مجھے اس امر میں کوئی شک نہیں رہا کہ پاکستان دُکھوں کی جتنی فصل کاشت ہوتی ہے۔ اس کا بیج حکمران اشرافیہ بو رہی ہے۔میں جب سابق‘ موجودہ اور آنے والے حکمرانوں کے چہرے دیکھتا ہوں تو ملک کی بدقسمتی پر رونا آتا ہے کہ ملک کیسے لوگوں کے ہاتھ میں کھلونا بنا ہوا ہے۔ جب کبھی ملک کسی قدرتی آفت کا شکار ہوا حکمران اشرافیہ کے لئے کمائی کا دروازہ کھل گیا۔2005ء کا زلزلہ آیا۔ساری دنیا نے مدد کی۔زلزلے کے بعد میں خود مظفر آباد گیا۔امریکہ نے افغانستان میں موجود اپنے جدید ہیلی کاپٹر امدادی مشن پر بھیجے۔ ترکی اور جاپان نے عارضی ہسپتال قائم کئے۔ کینیڈا‘ برطانیہ عرب ممالک‘ آسٹریلیا سمیت ساری دنیا ہمارے دکھ میں شریک تھی۔اربوں ڈالر آئے۔یہ رقم اس قدر تھی کہ ہر متاثرہ خاندان کو دو بار مدد دی جا سکتی تھی لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اب تک بہت سے لوگوں کو مدد نہیں مل سکی۔ حالیہ برس سیلاب آیا۔دنیا کا اعتماد اٹھ چکا ہے پھر بھی ہمدردی دکھائی جو رقم ملی وہ تین ماہ گزرنے کے باوجود متاثرین تک نہیں پہنچی۔ سردیاں سر پر آ گئیں۔ متاثرہ خاندانوں کے لئے سندھ اور بلوچستان میں جو خیمہ بستیاں قائم کی گئی تھیں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ لاہور کے دو نوجوان سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پہلے دن سے کام کر رہے ہیں۔عبدالباسط نے شجر کاری سے کام شروع کیا۔آغا سحر گرین کمیونٹی کے نام سے تنظیم کے ڈائریکٹر ہیں۔ عبدالباسط نے تونسہ اور ڈی جی خان میں امدادی کام انجام دیا ہے۔15گھر بنائے‘ درجنوں افراد کو روزگار کی مدد دی‘ سینکڑوں خاندانوں کو سیلاب کے دوران راشن مہیا کیا۔سردیاں آنے سے پہلے تقریباً 2ہزار افراد کو بستر فراہم کئے ہیں۔کچھ مساجد کے آئمہ کے لئے خصوصی پیکیج کا انتظام کیا۔عبدالباسط بتا رہے تھے کہ ان کا دائرہ عمل تونسہ اور ڈیرہ غازی خان کا علاقہ ہے۔یہاں جب پنجاب حکومت نے گھر کی تعمیر کے لئے 2لاکھ اور 4لاکھ کا پیکیج فراہم کرنا شروع کیا تو عبدالباسط نے اپنی امدادی سرگرمیوں کا رخ دوسرے کاموں کی طرف موڑ لیا۔وہ پنجاب کے علاقوں میں امدادی سرگرمیوں سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ نعیم آصف کا تعلق بھی لاہور سے ہے۔نعیم ناصف فلاحی تنظیم زمزم کی جانب سے سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں کام کر رہے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ سیلاب زدہ علاقے میں زیادہ تر پنجاب اور کراچی شہر کے مخیر حضرات خدمت کر رہے ہیں۔سکھر‘ گھوٹکی‘ اوباڑو‘ سانگھڑ‘ تھر‘ میر پور میرس‘ دادو‘ میر پور خاص جیسے اضلاع میں کام کے دوران انہوں نے کہیں نہیں دیکھا کہ حکومت سندھ نے کوئی مکان تعمیر کیا ہو۔چند مقامات پر لوگوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ملنے والی معمولی رقم سے کچھ کچی پکی چھت کھڑی کر لی۔ شاید پورے سندھ میں چھوٹی چھوٹی 2بستیاں ہیں جو سندھ حکومت نے اب تک تعمیر کی ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں کپاس اور کماد کی فصلوں میں ہفتوں تک پانی کھڑا رہا۔فصلیں خراب ہو گئیں۔اس سے ٹیکسٹائل اور چینی کی صنعت متاثر ہو گی۔ہزاروں مویشی اور جنگلی جانور سیلاب میں ڈوب گئے۔اب بھی مویشیوں کو مہینوں سے کھڑا پانی پینا پڑ رہا ہے۔کئی جگہ پرپانی زہریلا ہو چکا ہے۔چارہ مل نہیں رہا۔ امید ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں نیا چارہ دستیاب ہو سکے گا۔ میں نے نعیم ناصف سے غیر ملکی اداروں اور تنظیموں کے کام کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ دادو اور سکھر کے کچھ ہوٹلوں میں غیر ملکی این جی اوز اور عالمی اداروں کے لوگ مقیم ہیں لیکن سکیورٹی ایس او پیز کی وجہ سے یہ لوگ صبح 11بجے سے سہ پہر 3بجے کے درمیان فیلڈ میں رہ سکتے ہیں اس لئے یہ زیادہ کام نہیں کر پا رہے۔ دیپالپور کے قاسم علی نے تحصیل سجاول ٹھٹھہ سے تعلق رکھنے والے کہانی نویس اور ناول نگار مشتاق کاملانی کی ایک تصویر بھیجی ہے۔کاملانی نے ’’گونگی بارش‘‘ اور ’’چیٹا لہو‘‘ جیسے افسانے لکھ کر سندھی ادب میں اپنی پہچان بنائی۔ ادیب خوشحال تو ہوتا نہیں۔مشتاق کاملانی کا بھی چھوٹا سا گھر تھا جس پر کسی جابر نے قبضہ کر لیا۔کاملانی گلیوں میں مٹی پر سو جاتا ہے‘ شائد کچھنشہ بھی کرتا ہو لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس کے لکھے یہ جملے ان سب کے لئے تازیانہ ہیں۔جنہیں سیلاب متاثرین کی مصیبت رلاتی ہے نہ غریب کی آہ سے خوف آتا ہے۔بقول مشتاق کاملانی: ’’اگر خدا نے تمہارے منہ میں زبان رکھی ہے اور اسے سچ کہنے کے لئے استعمال نہیں کرتے تو ایک احسان کرو‘ اسے کٹوا لو… اور ہاں! جہاں اتنی محنت ہو گی‘ وہاں ایک کام اور بھی کروا لینا… اپنی یہ ناک بھی کٹوا دینا… انسانیت کو تم پر کم از کم شرم تو نہ آ سکے‘‘ مجھے نہیں معلوم سندھ حکومت اپنی دھرتی کی جب بات کرتی ہے تو لوگوں کو اس دھرتی کا حصہ کیوں نہیں سجھتی۔عبدالباسط پنجاب کی طرف سے مشتاق کاملانی کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔اللہ انہیں نعیم ناصف اور دیگر رضا کاروں کو جزائے خیر دے۔