میاں نواز شریف کی حب الوطنی پر مجھے شک نہیں۔ مسلم لیگی رہنمائوں کے خلاف لاہور میں غداری کے مقدمے کا اندراج بھی سیاسی بد ذوقی ہے، دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 6کے تحت غداری کا مقدمہ درج کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وہی کسی شخص یا گروہ کے خلاف خصوصی عدالت تشکیل دے سکتی ہے۔ انفرادی حیثیت میں کسی عام شہری کی طرف سے ایف آئی آر کا اندراج اپوزیشن کو مشتعل کر سکتا ہے، مایوس و بددل نہیں کہ پاکستان میں درج ہونے والے ایسے مقدمات عموماً دن کی روشنی نہیں دیکھ پاتے، رات کی بات ثابت ہوتے ہیں ؎ رات کی بات کا مذکور ہی کیا چھوڑئیے رات گئی بات گئی لیکن مریم نواز شریف اور ان کے ہمنوا سیاستدانوں اور صحافیوں کی یہ منطق قابل فہم ہے نہ قابل قبول کہ ان کے لیے غداری الزام نہیں، انعام ہے دشنام نہیں تمغہ سعادت ہے۔ پاکستان ایک سیاسی گروہ کی غداری کے سبب 1971ء میں دو لخت ہو چکا، یہ غداری کے الزام کو سیاسی مصلحتوں کی بنا پر مسترد کرنے اور پاکستان کے جید سیاستدانوں کی طرف سے محض فیلڈ مارشل ایوب خان کے ساتھ بغض و عناد کی بنا پر اگرتلہ سازش کیس کو بالائے طاق رکھ کر غدار وطن شیخ مجیب الرحمن کی رہائی‘ ہیرو بنانے کا منطقی نتیجہ تھا جو قائد اعظمؒ کے پاکستان نے بھگتا مگر ہماری سیاسی اشرافیہ اور ارباب صحافت نے سانحہ سے سبق سیکھا نہ آئندہ غدار پیدا کرنے کی فیکٹری بند کی اور اس کا فائدہ کبھی الطاف حسین اور اس کی ذرّیت نے اٹھایا، کبھی بلوچستان کے باغیوں حیر بیار مری، براہمداغ بگٹی اور ڈاکٹر اللہ نذر نے شیخ مجیب الرحمن کی مکتی باہنی کی طرز پر بی ایل اے، بی آر اے اور بی ایل ایف جیسی دہشت گرد تنظیمیں تشکیل دیں اور کبھی تحریک طالبان پاکستان اور پشتون تحفظ موومنٹ نے عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کیا۔ ٹارگٹ ہر بار ریاست اور اس کے جغرافیائی وجود کے پاسبان اداروں کو بنایا گیا اور رونا احساس محرومی کا رویا گیا، فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور شہری حقوق کی عدم دستیابی شیخ مجیب الرحمن کا ایجنڈا تھا‘ بلوچستان اور سابق فاٹا کے عسکریت پسندوں کا نعرہ ہے اور کراچی کے ڈان کی تقریروں کا مرکزی نقطہ رہا۔یہ کہنا پرلے درجے کی سادگی یا کمال کی عیاری و مکاری ہے کہ ماضی میں غداری کے فتوئوں سے ریاست کمزور ہوئی اور یہ مہم سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے چلائی گئی۔یہ غلط بیانی بھی شدومد سے جاری ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے قائد اعظم کی قابل احترام ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا۔ ایوب خان نے یہ سوال تو ضرور اٹھایا تھا کہ محترمہ پاکستان کے ازلی دشمنوں خانوادہ خان عبدالغفار خان اور شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ کیوں بیٹھی ہیں لیکن یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ خدانخواستہ غدار ہیں۔ خان عبدالغفار خان وہ ذات شریف ہیں جس نے پاکستان کو کبھی تسلیم کیا نہ آخری عمر میں یہاں رہنا گوارا کیا‘ سوویت یونین کے مقبوضہ افغانستان میں ان کی زندگی کے آخری ایام گزرے اور اپنی وصیت کے مطابق پاکستان کے بجائے افغانستان میں دفن ہوئے‘ بھارت کے دورے پر گئے تو لاکھوں روپے (آج کے کروڑوں روپے) نذرانے کے طور پر وصول کئے‘غفار خان کی بھارت یاترا کے بعد پاکستان میں عبدالولی خان کی جماعت نے بم دھماکوں کا آغاز کیا اور سپریم کورٹ سے کالعدم قرار پائی‘ ذوالفقار علی بھٹو نے عبدالغفار خان اور عبدالولی خان کو کبھی محب وطن تسلیم نہیں کیا جبکہ جمعہ خان صوفی کی کتاب ’’فریب ناتمام‘‘ میں ان کے بھارت سے خفیہ رابطوں اور رقوم کی وصولی کی تفصیلات درج ہیں جنہیں آج تک کوئی جھٹلا نہیں پایا۔ شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان سے رہائی کے بعد متعدد بار یہ فخریہ اعتراف کیا کہ وہ 1962ء سے پاکستان کی شکست و ریخت اور بنگلہ دیش کے قیام کے بھارتی منصوبے پر کام کر رہا تھا۔اگرتلہ سازش کیس میں شیخ مجیب کے شریک جرم روح القدس کے بھتیجے موسیٰ صادق نے ایک انٹرویو میں شیخ مجیب الرحمن کے ایلچی کے طور پر روح القدس کی بھارت یاترا‘ ’’را‘‘ سے رابطوں اور اندرا گاندھی کے ساتھ نامہ و پیام کی تفصیل بیان کی جس میں روح القدس نے بتایا کہ پہلے جواہر لال نہرو اور پھر اندرا گاندھی کو شیخ مجیب الرحمن نے اپنی خدمات پیش کیں اور اشیر باد ملنے پر علیحدگی کے منصوبے پر کام شروع کیا جو 1971ء میں بھارت کی فوجی مداخلت پر پایہ تکمیل کو پہنچا۔ سبق مگر ہم نے یہ لیا کہ غداری اور بغاوت کے لفظ کو مذاق بنا دیا اور نوبت بانیجارسید کہ اب غداری کے الزام پر فخر کیا جا رہا ہے۔کسی مہذب اور محب وطن انسان کے لئے غداری اور بغاوت کا الزام انتہائی توہین آمیز‘ باعث تذلیل اور عزت نفس کے منافی ہے ڈوب مرنے کا متقاضی۔ ایمان کے بعد وفاداری ایسا لفظ ہے جس کے لئے انسان سردھڑ کی بازی لگاتا ہے‘ پاکستان میں مگر لوٹ مار کے رسیاسیاستدانوں اور کوڑھ مغزابلاغی ماہرین کے نزدیک وطن سے بے وفائی‘ قوم سے غداری کا الزام اعزاز ہے‘ انعام ہے‘ تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو۔ عریانی و فحاشی کی طرح بغاوت و غداری جیسے مکروہ‘ گھٹیا اور ملک دشمن افعال و اعمال کو بھی معاشرے کے لئے قابل قبول بنانے کی خاطر عرصہ دراز سے شعوری کوششیں جاری ہیں اور اہل سیاست کے علاوہ ان کے قلمی کارندے اس ننگ ملت‘ ننگ دیس ‘ ننگ وطن منصوبے کو آگے بڑھا رہے ہیں جس کا مقصد قومی حساسیت کا خاتمہ ہے۔ساٹھ کے عشرے میں سیاستدانوں نے شیخ مجیب الرحمن کو رہائی دلا کر بنگالی قوم کا ہیرو بنایا اور نتیجہ ملک و قوم نے بھگتا‘ میاں نواز شریف کی نیت پر شک نہیں مگر انہوں نے بھی ایک سے ایک بڑھ کر بھارتی گماشتے کو سینے سے لگا کر پشتوں و بلوچ قوم پرستی کی تحریک کو ایندھن فراہم کیا آج وہ ملک سے باہر بیٹھ کر وہی زبان استعمال کر رہے ہیں جو ماضی میں مجیب ‘ غفار‘ الطاف اور دیگرپاکستان مخالف بھید کھلنے تک کرتے رہے ‘حتیٰ کہ دشمنوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور پاکستان کو کمزور کیا۔ میاں نواز شریف کے اہل خانہ اور پیرو کاروں نے ایک قدم مزید آگے بڑھ کر حب الوطنی کو باعث ننگ و عار اور غداری و بغاوت کو تمغہ سعادت بتانا شروع کر دیا ہے یہ اس پروپیگنڈہ مہم کے منحوس اثرات ہیں جو وطن عزیز میں عرصہ دراز سے جاری ہے اور جس کا مقصد حب الوطنی کے جذبے کو کمزور سے کمزور تر اور ملک و قوم سے بے وفائی کے زہر کو تریاق ثابت کرنا ہے۔ گالی شریف آدمی کے لئے تلوار کے زخم سے زیادہ تکلیف دہ عمل ہے اور ایک بازاری شخص کے لئے تفریح طبع کا عنوان‘ جبکہ مخصوص طبقے کو گالی درکنار غیر شریفانہ بازاری اعمال و افعال بھی بھاتے ہیں ‘ لبھاتے ہیں۔یہی حال حب الوطنی اور غداری کا ہے پاکستان کے ازلی دشمن کے بیانئے کی ترویج‘ملکی سلامتی کے اداروں کی تذلیل ‘اپنے حلف کی خلاف ورزی بھی اگر کسی شخص یا گروہ کے لئے باعث ندامت نہیں بلکہ قابل فخر ہے تو آدمی سر پیٹنے کے سوا کیا کر سکتا ہے یہ غداری نہ سہی سازش مجرمانہ تو ہے۔ خاص طور پر جب یہ باتیں بھی لندن میں بیٹھ کر کی جائیںلندن جو دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں کی جولا نگاہ‘ سازشوں کا گڑھ اور پاکستان کے مفادات سے بے وفائی کرنے والوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ میاں نواز شریف کی حب الوطنی پر شک نہیں مگر بسا اوقات انسان کی بے لگام خواہشات اسے دشمن کے جال میں پھنسا دیتی ہیں اور اُسے پتہ تک نہیں چلتا۔ اقتدار اور دولت کی ہوس انسان کو دشمن کا چارہ بناتی اور ذلت و رسوائی مقدر کرتی ہے۔حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