عبدالستار ہاشمی

اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر امید ہی جینے کی امنگ کیوں ہوتی ہے تو پاکستان میں ایک آمرانہ دور کے خاتمے پر عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظر بھٹو کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر دوڑائیں، اُن کی ساری زندگی جدوجہد اور عوامی حقوق کی بازیابی کی جنگ لڑتے گزری، انہوں نے آمریت کے 11 برس جس جرات و ہمت اور مستقل مزاجی سے کاٹے، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ 

ایسے حالات میں کوئی لڑکی ایسا کھیل کھیلنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی جو لڑکے کھیلتے تھے۔ جنرل ضیا الحق کی موت کے بعد ملک میں الیکشن ہوئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر سامنے آئیں۔یہ ایک ایسا دور شروع ہواجس میں تبدیلی اور امید کے دیپ جلے لیکن یہ تبدیلی اور امید کا راج کس کے ہتھے چڑھا اور سارا کچھ پھر سے زمین بوس ہو گیا،وہ ایک الگ داستان ہے لیکن انہی دنوں امید اور تبدیلی کی آس لیے لندن سے خان سسٹرز خاص طور پر پاکستان آئیں۔ 19 سالہ شازیہ اور 16 سالہ شرمین پاکستان میں خواتین کی کرکٹ ٹیم بنانے کا خواب لے کر لندن سے وطن لوٹی تھیں،انہی دنوں عمران خان اپنے عروج پر تھے اور کرکٹ کا یہ پلے بوائے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کر رہا تھا۔ ایان بوتھم، رچرڈ ہیڈلی، مائیکل ہولڈنگ، ویوین رچرڈز جیسے کئی نامور کرکٹرز کی فہرست میں عمران خان کا نام بھی لکھا جاتا تھا۔ عمران خان کرکٹ میں طلسماتی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے، یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں کرکٹ کا یہ عروج کا وقت تھا۔ 

کیا میدان اور کیا گلیاں کوچے، ہمہ وقت کرکٹ کے میلے ہی سجے ہوتے تھے۔ شازیہ اور شرمین نے سوچا کہ یہی وہ وقت ہے کہ یہاں خواتین کرکٹ کی داغ بیل ڈالی جائے، خود بچپن میں انہیں اجازت نہ تھی کہ وہ گلی میں کھیلتے لڑکوں کو دیکھ بھی سکیں۔ ان کا بھائی اس سٹریٹ کرکٹ ٹیم کا اہم رکن تھا اور یہ دونوںننھی بچیاں گھر کی کھڑکی سے گلی میں ہونے والے میچ دیکھا کرتی تھیں، پھر انہیں لندن کے ایک بورڈنگ ہاؤس میں پڑھنے کے لیے بھجوا دیا گیا جہاںدونوں بہنیں یہاں کے تعلیمی اداروں کی گرلز کرکٹ الیون کا حصہ بنیں۔ بلکہ شرمین تو وہ پہلی غیر ملکی لڑکی تھیں جس نے اپنے سکول کی کرکٹ ٹیم کی قیادت کی تھی۔

تعلیم مکمل کر کے اور خاص طور پر پاکستان میں خواتین کرکٹ کا آغاز کرنے کی شدید خواہش انہیں وطن واپس لے آئی، ورنہ انہیں لندن میں اعلیٰ ملازمتوں کی شاندار پیش کش موجود تھیں۔ دونوں بہنوں نے کراچی میں مختلف لڑکیوں کو اکٹھا کر کے ٹیم بنائی اور شام کو لیاری کے میدان میں نیٹ پریکٹس شروع کی، ابتدا  میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کوئی لڑکی ایک روز کھیلنے آتی تو دوسرے دن اس کے گھر والے پابندی عائد کر دیتے تھے لیکن ان دونوں بہنوں نے ہمت نہ ہاری اور آخر کار وہ ایک ٹوٹی پھوٹی ٹیم بنانے میں کامیاب ہو گئیں۔ ٹیم بنانے کے بعد خان سسٹرز نے مردوں کی اس ٹیم کو میچ کھیلنے کا چیلنج دے دیا جس میں لیجنڈری ظہیر عباس بھی شامل تھے۔ میچ کا انعقاد ہونا ممکن تھا یا نہیں، ایک الگ بحث ہے لیکن اس چیلنج کے بعد ملک بھر کے مذہبی حلقوں نے احتجاج شروع کر دیا۔ خان سسٹرز کے خلاف باقاعدہ احتجاجی مظاہرے کیے گئے جس پر کراچی کے پولیس کمشنر نے دنوں بہنوں کو بلوا کر ان کی جانوں کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا اور تنبیہ کی کہ وہ کرکٹ کھیلنا بند کر دیں۔ یہاں شازیہ نے یہ دلائل دئیے کہ ایک طویل جدوجہد کے بعد ایک خاتون نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اٹھا کر خواتین کی برتری ثابت کر دی ہے، وہ بھی تو سارا دن مختلف مردوں کے ساتھ میٹنگز کرتی ہیں لیکن لوگوں کو ہماری کرکٹ پر کیوں اعتراض ہے۔ اس سوال کا جواب  پولیس کمشنر کے پاس نہ تھا۔ اس میچ پر ملک بھر میں واویلا مچ گیا، شازیہ اور شرمین کو میچ کھیلنے کی اجازت تو دے دی گئی لیکن ساتھ یہ شرط بھی نتھی کر دی گئی کہ یہ میچ خواتین کی دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جانا چاہیے،جس پر خان سسٹرز مان گئیں اور معاملات طے پا گئے ۔حفاظتی نکتہ نظر سے خان سسٹرز کی رہائش گاہ پر سکیورٹی اہلکار تعینات کر دئیے گئے، یہاں تک کہ اگلے روز کھیلے جانے والے خواتین کرکٹ کے اس میچ پر سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے 8 ہزار پولیس اہلکار تعینات کئے گئے۔ دونوں ٹیموں کو انتہائی سخت سکیورٹی میں لایا گیا اور جیسے ہی شام کو میچ ختم ہوا۔ شازیہ اور شرمین کو اسٹیڈیم سے سیدھا ایئرپورٹ لایا گیا اور لندن روانہ کر دیا گیا۔ یہ اقدامات نہ اٹھائے جاتے تو ممکن تھا کہ جنونی لوگ ان کے گھر پر حملہ آور ہو جاتے۔ خان سسٹرز کے والد نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ جب یہ ملک آپ کے لیے تیار ہو گا میں آپ کو واپس بلوا لوں گا، پھر کئی برس بیت گئے۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت 20 مہینوں بعد ہی ختم کر دی گئی۔ امید کے چراغ بجھ چکے تھے، اور اس طرح پاکستان میں خواتین کرکٹ کے اجراء کی خواہش خان سسٹرز کے دل میں ہی رہ گئی۔ تاہم وہ انگلینڈ میں مسلسل کرکٹ کھیلتی رہیں۔

1993ء میں انگلینڈ نے خواتین کرکٹ کے عالمی کپ کا ٹورنامنٹ منعقد کیا، اس سے ایک برس پہلے عمران خان پاکستان کو عالمی نمبر ون چیمپئن بنوا چکے تھے۔ خواتین کے عالمی کپ ٹورنامنٹ کا فائنل دیکھنے کے لیے دونوں بہنیں لارڈز کے میدان میں موجود تھیں اور انہوں نے وہاں بیٹھے بیٹھے یہ منصوبہ بندی کر لی تھی کہ کس طرح1997 میں ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی ٹیم بھی شامل ہو گی۔ یہ دونوں چاہتی تو انگلینڈ کی ٹیم کی رکن بن سکتی تھیں لیکن انہوں نے ٹھان لی تھی کہ پاکستان کی ٹیم بنا کر وہ دنیا کامقابلہ کریں گی۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ جان جوکھوں کا کام ہے لیکن ان کا شوق اور جذبہ یہ سب کر گزرا۔ ورلڈ کپ مقابلے میں حصہ لینے کے لیے ٹیم کا ہونا ناگزیر تھا اور ایسی ٹیم جس نے کم از کم تین انٹرنیشنل میچ بھی کھیل رکھے ہوں تو انہیں ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں شرکت کا موقع مل سکتا ہے۔ یہ دونوں بہنیں 1996 میں وطن آئیں اور انہوں نے پاکستان ویمن کرکٹ کنٹرول ایسوسی ایشن نام کی ایک کمپنی بنا کر اسے رجسٹرڈ کروایا۔ اس کمیٹی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی مکمل طور پر حمایت حاصل تھی۔

