حسرت وصل ملی لمحہ بے کار کے ساتھ بخت سویا ہے مرا دیدہ بیدار کے ساتھ چشم نمناک لئے سینہ صد چاک سیے دور تک ہم بھی گئے اپنے خریدار کے ساتھ ویسے دیدہ اگر بیدار ہو تو بخت بھی جاگ اٹھتا ہے۔ اصل میں دل بیدار کی ضرورت ہے۔ کوئی مقصد ہو تو سودوزیاں سے اوپر اٹھ جانا چاہیے۔ مقصد میں معروف معنوں میں استعمال کر رہا ہوں کہ جس میں خیر پوشیدہ ہو۔اپنی مرضی سے آنکھیں کھولنا اور دانستہ بند کرنا دیدہ ور کا کام نہیں۔ میں کوئی فلسفہ بیان نہیں کر رہا ،بالکل سامنے کی بات ہے کہ آپ سچ بھی مصلحت کے تحت بولیں کہ جس سے فتنہ برپا ہونے کا اندیشہ؟بہرحال ملکی سالمیت اولین ترجیح ہی ٹھہرے گی ہم تو پہلے ہی دامن دریدہ اور زخم رسیدہ ہیں۔ مزید ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔نواز شریف کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں: ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ آمریت کے خلاف خامہ پروری کی۔مگر وہاں تیخ زنی کرتے ہوئے کیا ہوا۔ پلٹ کر دیکھا تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔ ہم بھی آپ ہی کے ساتھ تھے کہ جب ہم سمجھتے تھے کہ خدا نواز رہا ہے تمہیں نواز شریف۔ غلطی ہائے مضامین میں یہ کون نہیں شامل کہ زرداری کو ہم پر مسلط کیا گیا۔ پھر کیا ہوتا رہا۔ پنجاب کے گورنر ہاوس میں سلمان تاثیر کی مجلس شوریٰ کیا کرتی رہی۔ میں تفصیل میں نہیں جائوں گا کوئی ہم پر اتنا بھی اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ سیلاب اور زلزلے میں براہ راست امداد کر دے کہ وہ جانتے تھے کہ ان کا وزیر اعظم تک خیرات کا ہار چرا لیتا ہے۔ کس کو یاد نہیں کہ ملتا ن کے گلی کوچوں میں ملازمتیں بکتی تھیں۔ کیا یہ غلط ہے کہ جس کو بھی عدلیہ سزا سناتی اسے اعلیٰ عہدے پر دوبارہ لگا دیا جاتا۔ سوچنے والے محبتوں میں سوچتے ہیں: محبتوں میں تعصب تو در ہی آتا ہے ہم آئینہ نہ رہے تم کو روبرو کر کے میاں صاحب کے لئے زنبیل کھولنا مشکل ہے اگر آپ دلچسپی رکھتے ہوں تو سید ارشاد احمد عارف کا دو اکتوبر کو چھپنے والا کالم 92نیوز میں پڑھ لیں‘انشاء اللہ آپ کے چودہ نہیں اٹھائیس طبق روشن ہو جائیں گے: اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ آپ اختلافات رکھیں اور اس کا اظہار بھی کریں مگر چھرا گھونپنا اور وہ بھی ایسے کہ اپنے ہی ملک کی سالمیت دائو پر لگ جائے۔ آپ نے پاکستان سے دولت کمائی اور اس کو بھی چھوڑ دیں کہ کیسے کمائی مگر جب آپ نے ایکڑوں پر محیط محل اسارا تو اس کو جاتی امرا کا نام دیا، اگر آپ کی سوچ آپ کی وابستگی کی غماضی نہیں کر رہی تو پھر ہم پاگل ہیں۔ ماڈل ٹائون کی رہائش کو بھی آپ نے سٹیٹ بنا کر راستے بند کئے۔ سیفما میں کی گئی آپ کی تقریر بھی معصومیت کا شاہکار۔مودی کو بادشاہوں کی طرح گھر پر بلانا بغیر کسی ویزہ کے یہ کس کو چڑانے کے لئے تھا۔ ڈان لیکس تو کلائمکس تھا ہاں آپ جرات کرتے تو نینس منڈیلا بنتے۔ جمہوریت کیلئے میثاق پر ہی عمل کر لیتے۔سب باتوں کو نظر انداز کیا جا سکتا تھا مگر آپ لندن جا کر الطاف حسین کی جگہ جا بیٹھے جو اس قوم کا کھلا دشمن ہے اور جو واپس اپنی اصل پر لوٹ کر ہندو ہو چکا۔ مجھے کیا جو تونے تنگ آ کر چاک کر ڈالا ترا دامن تھا تیری جیب تھی تیرا گریباں تھا یہ بات بھی آپ ذھن میں رکھیں کہ اس کے باوجود کہ آپ کی پارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے مگر پنجاب کے لوگ ایم کیو ایم نہیں بن سکتے۔ آپ تھوڑا سا صبر کرتے تو خان صاحب تقریباً ناک آئوٹ ہونے والے تھے تاریخ کی سب سے بری کارکردگی ان کی ہے۔ لوگ سچ مچ فوج کی طرف دیکھنے لگے ہیں۔ کوئی تو آئے جو عوام کو سانس لینے کی سپیس مہیا کرے۔ اب تو جینا دوبھر ہو گیا۔ اللہ معاف کرے کہ مرد و خواتین بلوں اور روزمرہ کی مہنگائی کے باعث سراپا احتجاج ہیں۔ خان صاحب کو چاہیے کہ ان دنوں وہ اپنی بیان بازی پر بھی پابندی لگا لیں۔ اب بتائیے کہ یہ کہنے والی بات ہے کہ فوج ایک ادارہ ہے اور اس کو میں جہاں چاہوں گا استعمال کروں گا۔ پھر یہ کہنا کہ اگر ڈی جی آئی ایس آئی مجھ سے استعفیٰ مانگتا یا پوچھے بغیر آرمی چیف کارگل میں حملہ کرتا تو انہیں گھر بھیج دیتا۔میرا خیال ہے کہ ایسے بیانات سے انہیں اجتناب ہی کرنا چاہیے۔یگانہ نے کہا تھا: خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا مولانا فضل الرحمن کا تذکرہ میں نے دانستہ نہیں کیا کہ وہ تو آپ سے کھیل رہے ہیں ان کے ہم عقیدہ بھی انہیں راست پر نہیں سمجھ رہے کہ وہ جن کا دفاع کر رہے ہیں وہ کون ہے۔ اگرچہ ن لیگ کی پوری سیاست مریم نواز صاحبہ کے ہاتھ میں آ چکی ہے مگر وہ اپنے صرف ایک جھوٹ کا جواب نہیں دے سکیں کہ جب انہوں نے کہا تھا لندن تو کیا میری تو پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں اور دھیلے کی کرپشن شہباز شریف کی چھیڑ بن گئی ہے۔ ساری باتوں کے باوجود عسکری قوتوں کو بھی اپنے عہد پر قائم رہنا ہو گا کہ جس کا اعادہ کیانی ‘ راحیل شریف اور قمر باجوہ نے کیا ہے کہ فوج سیاست سے دور رہے گی۔ وہ اگر انہی سیاستدانوں کو کرپشن کی کھلی چھوٹ نہ دیتے تو تب بھی وہ لائق تحسین ہوتے۔ اب گزارش تو صرف اتنی ہے کہ جن کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ان کی جسارت کا جواب بہت دانش مندی سے دینا ہو گا۔ ملک خون خرابے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آخر میں رانا سعید دوشی کا ایک شعر: بھرا ہو جس قدر اتنا وہ بے آواز ہوتا ہے خرد کی انتہائوں سے جنوں آغاز ہوتا ہے