شرم الشیخ میں ہونے والی کاپ 27 کانفرنس کے دوران پاکستان کی کامیاب موسمیاتی سفارتکاری پر متعلقہ اداروں اور بین الاقوامی شراکت داروں کی کاوشوں کو سراہنے کے لیے منعقدہ تقریب سے خطاب کر تے ہوئیوزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے : پاکستان نے شرم الشیخ کانفرنس میں آفات سے ہونے والے ضیاع اور نقصان کے ایجنڈا کو موثر طریقے سے اجاگر کیا، جس کے نتیجے میں لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کا قیام عمل میں آیا ، یہ ایک تاریخی اقدام ہے، پاکستان کا مقدمہ موسمیاتی انصاف ہے، خیرات نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنج کو قبول کرنا خوش آئند ہے تا ہم اس ضمن میں کیے گئے وعدوں کو عملی شکل دینا ضروری ہوگا۔ ماحولیاتی مسائل پر وفاقی اکائیوں کے درمیان بہتر ہم آہنگی وقت کی ضرورت ہے، پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ 10 ممالک میں شامل ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تباہ کن سیلاب نے ملک بھر خصوصاً سندھ اور بلوچستان کے صوبوں میں تباہی مچا ئی ،جس کے باعث پاکستان کوجانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔ اگر دکھا جائے توعالمی کاربن کے اخراج میں پاکستان کا ایک فیصد سے کم حصہ ہے،لیکن اسے سب سے زیادہ نقصان کا سامنا ہے ۔ ماحولیاتی مسائل پر وفاقی اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے کیونکہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد ماحولیات کا محکمہ صوبوں کے حوالے کر دیا گیا تھا،موجودہ حالات کے پیش نظر جب کوئی سیاسی پارٹی 18ویں ترمیم میںتبدیلی کی بات کرتی ہے ،تو پیپلز پارٹی سب سے پہلے میدان میں آن کھڑی ہوتی ہے ،حالانکہ اس ترمیم میں کئی ایسی ترمیمیں موجود ہیں ،جن میں مزید تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ۔جن میں ایک ماحولیاتی مسائل بھی ہیں ،اگر یہ محکمہ وفاق کے پاس ہوتا تووفاق اس میں بہتری کی کوشش کر سکتا ،لیکن اب صوبوں کے پاس ہونے کی وجہ سے وفاق بھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ اس سال پاکستان کو شدید خشک سالی (جس سے صوبہ سندھ کا ڈیلٹا علاقہ خشک ہو گیا)، جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات ، شدید گرمی کی لہر ، اوسط شرح سے تین گنا زیادہ گلیشیئرپگھلنے اور مون سون کی شدید بارشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کو گزشتہ دو دہائیوں میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق 152 انتہائی واقعات کا سامنا کرنا پڑا اور گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈز (جی ایل او ایف) میں 300 فیصد اضافہ ہوا۔ شدید گرمی کی لہر کا تسلسل بڑھ کر سالانہ 41 دن ہو گیا ہے اور پاکستان کے کئی شہر مسلسل تین سال سے دنیا کے گرم ترین شہروں میں شمار ہو رہے ہیں، جہاں درجہ حرارت 53.7 ڈگری تک بڑھ گیا ہے۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے خطرات جیسا کہ غذائی قلت، غذائی تحفظ، سطح سمندر میں اضافہ اور آب و ہوا کی وجہ سے نقل مکانی میں اضافہ وقت کے ساتھ بڑھتے جا رہا ہیں ۔ پاکستان میں حالیہ سیلابوں نے آبادی، ملکی انفراسٹرکچر اور معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ سیلاب، شدید بارشیں اور گرمی کی لہر کا بڑھتا دورانیہ موسمیاتی تبدیلی کو نظریاتی مباحثے کی فہرست میں شامل ایک نکتے سے نکال کے ملک و قوم پر پڑنے والے ایک واضح بوجھ میں بدل چکا ہے۔ انسانی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو نقصانات اس قدر گھمبیر ہیں کہ ان کا احاطہ ممکن نہیں۔ لیکن سیاسی اعتبار سے یہ ریاست کے قومی سلامتی ڈھانچے میں موسمیاتی سلامتی کے شعبے کے ناپید ہونے کی بھرپور عکاسی کرتا ہے، جو پاکستان کی بقا کے لیے ایک آزمائش ثابت ہو سکتا ہے۔ 2010ء سے2022ء کے درمیان پاکستان میں تقریباً ہر سال ایک بڑا سیلاب آتا رہا ہے، جس سے سینکڑوں جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ بین الاقوامی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (آئی پی سی سی) نے تعداد اور نوعیت میں زیادہ شدت کے حامل موسمیاتی حادثات کے وقوع پذیر ہونے کا اندازہ لگایا ہے۔ اس برس کے موسم گرما میں پاکستان کو گرمی کی مہلک لہر اور مون سون کی غیرمعمولی بارشوں کا سامنا ہوا، جو سیلاب کا سبب بنا۔ گلوبل وارمنگ کے خلاف فی الوقت دنیا جس رفتار سے اقدامات کر رہی ہے، اس کے پیش نظر بارش یا برفباری سے جڑی آفات جیساکہ سیلاب کا 2.7 فیصد زیادہ خطرہ ہے جبکہ گرمی سے جڑی آفات جیسا کہ ہیٹ ویو کا 5.6فیصد زیادہ خطرہ ہے۔ آئی پی سی سی کے تخمینوں کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آنے والی دہائی میں اس سے ملتی جلتی آفات کا خطرہ دوگنا سے زیادہ ہو سکتا ہے جبکہ اس کے نتیجے میں معاشرتی و معاشی نقصانات ناقابل تصور حد تک بڑھ سکتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات چہار سو پھیلتے اور کئی شعبوں کو متاثر کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ معاشرتی و معاشی نقصانات ریاستی وسائل و سلامتی پر اضافی بوجھ ڈالنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اب محض جغرافیائی سیاسی دشمنیاں ہی ریاست کو درپیش خطرہ نہیں رہی ہیں بلکہ یہ ریاست کو درپیش خطرات کے سلسلے کی محض ایک کڑی رہ گئی ہے۔ قومی سلامتی کو اب ایک جامع روایتی سلامتی و موسمیاتی سلامتی پر مبنی لائحہ عمل کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان خطرات کی نشاندہی ہو سکے جو پاکستان پر سب سے زیادہ دباؤ بڑھا رہے ہیں ،حالیہ سیلاب میں جو تباہی آئی ہے ،اس کا تخمینہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے ،ورلڈ بینک نے پاکستان کے حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 40 ارب امریکی ڈالر لگایا ہے،ابھی تک کھیتوں میں پانی کھڑا ہوا ہے ،جو بیماریوں کا باعث بن رہا ہے ۔لہذا حکومت کو اس بارے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