بھارت کی مشرقی ریاست بہار میں 2015کے اسمبلی انتخابات کی کوریج کے دوران، میں دربھنگہ ضلع سے نیپال کی سرحد سے ملحق علاقہ مدھوبنی کی طرف رواں تھا کہ راستے میں ایک پولیس ناکہ پر گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا۔ انتخابات کی مہم کے دوران الیکشن کمیشن کی ہدایت پر باہر کی گاڑیوں کی خاص طور پر چیکنگ ہوتی ہے تاکہ ووٹروں کو لبھانے یا انکو رشوت دینے کیلئے کیش اور شراب کی ترسیل کو روکا جاسکے۔ پولیس والے جب تک گاڑی کی تلاشی لے رہے تھے، میں سڑک کنارے ایک ڈابھا کی طرف چل پڑا اور چائے کا آرڈر دیا۔ چند لمحوں کے بعد پولیس سب انسپکٹر ، جو نیم پلیٹ سے مسلمان معلوم ہوتا تھا، میرے پاس آیا۔ شاید ڈرائیور نے اسکو بتایا تھا کہ گاڑی میں دہلی میں کام کرنے والا صحافی سوار ہے۔ صوبوں اور ملک کے نواح میں دہلی والے صحافی کوبڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، شاید اسلئے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ دہلی میں کام کرنے کی وجہ سے وہ پاور اسٹرکچر کے قریب ہوتا ہے۔ مرکزی دارلحکومت میں چاہے کوئی پوچھتا ہی نہ ہو، مگر دہلی والے صحافی کی چھاپ نواح میں خاصی رعب دار ہوتی ہے۔ میرے پاس آتے ہی سب انسپکٹر نے پوچھا کہ کیا دہلی میں ایسی کوئی بات ہو رہی ہے کہ انتخابات کے بعد مسلمانوں کو بھارت چھوڑ کر پاکستان جانا ہوگا؟ سوال پر میں چکرا گیا۔ میں نے پوچھا کہ ایسا وہ کیوں سمجھتا ہے اور کس نے یہ افواہ پھیلائی ہے؟ پولیس کے ایک فرد کی حیثیت سے اسکو فوراً ہی اس افواہ باز کو گرفتار کرکے نشانہ عبرت بنانا چاہئے۔ اس نے جواب دیا ’’کہ وہ پاس کے ملاحوں کے گاوٗ ں میں بسے چند آسودہ حال مسلم گھرانوں کے محلہ میں رہتا ہے۔ اس نے حال ہی میں ایک تین منزلہ مکان تعمیر کیا ہے۔ چند روز سے گائوں کا نمبردار مسلسل گھر آکربتا رہا ہے کہ اپنا مکان جلد فروخت کرو، انتخابا ت کے بعد کوئی دام نہیں دیگا۔ کیونکہ ان کو بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جلد ہی پاکستان بھگایا جائیگا۔‘‘ میں نے پوچھا کہ گاوٗں کتنا دور ہے؟ مجھے اب ایک بڑی اسٹوری کی بو آرہی تھی۔ معلوم ہوا کہ گائوں قومی شاہراہ سے ہٹ کر چند میل کے فاصلے ہے۔ میں اسکی معیت میں گائو ں کی طرف روانہ ہوا۔ نمبردار نے بتایا کہ ایک ہفتہ قبل انکو سمستی پور شہر میں بلایا گیا تھا، جہاں پٹنہ سے ایک لیڈر تشریف لائے تھے، انہوں نے ایک بند کمرے کی میٹنگ میں نمبرداروں کو بتایا کہ انتخابات کے بعد جب بھارتیہ جنتا پارٹی صوبہ میں اقتدار میں آئے گی تو مسلمان پاکستان جائیں گے اور ان کی جائیدادیں گائوں والوں میں بانٹی جائیں گی۔نمبردار اب اپنے طور پر ان مسلم گھرانوں کے ساتھ احسان کرکے یہ یقینی بنانا رہا تھا کہ ان کی جائیداد انتخابات سے پہلے فروخت ہو تاکہ پاکستان جانے سے قبل انکو واجب دام مل سکیں۔