یوں لگتا ہے ہم پاکستانیوں کے لئے زندگی ہمیشہ مشکلات میں گھری رہے گی۔تازہ واردات یورپی پارلیمنٹ نے ڈالی ہے۔ یورپی پارلیمنٹ نے قرار داد منظور کی ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام لوگوں کو انصاف نہیں دے سکتا خصوصاً توہین رسالتؐ کے معاملات پر ناکافی شہادتوں پر سخت سزائیں یورپی پارلیمنٹ کے غصے کی وجہ بنی ہیں۔ قرار داد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ چند برس پہلے توہین آمیز پیغامات بھیجنے والے شفقت عمانوئیل اور شگفتہ کوثر کی سزائے موت ختم کی جائیں۔ یورپی پارلیمنٹ کی 3کے مقابلے میں 663ووٹوں سے منظور کی گئی قرار داد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان توہین رسالت کے قوانین کو تبدیل کرے ورنہ اس سے جی ایس پی پلس سمیت تجارتی تعلقات ختم کر دیے جائیں گے۔ آپ جانتے ہیں افغانستان ایسا بے اماں‘ بنجر‘ بدحال ،تباہ شدہ اور مفلوک الحال کیوں ہے؟ اس لئے کہ وہاں کے لوگ صرف لڑنا بھڑنا جانتے ہیں پرامن سماجی زندگی کی شکل سے واقف نہیں۔وہ اپنا موقف صرف ہتھیار اور لڑائی سے بیان کرتے ہیں ۔جب سماج مکالمہ کی قوت سے محروم ہو جائے یا اسے کمزوری ،بزدلی اور بے دینی سے عبارت کیا جانے لگے تو صرف جھگڑا ہوتا ہے ۔ لڑنے والا ضروری نہیں غیرت مند ہو‘ لڑائی اکثر احمق ہی کرتے ہیں۔ پاکستان کو جی ایس پی سٹیٹس کے فوائد2014ء میں ملنے شروع ہوئے ‘یہ رعایت حاصل کرنے کا سہرہ موجودہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے سر بندھتا ہے۔ انہوں نے خلوص دل سے یورپی اراکین کو آمادہ کیا کہ پاکستان کو ٹیکسٹائل سمیت اپنی مصنوعات یورپی ممالک میں لانے کی اجازت دی جائے۔سفارت خانوں میں موجود کمرشل اتاشی سفارش کی بنیاد پر تعینات ہوتے اور صرف حکمران خاندانوں کے کاروبار کی دیکھ بھال کرتے تھے اس لئے کسی فرد واحد کی یہ کوشش قابل تکریم تھی۔وزارت تجارت کے مطابق 2014 میں جی ایس پی پلس کے آغاز سے ہی یورپی یونین میں پاکستانی برآمدات میں 65 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا جبکہ یورپی یونین سے درآمدات میں 44 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ میاں نواز شریف نے اس خدمت کے اعتراف میں چودھری سرور کو پنجاب کا گورنر تعینات کیا۔ چودھری سرور، سیکرٹری خارجہ اور سیکرٹری کامرس جانتے تھے کہ جی ایس پی سٹیٹس غیر مشروط نہیں ملا۔ پاکستان سے کہا گیا کہ وہ مزدور حقوق کے تحفظ‘انصاف کے نظام کو بہتر بنانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات کو ختم کرنے کے لئے قانون سازی کرے اور ان قوانین پر عملدرآمد کرائے ۔ یورپ کو ڈیوٹی فری برآمدات کا موقع ہم نے ایک دوسرے سے لڑتے گزار لیا۔روتے دھوتے اب پاکستان یورپی منڈیوں میں کم و بیش آٹھ ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کرتا ہے جبکہ وہاں سے درآمدی بل پانچ ارب ڈالر کا ہے۔ دنیا کے بہت کم ممالک ہیں جن کے ساتھ ہمارا تجارتی حجم مثبت رہتا ہے اور ہمیں وہاں خسارہ نہیں ہوتا۔ ان میں ایک امریکہ اور دوسرا یورپ ہے۔ ہمارا یورپ کے ساتھ کم و بیش تین ارب ڈالر کی تجارت سرپلس ہے۔ پاکستان کی برآمدات کے رستے میں سیاسی عدم استحکام آ کھڑا ہوا۔ ہم نے ایسے 27کنونشنز پر عمل کا وعدہ کر رکھا ہے۔ جن میں سے ایک کا تعلق انسانی حقوق کے اس حصے سے ہے جو توہین رسالت کے واقعات‘ ان واقعات کی تفتیش‘ عدالتی کارروائی اور سزائوں سے متعلق ہے۔ جو لوگ ان معاہدوں پر دستخط کر کے آئے تھے وہ جانتے تھے کہ یورپی یونین ہم سے کیا مانگ رہی ہے۔ لوگوں کو صرف جی ایس پی سٹیٹس کے بدلے آنے والے ڈالروں‘روزگار میں اضافے اور ملک میں نئی سڑکیں‘ صنعتیں اور کاروبار لگنے کی نوید سنائی گئی۔ میاں نواز شریف اور پھر ان کے بعد شاہد خاقان عباسی نے مل کر پانچ سال کا دور مکمل کیا۔ تحریک انصاف کامیاب ہوئی تو چودھری سرور ایک بار پھر گورنر پنجاب مقرر ہوئے۔ یہ ممکن نہیں کہ انہوں نے جی ایس پی سٹیٹس کے ساتھ مشروط معاہدوں سے حکومت کو آگاہ نہ کیا ہو۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ یورپ میں طویل عرصہ رہنے کی وجہ سے چودھری سرور کی بعض اہم معاملات پر حساسیت اس درجے کی نہ ہو جو دوسرے پاکستانی مسلمان محسوس کرتے ہیں۔ ہم نے معاہدوں پر عمل کرنے کی مہلت میں جائزہ تک نہیں لیا کہ ان معاہدوں میں ہم سے کیا کچھ کرنے کو کہا گیا‘ فرض کیا توہین رسالت قوانین میں سزائے موت کے خاتمہ یا پھر ثبوت کے متعلق اگر یورپی یونین کا موقف ہم سے مختلف ہے تو ہم نے انہیں اپنا موقف سمجھانے کی کون سی کوشش کی۔ ڈھائی برس ہونے کو آئے جب وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس سے خطاب کیا۔ اس خطاب کو تین حوالوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیاں بیان کرنے‘ کشمیر کا معاملہ انسانی المیہ کے طور پر پیش کرنے اور رسول کریمؐ کی شان میں توہین کے واقعات پر مغربی دنیا سے مکالمہ پر زور دینے کی وجہ سے۔ پاکستان نے ترکی اور ملائشیا کے سوا کسی سے بات نہیں کی۔ ان کی حمایت ملنے کے بعد مغرب سے مکالمے کا کوئی ایک واقعہ‘ کوئی ایک کوشش نہیں ہوئی۔ جی ایس پی سٹیٹس ختم ہونے سے ہم مر نہیں جائیں گے‘ یورپ ہمارا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے‘تجارتی تعلقات ختم ہوئے تو 80فیصد صنعتیں بند ہو سکتی ہیں۔ ہم پھر بھی زندہ رہیں گے‘ لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے‘ سانس پھر بھی جاری رہے گی۔ ہم عشق رسولؐ کے نعرے لگا کر اپنے لوگوں کو بہلاتے رہیں گے کیونکہ نعرے لگانا سب سے آسان کام ہے‘لوگوں کو خوش اور پرجوش رکھنے کے لئے بنا ہاتھ پائوں ہلائے اگر مقصد حاصل ہو جائے تو کون بین الاقوامی قانون کو کھنگالے‘ لائق لوگوں کو ڈھونڈے ‘ مغرب کے سامنے بیٹھ کر سمجھائے کہ کاروباری رعائتیں توہین رسالت قوانین، دینی شعائر کے ساتھ مشروط کرنا جبراً مذہب تبدیل کرنے جیسا ہے۔ ہم یورپ کی اقدار کا احترام کرتے ہیں لیکن ہمیں مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