض ہے جو بہت جلد ادا کر دیا جائے۔ دوسرا موضوع جو میری توجہ مانگتا ہے‘وہ دبستان روایت کے مطابق چلنے والی ایک حالیہ بحث ہے جس میں میرے عزیز ترین بھائی احمد جاوید اور ملک کے نامور سکالر سہیل عمر جو مجھے کئی حوالوں سے عزیز ہیں‘ شامل ہو گئے ہیں۔خاکسار ساری عمر اس دبستان کے دفاع میں لڑتا رہا‘ کیونکہ یہ ہم تک حسن عسکری اور سلیم احمد کے ذریعے پہنچا تھا مگر مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس مکتب فکر پر اسلامی نقطہ نظر سے پہلی بار اعتراض اس خاکسار ہی نے اٹھایا تھا۔ اس وقت سلیم بھائی زندہ تھے جس کا مطلب ہے یہ لازمی 73کی بات ہے۔ یہ مضامین جھلکیاں کے نام سے نوائے وقت کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوئے تھے جس پر سلیم بھائی سے میری تفصیلی گفتگو ہوتی تھی۔ ان کی رائے بھی البتہ یہ تھی کہ اسلامی نقطہ نظر سے پہلی بار کسی نے کلام کیا ہے وگرنہ مار کسٹوںنے ساری بحث کا ستیا ناس کر دیا تھا۔ میں نے وضاحت کی تھی کہ مرے یہ اعتراضات ویسے ہی ہیں جیسے ایک نقشبندی کو چشتی پر یا ایک حنبلی کو ایک حنفی پر ہو سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ نہیں۔مجھ میں اتنی جرات نہ تب تھی نہ اب ہے کہ میں انہیں گمراہ کہوں۔ ان دونوں موضوعات پر بات چیت انشاء اللہ جلد کروں گا۔ہو سکتا ہے اگلا کالم انہی میں سے کسی ایک موضوع پر ہو۔ انشاء اللہ !اگر کارجہاں دراز نہ ہوتے گئے اور مسائل سیاست نے پائوں کو جکڑے نہ رکھا۔ گزشتہ دنوں عمران خاں کے بدلے بدلے رویے سے قدرے خوشی ہوئی پوری دنیا حیران ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے پہلی بار requestکا لفظ استعمال کیا ہے وگرنہ یہ ان کی لغت میں تھا ہی نہیں۔ انہوں نے اپوزیشن کو الیکشن اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت دی ہے اور اس سے اگلے ہی روز ملک کی مقتدرہ کی طرف سے پارلیمنٹ کے ارکان کو ملک کے نازک حالات پر بریفنگ دی گئی۔ایک بار نظر آیا کہ اہم قومی معاملات پر پوری قوم ہم خیال ہے۔ اس بات پر اتفاق ہے کہ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال میں ہمیں خود کو الگ رکھنا ہے اور یہ کہ امریکہ کو کسی قسم کے فوجی اڈے نہیں دینا۔سچ پوچھیے جب عمران خاں نے یہ کہنا شروع کیا تو میں نے احباب سے تین باتیں کیں ایک تو یہ کہ الیکشن شاید بہت قریب آ گئے ہیں اس لئے پاپولر بیانیہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کو اڈے نہ دینے کی بات یقینًا داد وصول کرے گی جبکہ امریکہ کے اعلیٰ ترین اندرونی حلقے یہ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں ان کے پاکستان سے بلکہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں سے رابطے ہیں۔یہ بھی کہا گیا کہ اس بیانیے کی دو اور وجوہ بھی ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ وزیر اعظم اپنے سکیورٹی اداروں کو مشکل صورت حال سے دوچار کر رہے ہیں۔ امریکہ یقینًا ہم سے کچھ مانگ رہا ہے اور اشارہ دے رہا ہے کہ اس کا تعلق سکیورٹی سے ہے۔ اس تاثر کا نتیجہ یہ تھا کہ سیم پیج والی بات شاید اس معاملے میں سچ نہیں۔تاہم پارلیمنٹرین کی میٹنگ میں آرمی چیف نے بھی اس موقف کی حمایت کر دی۔ تو کیا مطلب ہے سب کچھ مل ملا کر ہو رہا تھا تاکہ پینٹا گون کو بتایا جائے کہ ہماری قوم تیار نہیں ہے‘ اس لئے ہم مجبور ہیں۔ ایسے جیسے سعودی عرب کو یمن کے فیصلے پر بتایا گیا تھا کہ ہماری پارلیمنٹ تیار نہیں ہے۔مگر اس کے تو منفی نتائج بھی بھگتنا پڑے تھے۔ بعض اہل نظر کی رائے تھی کہ ایسا امریکہ کے کہنے پر کہا گیا تھا کہ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ ہم اس معاملے میں مداخلت کریں یا سعودی عرب کو مزید شہہ دینے کا سبب بنیں۔ سو تین باتیں ہوئیں۔1۔الیکشن قریب ہیں۔2۔ فوج سے ہٹ کر پاپولر موقف اپنایا جا رہا ہے۔3۔ یہ کہ مل ملا کر ملک کو مشکل سے بچایا جا رہا ہے کہ ہمیں اس مصیبت کو نہیں مول لینا چاہیے۔ ایک تو یہ ویسے بھی مناسب نہیں۔ افغانستان میں الجھ کر ہم نے بہت نقصان بھی اٹھایا ہے اور بہت مطالبے بھی سنے ہیں۔ڈو مور اور مور۔ چلو اب کی بار نو مور کو اپنا کر دیکھ لیتے ہیں۔دوسرے یہ کہ اس وقت سی پیک اور چین امریکہ تصادم کی وجہ سے ہمارے لئے اس علاقے میں امریکہ کو اڈے دینا گویا چین سے دشمنی کرنا بھی ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں وزیر اعظم اس وقت سی پیک اور چین کی رٹ لگا رہے ہیں جبکہ اس حکومت کی آمد پر سی پیک کو ایسٹ انڈیا کمپنی بنا دیا گیا تھا۔ ہم نے چین سے منہ موڑ کر آئی ایم ایف کی طرف کر لیا تھا۔ یہ تک کہتے تھے پاکستان کے لئے اس اہم منصوبے کو موخر کر دیا جائے۔ اب ہم بار بار چین کی مالا جھپ رہے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی سو سالہ تقریبات پر ہم دوبارہ خود کو بدلنا چاہتے ہیں۔ چین اب بھی کہتا ہے پاکستان سے ہمارے تعلقات ایسے ہیں جیسے امریکہ کے اسرائیل سے۔ مگر ہم نے بہت زیادتی کی ہے۔ ہم اچھے ’’اسرائیل‘‘ بھی بن نہ پائے۔ سو یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ افغانستان امریکہ اور چین ایک ہی مسئلے کے تین پہلو ہیں۔اس میں ایک اور اضافہ کر لیجیے اور وہ ہے کشمیر۔بلکہ بھارت کہہ لیجیے۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ یہ کسی ایک ادارے کے بس میں نہیں کہ وہ اس مسئلے کو حل کرے۔مری بات سمجھ گئے نا!