میں نے چند لمحوں کیلئے اپنا صحافت کا چوغہ اتار کر گائو ں والوں کو بھارتی آئین، اور اسمیں اقلیتوں کو دئے گئے حقوق، بھائی چارہ وغیرہ پر سیر حاصل لیکچر دیا۔ اور یہ بھی بتایا کہ دہلی میں اسطرح کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے، بس کوئی ان کو ورغلا کر اپنا سیاسی الو سیدھا کر رہا ہے۔ ان کو یہ بھی بتایا کہ 1947میں جن لوگوں کو پاکستان اور بنگلہ دیش جانا تھا وہ چلے گئے اور اب جو مسلمان یہاں ہیں و ہ تو بھارتی شہری ہیں اور ان کو ملک سے باہر نکالنے کا کوئی سوال ہی پید ا نہیں ہوسکتا، وغیرہ وغیرہ۔۔ مجھے شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ محض چار سال بعد اتر پردیش کے مظفر نگر قصبہ میں 72سالہ حاجی حامد حسین کو پولیس کی لاٹھیوں اور بندوقوں کے بٹ کے وار سہتے ہوئے یہ سنناپڑے کہ پاکستان ورنہ قبرستان جائو۔ کلکتہ کے ڈیلی ٹیلیگراف کے مطابق حاجی صاحب قصبہ کی ایک معتبر شخصیت ہیں اور ان کی وجہ سے ہی علاقہ میں ایک روز قبل متنازعہ شہریت قانون کے خلاف ہونے والا مظاہر ہ پر امن طور پر ختم ہو گیا تھا۔ ان کے گھر کا فرنیچر، باتھ روم ، کچن اور عنقریب بچو ںکی شادی کیلئے خریدا ہو ا سامان ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر تھا۔ اسی طرح میرٹھ شہر میں سینئر پولیس آفیسر اکھلیش سنگھ نے مظاہر ہ کرنے والے مسلمانوں کو بتایا کہ پاکستان چلے جائو۔ اتر پردیش کے متعدد شہروں سے آنے والی خبریں نہایت ہی پریشان کن ہیں ۔ان خبروں میں پولیس تشدد کی جو تصویر سامنے آئی ہے وہ انتہائی متعصبانہ اور خوفناک ہے۔صوبہ میں 23افراد کی جانیں چلی گئیں۔ پچھلے ایک ہفتہ سے انتظامیہ مسلمانوں کو نوٹس ایشو کر رہی ہے کہ احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو پہنچے نقصان کی بھر پائی کریں۔ صوبہ کے متعصب وزیر اعلیٰ تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ وہ مظاہرین سے بدلہ لیں گے۔ عہد رفتہ کے نوابوں کے شہر رام پور شہر میں پتنگ بنانے والے محمد عابد دن بھر گھرپر ہی اپنے کارخانہ میں کام میں مصروف تھے۔ شام کو گھر سے نکلتے ہی ان کو گرفتار کیا گیا۔ ان کو پتہ بھی نہیں تھا ، کہ دن بھر شہر میں کیا ہو رہا تھا۔ اگلے دن ان کے گھر پرنوٹس آیا کہ پولیس کی لاٹھی، ڈنڈے اور ہلمٹ کو جو نقصا ن پہنچا ہے اس کیلئے خزانہ میں 14ہزار روپے جمع کروائیں۔ سو روپے سے بھی کم یومیہ کمانیوالے اور وہ بھی جب کمانے والا ہی جیل میں ہو، 14ہزار روپے کہاں سے لائینگے۔ اسی طرح 36سالہ یومیہ مزدور اسلام الدین 21دسمبر کو اپنے گھر کے باہر دوستوں کے ہمراہ الاو جلا کر گرمی تاپ رہا تھا کہ پولیس نے آکر ان کو گرفتار کیا۔ ان کو بتایا گیا ہے کہ شہر میں پولیس کی گاڑیوں اور بسوں کی جو توڑ پھوڑ ہوئی ہے اسکی بھر پائی کریں۔ ورنہ ان کی جائیداد ضبط کرکے نیلام کی جائیگی۔ سکرول انڈیا کے مطابق نہٹور کے نیزا سرائے علاقہ کے 55 سالہ رفیق احمدنے پولیس کے کہنے پر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے عوام سے امن برقرار رکھنے اور گھر جانے کی اپیل کی۔ لوگ گھر جانے لگے۔ رفیق احمد نے دیکھا کہ بہت سے مشکوک لوگ سادہ لباس میں کھڑے ہیں۔ جب وہ واپس جانے لگے تو انہوں نے آنسو گیس کے گولے کی آواز سنی اور لاٹھیاں ان کے سر سے ٹکرانی شروع ہو گئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی پتھر نہیں پھینکا گیا تھا، اس کے باوجود پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ کیرانہ سے کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ سعید الزماں صدیقی کے بیٹے نے بتایا کہ پولیس نے ان کی چار کاریں نذر آتش کر دیں۔ ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی ہندی کے سوربھ شکلا کا کہنا ہے کہ مظفر نگر میں پولیس نے توڑ پھوڑ کرنے سے قبل سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیئے۔ بہت ساری ویڈیوز ایسی بھی منظر عام پر آ رہی ہیں جن میں لوگ پر سکون انداز میں چل رہے ہیں اور پولیس اچانک پیچھے سے لاٹھی چارج کرنے لگتی ہے۔ کہیں لوگ سڑک کے کنارے کھڑے ہیں پولیس انہیں پکڑ کر زدوکوب کررہی ہے۔ دو پولیس اہلکار ایک شخص کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں، دو لاٹھیوں سے پیٹ رہے ہیں۔پولیس کی اس طرح کی بربریت کی ویڈیوز واٹس ایپ میں کافی گشت کر رہی ہیں، جنہوں نے خوف و ہراس پھیلا دیا ہے ۔ لکھنؤ میں جن لوگوں کی گرفتاری ہوئی ہے ان میں دیپک کبیر بھی شامل ہیں جوکہ تھیئٹر کے اداکار ہیں۔ جب وہ اپنے دوستوں کے بارے میں پتہ کرنے کے لئے تھانے گئے تو انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر قتل اور فساد بھڑکانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔سابق سینئر پولیس افسر ایس، آر، داراپوری اور 76 سالہ انسانی حقوق کارکن محمد شعیب کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ کانگرسی رہنمااور فلمی اداکارہ صدف جعفرکو بھی پتھر بازی کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ، لکھنؤ ایسٹ نے کہا ہے کہ ’’ہم نے انہیں فساد کرتے ہوئے موقع سے گرفتار کیا ہے ‘‘ لکھنؤ میں انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ کے صحافی عمر راشد کو پولیس نے ایک ریسٹورنٹ سے حراست میں لیا۔ دو گھنٹے تک حراست میں رکھ کر ان کے مذہب کو لے کر تبصرے کیے گئے۔ نئے شہریت قانون کے خلاف مسلمانوں کے علاوہ شمال مشرق کے سبھی صوبے سراپا احتجا ج ہیں۔ وہاں کئی جگہوں پر حکمران بی جے پی کے دفاتر اور لیڈروں کے گھر بھی جلائے گئے مگر سزا صرف مسلمانوں کو ہی دی جاری ہے۔ چند سال قبل دہلی کے متصل ہریانہ میںنوکریوں میں کوٹہ کو لیکر جاٹ فرقہ نے ریلوے اسٹیشن، شاپنگ مال، پولیس اسٹیشن اور ایک وزیر کے گھر تک کو آگ کے حوالے کیا۔ مگر کس کی ہمت کہ ان کو گرفتار کرے یا پیلٹ گن سے ہی ہجوم کو منشر کرے یا ان سے معاوضہ طلب کرے۔