امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان ned priceنے 21مارچ 2022ء کو صحافیوں کو بتایا کہ یوکرین کے صدر زیلنسیکی نے کہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ ایک سفارتی حل کے لئے تیار ہیں،جس میں یوکرین کے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ نہ ہو۔پرائس نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بات یوکرین کے اصولوں کی نہیں ہے امریکی اصولوں کی ہے۔یہ جنگ یوکرین سے بڑی ہے بلکہ روس سے بھی بڑی ہے۔انہوں نے جنگ بندی کے مذاکرات کی حوصلہ شکنی یہ کہتے ہوئے کی کہ kieyمذاکرات میں امریکہ کے مفادات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ جنگ یوکرین کے مفادات کی نہیں بلکہ امریکی مفادات کے بارے میں ہے ایک ماہ بعد اپریل میں مذاکرات استنبول میں ایک بار پھر کامیابی کے قریب تھے جب امریکہ اور برطانیہ نے جنگ کو ختم نہ کرنے کے لئے یوکرین پر دبائو ڈالا اور جنگ کو جاری رکھنے پر اصرار کیا اور یہ جنگ جاری ہے۔ مجھے یاد ہے کہ انہی دنوں بورس جانسن برطانیہ کے وزیر اعظم نے زیلنسیکی کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا تھا کہ پیوٹن کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں بلکہ اس پر دبائو ڈالنا چاہیے چنانچہ روس کے سامنے امریکہ اور اس اتحادیوں کی ایک بوگی زیلنسیکی کی شکل میں کھڑی کر دی گئی ہے۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے روس کو مغرب کا ماتحت شراکت دار سمجھا گیا تھا۔2014ء تک روس امریکی اختلافات کو حل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی تھی مگر 2014ء میں جب امریکہ نے یوکرین کی منتخب جمہوری حکوم کا تختہ الٹنے کی سازش کی اور اس میں کامیاب ہوا تو روس پہلی بار امریکی تسلط کے خلاف کھڑا ہوا۔امریکی عزائم واضح ہو گئے کہ وہ کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے نیٹو کی افواج کو روس کی سرحدوں پر لاکر کھڑا کرنا چاہتا ہے، پیوٹن نے صرف ماضی کی تعمیل کی پالیسی کو ختم نہیں کیا بلکہ کریمیا کا الحاق کر لیا اور کٹھ پتلی زیلینسیکی نے روس کے خلاف امریکہ کی جنگ شروع کر دی یہ جنگ یوکرین کی جنگ نہیں بلکہ امریکی بالادستی کی جنگ ہے۔ ابھی چند ہفتے پہلے 13نومبر کو جینٹ یلین Janet Yellen امریکی وزیر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان اگر کوئی امن معاہدہ ہو بھی گیا تب بھی روس پر پابندیاں برقرار رہیں گی۔ حال ہی میں امریکہ نے جرمنی میں ایک نئے فوجی ہیڈ کوارٹر کے قیام کا اعلان کیا ہے تاکہ اپنے اس طویل المدتی منصوبے کو جاری رکھ سکے اور اسی وجہ سے 29جون کو امریکی افواج کیلئے ایک مستقل ہیڈ کوارٹر پولینڈ میں قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، جسکے بارے میں بائیڈن نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ نیٹو کے مشرقی حصے میں پہلی مستقل امریکی افواج ہوں گی ۔اس منصوبے کے تحت 9نومبر کو امیری سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے لیتھوینیا کو نصف بلین ڈالرز کا ہائی موبلٹی آرٹلری راکٹ سسٹم فروخت کرنے کی منظوری دی ہے۔سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق یہ سسٹم نیٹو کی فوجی صلاحیت کو نہ صرف بہتر بنانے میں مدد دیگا بلکہ مشرقی یورپ میں امریکہ کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے مقاصد کے حصول میں مدد دیگا۔اسی دوران امریکی محکمہ خارجہ نے فن لینڈ کو گائیڈڈ ملٹی پل لانچ راکٹ سسٹم کی فروخت کی منظوری دی ہے تاکہ یورپ کے شمالی حصے میں زمینی اور فضائی دفاعی صلاحیتوں کو تقویت ملے۔غرضیکہ مقصد روس کو ہر طرف سے گھیرنا‘ اپنی بالادستی کو قائم کرنا‘ اپنا اسلحہ‘ فوجی ٹیکنالوجی کو فروخت کرنا اور سامراجی عزائم کا حصول ہے۔یہ جنگ امریکہ کے نزدیک یوکرین اور روس سے بھی بڑی ہے۔