6جنوری 2021ء کی سہ پہر‘ امریکہ کے پرامن دارالحکومت ‘ واشنگٹن ڈی سی میں ٹرمپ کے بپھرے ہوئے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بول کر جو ہنگامہ برپا کیا‘ اس سے امریکی ابھی تک شاک کی کیفیت میں ہیں۔ کیونکہ انہیں سیاسی احتجاج کے ایسے پرتشدد منظر دیکھنے کی قطعی عادت نہیں تھی۔ دوسری بات یہ کہ امریکیوں کے لاشعور میں یہ بات پختہ تھی کہ جو ہنگامہ آرائیاں‘ تشدد اور بدامنی کے منظر وہ آس پاس کے ملکوں میں دیکھتے ہیں وہ امریکہ میں کبھی نہیں ہو سکتے۔ ٹرمپ اور ٹرمپ کے حامیوں کے علاوہ سرکاری انتظامی اہلکاروں سے لے کر عام بھولے بھالے اپنی دھن میں مگن امریکی سب حیران پریشان اور ششدر ہیں کہ یہ سب کیسے ہوا؟ اور کیونکر ہوا؟امریکی اس وقت جس کیفیت میں ہیں‘ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ایک معصوم چھوٹے بچے نے‘ ٹی وی سکرین پر تشدد کے وہ منظر دیکھ لئے ہیں جن پر لکھا ہوا تھا کہ برائے مہربانی بچے نہ دیکھیں۔ اس کے برعکس میں اپنے ملک میں نظر دوڑائوں تو ماشاء اللہ ہم برس ہا برس کی سیاسی ہنگامہ آرائیوں پرتشدد احتجاجی حملوں امن و امان کو خطرے میں ڈالنے والے جلسوں اور دھرنوں سے ایسے پکے پیٹھے ہو چکے ہیں کہ ہمیں امریکیوں کو اس وقت دیکھ کر ہنسی آتی ہے کہ بڑے امریکی بنے پھرتے ہیں ایک بھرپور سیاسی ہنگامہ آرائی نہیں سہہ سکے۔ادھر پاکستان کا یہ حال ہے کہ، ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق‘ بھونچال کی سرزمین پر رہتے ہوئے ہم پاکستانی اتنے مضبوط اعصاب کے ہو چکے ہیں کہ ہم ہر بحران سے لطیفے گھڑنے لگتے ہیں۔ حالات کی سنگینی سے ہماری شگفتہ مزاجی کو مہمیز ملتی ہے۔ زیادہ دور کیا جانا‘ تازہ ترین بحران اور قوم کے شگفتہ ردعمل کو ملاحظہ فرما لیں چند روز پہلے نصف شب کے بعد پورا ملک اندھیرے میں ڈوب گیا۔ تربیلا اور منگلا بجلی گھروں میں کوئی سنگین تکنیکی مسئلہ ایسا پیدا ہوا کہ خیبر سے کراچی تک بجلی چلی گئی۔ یہ کافی حساس اور سنگین صورت حال تھی۔ بھائی لوگ ذرا دیر کو پریشان ضرور ہوئے‘ تشویش اپنی جگہ مگر شگفتگی اپنی جگہ سوشل میڈیا دیکھتے ہی دیکھتے دلچسپ جملوں اور لطیفوں سے بھر گیا۔ جسے انٹرنیٹ کی زبان میں (meme)میم کہتے ہیں امریکہ وہ ملک ہے جنہیں سماجی مسائل سے لے کر معاشی مسائل تک کوئی بھی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ ہر چیز اپنی جگہ پر موجود ہے ہر مسئلہ کھڑا ہونے سے پہلے اس کا حل موجود ہے ،ٹرمپ جائے یا بائیڈن آئے کسی شخص کے آنے اور جانے سے کم از کم ان کی ذاتی زندگیوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے سیاست اور سیاست سے جڑے ہوئے ایشو عام امریکی کا مسئلہ ہی نہیں ہیں نہ ہی انہیں اس میں کوئی دلچسپی ہے۔ ہم پاکستانی ہیں اور امریکی یاترا کے دوران چونکہ ہمارے سروں پر سیاست اور ٹرمپ سوار تھا تو ہم اکثر ٹرمپ کے حوالے سے کوئی نہ کوئی سوال امریکیوں سے پوچھ لیتے جس کے جواب میں وہ استہزائیہ مسکراہٹ سے ہماری جانب یوں دیکھتے کہ یہ کیا فضول بات پوچھ لی ہے۔ سو اس طرح کے ماحول میں اپنی زندگیاں گزارنے والے امریکیوں نے 6جنوری کی ہنگامہ آرائی کو اپنے دل پر لے لیا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کے ایک ہائی سکول میں پڑھانے والے سوشل سٹڈی کے استاد مائیکل کا کہنا ہے کہ کیپٹل ہل پر احتجاجیوں کا دھاوا بولنا‘ ہنگامہ آرائی کرنا‘ ایسا واقعہ ہے جس کی امریکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب کو بدلنا ہو گا اور استادوں کو اپنے لیسن پلان کو ازسر نو ترتیب دینا ہو گا ہمارے طالب علم اس وقت صدمے کی کیفیت میں ہیں ،ہمیں ان سے بات کرنی ہو گی اور انہیں اس سیاسی پرتشدد ہنگامے کی وجوہات اور مضمرات سے آگاہ کرنا ہو گا‘‘ اندازہ لگائیں کہ صرف ایک ایسا واقعہ امریکی استادوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ لیسن پلان(lesson plan)اور تعلیمی نصاب کو ازسرنو ترتیب دیں۔ادھر ہم ہیں کہ سیاسی عدم استحکام کے جھٹکوں اور احتجاجی مظاہروں کے پروردہ قوم ہیں۔ جس نسل سے میرا تعلق ہے وہ نوے کی دہائی، کراچی میں ایم کیو ایم کے ہاتھوں ہونے والے پرتشدد ہنگاموں کو دیکھتے ہوئے بڑی ہوئی۔ یہاں ٹرمپ پر الزام ہے کہ اس نے اپنے حامیوں کو بھڑکایا اور انہیں ہنگامہ آرائی پر بھڑکانے اور اکسانے والے ٹویٹس کئے اس کی مذمت ہو رہی ہے، بحث ہو رہی ہے ۔پاداش میں ٹرمپ کے سوشل میڈیا اکائونٹس بند کر دیے گئے ہیں، اس کے برعکس کراچی میں 90کی دہائی اور پھر اس کے بعد تک بھی یہ صورت حال رہی ہے کہ الطاف حسین کی ایک للکار پر شہر بند ہو جاتا تھا۔ شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑتے تھے،کل شہر میں ہوں گے ہنگامے تم مت آنا ،جیسی نظموں کے مصرعے اسی دور میں لکھے گئے۔ اس ایک جنبش ابرو سے‘ سڑکوں پر گولیاں چلنے لگتی۔ شہر کا شہر ایک میدان کارزار بن جاتا۔ پرچی ،بھتہ، بوری بند لاشیں کیسا کیسا ظلم ایک شخص کی للکار پر شہر کراچی پر ڈھایا گیا۔ مگر اس وقت بولنے والے چپ رہے۔ روکنے والے ہاتھ مفلوج ہو گئے۔ ظلم کے اس ماحول میں بھی میرے لوگ خواب دیکھتے رہے۔ زندگی کسی طور جیتے رہے‘پہلا ٹرمپ کے بھڑکانے پر اس کے سوشل میڈیا اکائونٹس منجمد کر دیے گئے۔ سیاست سے ہٹ کر وکیل اور ڈاکٹروں کی احتجاجی محاذ آرائی وکیلوں کا دل کے ہسپتال میں گھس کر دھاوا بولنا۔احتجاج کی وہ خوفناک قسمیں ہیں جنہیں دیکھنے اور سہنے کے ہم پاکستانی عادی ہو چکے ہیں ،ہم سخت جان بحرانوں میں سے لطیفے نکالنے والے لوگ ہیں جبکہ امریکی ایک ہنگامے پر ہی شاک کی کیفیت میں ہیں۔امریکیو! دیکھ لو ہمارا حوصلہ کہ: جہاں بھونچال بنیاد فصیل و در میں رہتے ہیں ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں