بات ہے تب کہ بن کہے دل کی اسے سنا کہ یوں خود ہی دھڑک دھڑک کے دل دینے لگے صدا کہ یوں سوچا تھا سنگ دل کو ہم موم کریں تو کس طرح آنکھ نے دفعتاً وہاں اشک گرا دی کہ یوں کسی کو متاثر کرنے کابے ساختہ اظہار تو یہی ہے۔ میر کا شعر یاد آ گیا اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا ۔لو ہوآتا ہے جب نہیں آتا۔ شاید اسی کو خون کے آنسو رونا کہا جاتا ہو۔ میں نے کہا کہ کس طرح جیتے ہیں لوگ عشق میں۔اس نے چراغ تھام کے لو کو بڑھا دیا کہ یوں ۔تو جناب جلنا تو پڑتا ہے چلنا تو پڑتا ہے اور ساتھ تو نبھانا پڑتا ہے۔ پرویز الٰہی کو کہنا پڑا کہ جب عمران کہیں گے اسمبلیاں تحلیل کر دوں گا۔ مزید کہ اسمبلی عمران کی امانت ہے اور لوگ غلط فہمیاں ڈال رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک فلم کے گیت کا ایک مصرع یاد آ گیا ساتھ ایک اور شرارتی شعر غالب کا ذہن میں آ گیا نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے، پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے۔ صورت حال بہت دلچسپ ہے یقین و ایماں کی بات اپنی جگہ مگر ابوالکلام کی بات اپنی جگہ کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا بلکہ سیاست نے یہ بھی ثابت کیا کہ آنکھ میں حیا بھی نہیں ہوتی۔ اس کی ایک سو ایک مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں اس سیاست کی بنیاد مفادات پر ہوتی ہے ایک ہی خاندان میں شریکا پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک بات زرداری صاحب نے بھی کہی تھی کہ وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے ۔ زرداری صاحب کی رائے میں قرآن و سنت سے ان کی عقیدت ضرور ملتی ہے۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرویز الٰہی کو بار بار یہ یقین دہانی کیوں کروانا پڑ رہی ہے۔آخر لوگوں کو شک کیوں ہے کہ اس کے لب پر سوال آیا ہے یعنی شیشے میں بال آیا ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ ق لیگ کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ وہ پرویز مشرف کو دس مرتبہ وردی سمیت قبول کرنے کے لئے تیار تھے بلکہ چوہدری شجاعت نے تو ایک جلسے میں حافظ حسین کو ٹوک دیا کہ وہ وردی پر مٹی ڈالیں اور کوئی دوسری بات کریں۔حافظ حسین نے برجستہ کہا تھا ’’ہم مٹی بھی ڈال دیں گے مگر آپ پہلے اپنا بندہ تو اس میں سے نکالیں ۔شاید اب پرویز الٰہی میں اعتماد آ گیا ہو کہ وہ مخالف ہوا میں اڑنے کے قابل ہو گئے ہوں۔ اب تو ایاز صادق بھی کہہ رہے کہ بیس لوگ تو ان کے پاس بیٹھے ہیں۔ لگتا ایسے ہی ہے کہ شور شرابے میں انتخاب آ جائیں گے اگرچہ عمران خان نے ٹھان رکھی ہے کہ وہ آرام سے نہ بیٹھیں گے اور نہ بیٹھنے دیں گے۔ پی ٹی آئی کمیٹی نے 20دسمبر تک اسمبلیاں تحلیل کرنے کا عندیہ دے دیا ہے اس کے باوجود کسی کا پرویز الٰہی کو یہ کہنا کہ ملک میں عدم استحکام نہیں آنا چاہیے ایک پیغام کی سی حیثیت رکھتا ہے ۔دوسری طرف آپ زرداری کو اتنا آسان لیں کہ انہوں نے پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں میں عدم اعتماد لانے کا اعلان کر دیا ہے۔ کئی آپشن پی ڈی ایم کے سامنے ہیں ایک بات مولانا فضل الرحمن کی بھی سن لیں کہ فرماتے ہیں عمران خاں کی دھمکیاں چائے کی پیالی میں طوفان ہیں اور نتیجتاً الیکشن ایک سال مزید آ جا سکتے ہیں۔ ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب پر جام آنے تک۔ چلتے چلتے سراج الحق صاحب کی بات بھی میں کرتا چلوں کہ انہوں نے ملک کے نوجوانوں کے لئے بہت اچھی بات کی کہ بے شمار نوجوان بے روزگار ہیں اگر جماعت آئی تو ان کی طرف توجہ دے گی اور نوجوانوں کو نوکری ملنے تک ان کو بے روزگاری الائونس بھی دے گی ۔یقینا ایک سوال تو بنتا ہے کہ اتنے پیسے خزانے میں کہاں سے آئیں گے اس کا جواب بڑا سیدھا ہے کہ اگر حکومت ایمانداری سے ہماری آئی ہوئی امداد درست استعمال کرے تو یہ کام مشکل نہیں۔ ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ ہر در میں سیلاب زلزلہ اور دوسری آفات کے لئے آئے پیسوں کا کچھ کسی نے کوئی حساب نہیں دیا مثلاً ن لیگ نے قرض اتاروں ملک سنوارو کا حساب نہیں دیا۔ مجھے کہنے دیا جائے کہ جماعت اسلامی اس حوالے سے پاک صاف ہے خوف خدا رکھنے والی جماعت ہے خوف خدا سے بڑی نعمت کوئی نہیں ہوتی، شعر یاد آ گیا: کبھی دکھ کسی کو دیا نہیں مجھے اے خدا ترا خوف تھا ترا خوف بھی تری دین ہے بھلا اس میں میرا کمال کیا یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں کہ پاکستان کے نوجوان کو عمران خاں نے متاثر کیا کہ وہ ایک ڈیڈ آنسٹ اور کچھ کر گزرنے کا جنون لے کر آئے نوجوانوں کو پہلی مرتبہ اپنی منزل نظر آنے لگی اگرچہ اس سے پیشتر شہباز شریف نے طلبہ و طالبات میں لیپ ٹاپ اور سولر پمپس وغیرہ تقسیم کئے اور وظائف اور غیر ملکی دوروں کا بندوبست کیا لیکن اس کے باوجود عمران خاں نوجوانوں کا کریز بنا۔ ہماری عمر کے لوگ بھی خود کو نوجوان سمجھنے لگے پھر ہوا کیا آپ کے سامنے ہے ۔ میری گزارش یہ ہے کہ خان صاحب کو آج بھی اپنی ترجیحات پر غور کرنا چاہیے سنتے تو یہی ہیں کہ خرابی بسیار کے بعد وہ دوبارہ اپنے نظریاتی لوگوں سے رجوع کر رہے ہیں کہ وہ بری طرح ٹریپ ہو گئے تھے وہ زیر دام آ گئے یا جال میں آ گئے الگ بات ہے عدیم ہاشمی کا لازوال شعر یاد آ گیا: تمام عمر کا ہے ساتھ آب و ماہی کا پڑے جو وقت تو پانی نہ جال میں آوے خاں صاحب بار بار تعلیم کی بات کرتے تھے کہ ان کی نمل یونیورسٹی سامنے تھی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم کے لئے انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا بلکہ جو وزیر اعظم ہائوس اور گورنر ہائوس کو یونیورسٹیاں بنانے کا دعویٰ تھا وہ پورا نہیں ہوا تعلیم کا حال یہ ہو گیا کہ خان صاحب کو اپنی تقریر میں کہنا پڑا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پی ٹی آئی تعلیم کے حوالے سے سنجیدہ نہیں سلیم کوثر کا ایک شعر: تم بھلا کیا نئی دنیا کی بشارت دو گے تم تو رستہ نہیں دیتے ہمیں چلنے کے لئے