حال ہی میں جاری ہونے والی 2022ء کی امریکی قومی دفاعی حکمت عملی میں روس کو موجودہ شدید خطرہ قرار دیا گیا ہے مگر اس حکمت عملی کا اصل مرکز و محور چین ہے اس میں واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح امریکی قومی سلامتی کیلئے سب سے سنگین چیلنج چین کی جانب سے بحر ہند و بحرالکاہل کے خطے میں بین الاقوامی نظام کو اپنے زیر اثر کرنا ہے۔ چنانچہ اگر یوکرین‘ روس کے بارے میں ہے تو روس چین کے بارے میں ہے اور اگر چین کے ساتھ روس ہے تو چین کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔دونوں سے بیک وقت نہیں لڑا جا سکتا اگر چین کو روکنا ہے تو سب سے پہلے روس کو کمزور کرنے کی ضرورت ہے اور اسی طرح چین کے دوستوں کو بھی چنانچہ پاکستان کی اندرونی سیاست کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ کون امریکہ کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے اور پاکستان کو معاشی اور اقتصادی طور پر غیر مستحکم رکھنا چاہتا ہے امریکہ کی ضرورت ہے کہ پاکستان پر اعتبار سے امریکہ اور اس کے اداروں پر دارومدار کرتا رہے اور اس کے چنگل سے باہر نہ نکل سکے چین اور روس کے ساتھ پاکستان کی قربت اور دوستی اسے کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ لی نے حال ہی میں کہا ہے کہ چین صدر پیوٹن کی قیادت میں روس کی بھرپور حمایت کرتا رہے گا lyle goldsteinجو برائون یونیورسٹی میں ویزیٹنگ پروفیسر ہیں اور How to Deffuse the Emerging us-china Conflictکے مصنف ہیں انہوں نے ایک چینی تعلیمی جریدے میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں یوکرین میں جنگ کا تجزیہ کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے امریکہ روس کے خلاف Hybridجنگ لڑنے کے لئے یوکرین کو سامنے رکھے گا۔اس جنگ کا مقصد روس کو نشانہ بنانا‘ یورپ پر قابو پانا‘ اتحادیوں کو اغوا کئے رکھنا اور چین کو دھمکی دیے رکھنا ہے چنانچہ یوکرین جنگ کا فوری ہدف تو روس ہے مگر آخری ہدف چین ہے۔ ادھر کٹھ پتلی زیلینسکی کی اور اس کا کرپٹ ٹولہ ہر لمحہ اسلحہ اور ڈالرز کا مطالبہ کرتا رہتا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ کرپشن کی یہ دولت یوکرین سے باہر منتقل ہوتی ہے اور یہ ٹولہ بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کے لئے استعمال کرتا ہے اس سال جون میں جب بائیڈن نے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے زیلینسکی کو بتایا کہ انہوں نے یوکرین کی قومی امداد کے لئے ایک ارب ڈالرز کی منظوری دی ہے تو شکریہ ادا کرنے کے بجائے شکایت کرنے لگا جس پر بائیڈن نے اونچی آواز میں ڈانٹا اور کہا کہ تم ناشکرے ہو تمہیں شکریہ ادا کرنا چاہیے اور فون بند کر دیا اور آج تک اس سے بات نہیں کی، اس کے دو ماہ بعد فریڈمین نے نیو یارک ٹائمز میں رپورٹ کیا کہ وائٹ ہائوس اور یوکرین کے صدر کے درمیان گہری بداعتمادی ہے۔ 15نومبر کو پولینڈ میں ایک میزائل گرا پہلی اطلاع یہ ملی کہ روسی میزائل نے پولینڈ کے اندر حملہ کر دیا ہے، اس سے پہلے کہ دنیا بڑی جنگ میں جھونک دی جاتی، اس بات کا احساس ہو گیا کہ راکٹ تو روسی ساخت کا تھا مگر یوکرین سے داغا گیا تھا مگر برزنسکی بضد تھا کہ راکٹ روس سے آیا ہے اور یہ Euro Atlanticپر حملہ ہے اس کا خیال تھا کہ اس طرح امریکہ اور اس کے اتحادی اور نیٹو سب مل کر جنگ میں کود پڑیں گے۔چنانچہ بائیڈن زیلنسکی پر اعتماد نہیں کرتا مگر کٹھ پتلی کی طرح نچائے رکھنا چاہتا ہے۔ادھر یورپی ممالک جو روس کی انرجی سپلائی پر انحصار کرتے تھے، اب امریکہ سے چار گنا قیمت پر گیس خریدنے پر مجبور ہیں جبکہ پیوٹن نے اعلان کر دیا ہے کہ اس طرح وہ یورپ کو de- Industrilizeکر دے گا۔یورپی ممالک پریشان ہیں امریکہ پر اعتبار نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ سے امریکہ خوب دولت کما رہا ہے جبکہ یورپ سب سے زیادہ نقصان میں ہے۔چنانچہ امریکہ یورپ یوکرین بداعتمادی کے تعلقات میں ژین پال سارتر کے ڈرامے No exiteکی طرح ہیں اس کی تفصیل میرے پچھلے ہفتے کے کالم میں پڑھی جا سکتی ہیں۔