ادھر کراچی میں کرکٹ کے دلدادہ کیرن بلوچ نامی لڑکی نے بھی پاکستانی خواتین کرکٹ ٹیم کا خواب دیکھا لیکن اس کے پاس وسائل نہ تھے۔ خان سسٹرز نے جب قومی ٹیم بنانے کے لیے دیے جانے والے ٹرائل کا اشتہار اخبار میں دیا تو کرن کو لگا جیسے اس کے من کی مراد بر آئی ہو۔ اس نے ٹرائل دیا اور کوالی فائی کر گئی۔ اس طرح وہ قومی ٹیم کی پہلی کھلاڑی قرار پائی۔ اس کی کارکردگی اور دلچسپی کو دیکھتے ہوئے جلد ہی اسے وائس کپتان بنا دیا گیا۔ خان سسٹرز نے اس وقت سپورٹس منسٹر انیتا غلام علی سے ایک طویل ملاقات کی اور قومی ٹیم کے پہلے غیر ملکی دورے کے اخراجات لینے اور دیگر معاملات طے کرنے کا پہاڑ سر کر لیا اور اس طرح قومی ٹیم اپنے پہلے دورے پر نیوزی لینڈ پہنچی۔ نومولود نئی ٹیم نے تین میچ کھیلے اور تینوں کے تینوں ہار گئی۔ ورلڈ کپ میں شرکت کی پہلی شرط پوری ہو چکی تھی لیکن افسوس کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے خواتین کی اس ٹیم کو اس طرح سپورٹ نہیں کیا جس طرح کی توقع کی جا رہی تھی۔ تاہم حنیف محمد نے شازیہ اور شرمین کی کوششوں کو سراہا اور مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے انہیں بہترین گراؤنڈز مہیا کرنے میں مدد دی۔ اس دوران 50 کی دہائی کے کرکٹرز کو دعوت دی گئی کہ وہ خواتین کے پریکٹس سیشن کو مانیٹر کر کے آئیں اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازیں۔ خود حنیف محمد اپنے دیگر برادران کے ساتھ یہاں آیا کرتے تھے۔ فضل محمود نے بھی یہاں کا دورہ کیا۔ ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ چھوٹے اسٹیشنز سے متوسط گھرانوں کی خواہش مند لڑکیوں نے کرکٹ کے میدانوں کا رخ کیا۔ کراچی ٹی ٹو ایف کی سبین محمد گلی میں لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے جوان ہوئی تھیں۔ سبین محمدنے ٹریننگ اور پریکٹس سیشن میں شمولیت کی اور ٹیم کا حصہ بنی۔بعدازاں سبین محمد انتقال کر گئیں۔ خوش گوار حیرت تھی کہ 12 سالہ ساجدہ شاہ بھی ٹیم کا حصہ بنیں۔ اتنی کامیابی سمیٹنے کے باوجود خان سسٹرز کے دل میں ان مذہبی جنونیوں کا خوف نہ گیاجو انہوں نے پہلا ٹیم میچ کھیلنے کے دوران دیکھا تھا۔یہ لوگ اپنا پہلا ورلڈ کپ ٹورنامنٹ آسٹریلیا کے دورے پرنکلے تو  ٹیم مکمل رازداری کے ساتھ ایئرپورٹ پہنچی، تمام لڑکیوں نے عام لباس پہنے ہوئے تھے اور ان کے سامان کرکٹ بیگ کی بجائے ڈبوں میں لائے گئے تھے۔ ان لوگوں نے میلبورن میں جا کر ٹیم یونیفارم زیب تن کیا تھا۔یہ سفر یہاں ختم نہ ہوا، خان سسٹرز مسلسل سات برس تک اس جدوجہد میں جتی رہیں۔ ان کی انہی کوششوں کی وجہ سے قومی ٹیم نے پہلی مرتبہ 2001 میں نیدرلینڈ سے ون ڈے میچز کی سیریز 4-3 سے جیتی۔ اس کے ایک برس بعد اس ٹیم نے ٹیسٹ میچ کھیلے اور دونوں ہی ہار گئے۔ یہ سفر رکا نہیں اور آج یہ ٹیم دنیا کی اچھی ٹیموں میں شمار ہوتی ہے۔

کر کٹ ٹیم بنانے کے بعد خان سسٹرز نے مردوں کی اس ٹیم کو میچ کھیلنے کا چیلنج دے دیا جس میں لیجنڈری ظہیر عباس بھی شامل تھے لیکن اس پر مذہبی حلقوں سے خوفناک ردعمل آیا، حنیف محمد اپنے بھائیوں کے ہمراہ  لڑکیوں کا نیٹ سیشن دیکھنے آیا کرتے تھے، فضل محمود نے بھی یہاں کا دورہ کیا، ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ متوسط گھرانوں کی خواہش مند لڑکیوں نے کرکٹ کے میدانوں کا رخ کیا

٭٭٭