یوں تو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم اور سرکارِ مدینہ ؐ کے وسیلئہ جلیلہ کی بدولت میں قبل ازیں بھی عمرہ اور حج کی سعادت حاصل کر چکا تھا۔ مگر اپنی جوڈیشل سروس کے آخری سال دل میں شدید ترین خواہش موجزن رہی کہ باعزت ریٹائرمنٹ کے فوری بعد اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم ؐ کا شکریہ ادا کرنے کے لئے عمرہ کے سفر کا اہتمام کروں گا۔ لہٰذا ریٹائرمنٹ کے تقریباً ایک ماہ بعد بارگاہ ایزدی سے عقیدتوں کے اس سفر کا اذن ملا۔ اپنی اہلیہ کے ہمراہ لاہور سے براہ راست مدینہ شریف کی فلائٹ پکڑی۔ نماز مغرب کے لگ بھگ وقت تھا جب مسجد نبویؐ میں داخلے کا اعزاز ملا۔ سب سے پہلے حضور اقدسؐ کے روزہ پرْ انوار کے سامنے سے گزرنے کے لئے لائن میں لگ گیا۔ جوں جوں روضہ اقدسؐ کی سبز جالیاں قریب آ رہی تھیں۔ میری قلبی کیفیت بدلتی جا رہی تھی۔ قبل ازیں بھی اس جگہ پہنچنے پر کچھ ملتی جلتی کیفیت ہی ہوتی تھی۔ مگراب کے بارلْطف کچھ اور طرح کا تھا۔ تقریباً چار دہائیوں پر محیط سول جج سے سیشن جج کا سفر۔ کئی مشکلات اور بے شمار کامیابیاں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں عنایات، میرے گناہوں اور عیبوں کی مسلسل پردہ پوشی۔ میں کہ جو ایل ایل بی کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ کس طرح ایک غیبی مدد کے ذریعہ عین اس وقت جبکہ ایم-اے انگریزی کے داخلہ فارم جمع کرانے کے لئے پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس میں ایک لائن میں کھڑا تھا۔ کہ ایک دوست نمودار ہوتا ہے اور میرا ہاتھ پکڑ کر پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں داخلہ فارم جمع کروا دیتا ہے۔ پھر بغیر کسی دنیاوی طاقتوں کے سہارے اللہ تعالیٰ میری اوقات اور قابلیت سے کہی زیادہ نوازتا ہے۔ بے شمار اندرونی اور بیرونی سازشوں کا بھی کامیابی سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر ہر محاذ پر سر خروئی ملتی ہے۔ پوری سروس کے دوران یہ احساس نمایاں رہا کہ کوئی غیبی ہاتھ ہر وقت میری مدد و نصرت کیلئے موجود ہوتا ہے۔ اتنے بے شمار واقعات ہیں۔ کہ ایک الگ کالم انکی تفصیل کا متقاضی ہے۔ لہذا اْس ربِ کائنات کا شکر ادا کرنا ہی حاصّل زندگی ہے۔ تو اس بیک گراؤنڈ میں روضہ رسول ؐ پر حاضری کچھ اور طرح کا منظر پیش کر رہی ہے۔ کسی مبالغہ آرائی کے بغیر عرض کر رہاہوں۔ کہ کا نپتے ہاتھوں، کپکپاتے لبوں۔ پرْنم آنکھوں اور دنیا و مافیا سے بے خبر عِجز و احسان میں ڈوبے دل کے ساتھ یہ حاضری کمال کی حاضری ہے۔ اپنے سارے گناہ اپنی ساری لغزشیں، اور ساری کوتاہیاں یاد آ رہی ہیں۔ آنکھوں میں آنسوؤں کی برسات ہے۔ جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ یارسول اللہ آپکا ایک گناہ گار اْمتی آپکے در اقدسؐ پر کھڑا نہایت عاجزانہ سلام پیش کر رہا ہے۔ اسے اسکی تمام لغزشوں اور کوتاہیوں کے باوجود قبول فرما لیں۔ بے شمار دعائیں جن میں والدین،، عزیزو اقارب اور دوست و احباب کے لئے اور پھر سب سے بڑھکر اپنے وطن عزیز اور مسلم امّہ کے لئے خصوصاً مسلمانوں کی سیاسی، اقتصادی اور دفاعی قوتوں میں اضافہ کیلئے مانگی جاتی ہیں۔ کشمیر اور ہندوستان کے مسلمان کس طرح فراموش ہو سکتے ہیں۔ دیر تک روزہ رسولؐ کے سامنے ایک ستون کے ساتھ لگ کر کھڑا رہتا ہوں۔ مگر سیکورٹی والے وہاں اسطرح زیادہ دیر کھڑا رہنے میں بھی حائل ہیں۔ پھر نماز سے فراغت کے بعد روضہ رسول ؐ کے قریب سب سے مقدس اور اہم جگہ ریاض الجنہ میں نوافل ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر وہاں رش اس قدر زیادہ ہے کہ ایسا ممکن نہ ہے۔اگلے دو روز میں یہ کوشش کامیاب ہو جاتی ہے۔ وہاں ہر کوئی نوافل ادا کرنا چاہتا ہے۔ جتنے لوگ بیٹھے ہیں۔ ان سے زیادہ اوپر کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ کہ یہاں جگہ محدود اور جذبے لا محدود ہیں۔عشق و مستی اور جزب و کیف کی حالت دیدنی ہے لوگ نمناک آنکھوں سے دعائیں مانگ رہے ہیں۔سیدہّ فاطمہ زاہرہ علیہا سلام کے حجرہ کے سامنے چبوترہ پر بھی رش کی ایسی کیفیت ہے۔درودو سلام، ذکر اذکار لوگ بڑے دھیمے انداز میں کرتے ہیں۔یہاں دل کی زبان سے بات ہوتی ہے۔ میری طرح کے ہزاروں زائرین اپنی اپنی دعائیں، حاجات، آنسوؤں کی زبان سے مانگ رہے ہیں۔ آقا کریم ؐ کے وسیلئہ جلیلہ سے خدائے بزرگ و برتر سے مانگا جا رہا ہے۔ بڑا دلکش روح پرور نظارہ ہے جو صرف مسجد نبوی میں بیٹھ کر ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مانگنے والے ہر رنگ و نسل کے ہیں۔ زائر یہ سوچ رہا ہے۔ کہ دنیا بھر کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی یک جہتی، ایمان اور استحکام کے مرکز و محور خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ ہی تو ہیں۔جہاں لوگ کْشاں کْشاں کھچے چلے آتے ہیں۔ کیا عشق وسر مستی ہے۔ کیا جوش و ولولہ ہے۔ کہ جو چودہ سو سال گزرنے کے باوجود دن بدن بڑھ رہا ہے۔ وہ کیا کشش اور محبت و عقیدت ہے کہ گناہگار سے گناہگار مسلمان بھی اپنے نبی آخرالزمان ? کی حرمت پر کٹ مرنے کو تیار ہے۔ اسکے برعکس مکہ میں خانہ کعبہ کے سامنے مسجد احرام میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کا ترانہ پورے جوش وخروش سے نغمہ زن ہے۔ اور یہاں بیٹھ کر واقعی جلال وجمال کا فرق پوری تابناکی سے واضح ہوتا ہے۔ حرم شریف اور مسجد نبوی میں یوں تو ہر ملک کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ مگر پاکستان اور انڈونیشیا سر فہرست ہیں۔ ہوٹل کی لفٹ میں ایک انڈونیشی بزرگ مسلمان ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں جب مجھے پوچھتا ہے کہ کشمیر کے مسلمانوں کا کیا حال ہے۔ تو میں لاجواب ہو جاتا ہوں۔ کہ ہم تو شاید کشمیر پر قومی تعطیل کرکے ہاتھوں کی زنجیر بنا نیکے علاوہ عملی طور پر کشمیر اور کشمیریوں کو فراموش کر چکے ہیں۔مگر انڈونیشی مسلمان انہیں یاد رکھے ہوئے ہیں۔ اب مدینہ منورہ سے وقت وداع ہے۔ میرے لئے یہ کیفیت صفحہ قرطاس پر الفاظ کے جامہ میں پرونا شاید اتنا آسان نہیں۔