ملتان کے آخری حکمران نواب مظفرخان نے مٹی سے ایک ’گڑھ‘ تعمیر کرایا جسے قلعہ کہا جاتا ہے جس کی اب بھی کچھ باقیات موجود ہیں۔ نواب مظفر کی وجہ سے یہ ’مظفر گڑھ‘کہلایا۔ اگرچہ یہ ضلع بعد میں بنا مگر اس علاقہ کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ ’سندھ تہذیب‘ یا انڈس ویلی کے عہد میں یہ ایک زرعی خطہ تھا۔ موریا سلطنت، یووانا راجیہ، کْشن سلطنت، گپتا سلطنت، وائٹ ہْن، ترک اور ہندو شاہی خاندانوں نے اِس خطہ ِ ارضی کو اپنی سلطنت کا حصہ بنائے رکھا جسے آج مظفر گڑھ کہا جاتا ہے۔ بعد ازاں یہ علاقہ غزنوی سلطنت، دہلی سلطنت، مغل سلطنت کا بھی حصہ رہا جبکہ کچھ صوفیاء کرام کے مزارات بھی یہاں موجود ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ علاقہ صوفیاء کرام کی فیوض و برکات سے بھی لطف اندوز ہوتا رہا۔ درحقیقت اِس علاقے کا پہلا باقاعدہ نام ملتان کے آخری گورنر نواب مظفر خان نے 1794ء میں رکھا اور یہاں قلعہ تعمیر کیا جو 1864ء میں مظفر گڑھ ضلع کا دارلحکومت بنا۔ جب یہاں موریا، گپتا اور دیگر طاقتور سلطانوں کی سلطنتیں قائم تھیں تو اِسی علاقے کو ’کالا پانی‘ کے طور پر بھی جانا جاتا تھا کیونکہ مظفر گڑھ دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے چناب کے مغرب کے درمیان واقع ایک پٹی پر قائم ہے۔ایک روایت یہ بھی عام ہے کہ سلاطین نے جن افراد کو سزا دینا ہوتی تھی اْنہیں مظفر گڑھ کے خطہ ِ ارضی بھیج دیا جاتا تھا۔ جب پاکستان معرض ِ وجود میں آیا تو یہاں آباد ہندواور سکھ آبادی بھارت کی طرف چلی گئی جبکہ بھارت سے آئے کچھ مسلمان خاندان یہاں آباد ہوئے جن میں سے کچھ آبادی قصبہ موچیوالی، بنڈہ اسحاق، روہیلانوالی، مظفر گڑھ، علی پور اور خان گڑھ میں موجود ہے۔ قیام ِ پاکستان کے بعد یہاں جس چیز میں اضافہ ہوا ہے وہ آبادی ہے۔ اس لئے مظفر گڑھ پاکستان کا انتالیسواں بڑا شہر ہے۔ زراعت کا شعبہ یہاں صدیوں سے قائم تھا بعد ازاں دیگر اجناس بشمول آم، علی پور کے انار، کپاس بھی شامل ہوگئیں تو مظفر گڑھ سرسبز و شاداب لہلاتے کھیتوں کا منظر پیش کرنے لگا۔ چونکہ یہ علاقہ دو بڑے دریاؤں کے درمیان واقع ہے اس لئے پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب ہر صورت میں اِسے اپنی تباہی میں شامل کرتے ہیں۔ 2010ء کے تباہ کن سیلاب نے مظفر گڑھ کو بھی شدید متاثر کیا تھا۔ مظفر گڑھ میں 984کلومیٹر لمبی سڑکیں جبکہ این۔70 قومی ہائی وے اِسے دیگر اضلاع بشمول راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، کراچی، لاہور اور بہاولپور سے ملاتی ہیں۔ اِس ضلع میں ریلوے لائن بھی موجود ہے جو راولپنڈی، ملتان، میانوالی اور اَٹک سے آنے والے ٹریک کے ذریعے آمدو رفت آسان بناتی ہے۔ مظفر گڑھ میں 1350میگا واٹ کے تین بجلی گھر موجود ہیں۔ شروع میں چین نے سی پیک کے ذریعے یہاں ایک تھرمل پاور پلانٹ لگانے کا منصوبہ شامل کیا تھا مگر 2017ء میں بناکوئی وجہ بتائے یہ منصوبہ کہیں اور منتقل کردیا گیا یوں یہ ضلع سی پیک سے جڑے وسائل سے محروم رہا۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق پاکستان اَٹامک انرجی کمیشن نے تین نیوکلیئر ریکٹرزلگا کر یہاں گیارہ سو میگاواٹ توانائی پیدا کرنے کے لئے مظفر گڑھ نیوکلیئر کمپلیکس لگانے کا فیصلہ بھی کیا۔مظفر گڑھ شہر کے درمیان سابق ڈپٹی کمشنر فیاض بشیر کے نام پر ایک ’فیاض پارک‘ بھی موجود ہے جو گاہے بگاہے توڑ پھوڑ اور مرمت کے مراحل طے کرتا رہتا ہے۔دروغ برگردن ِ راوی کہا جاتا ہے کہ اِس کے پیچھے بھی انتظامیہ کے کچھ خاص مالیاتی مقاصد پنہاں ہیں۔ سیاسی لحاظ سے بھی یہ ضلع مردم شنا س رہا ہے۔ سماجی خدمات کے لحاظ سے یہاں کی نامور شخصیت سردار کوڑے خان کے نام کا آج بھی ڈنکہ بجتا ہے۔سردار کوڑے خان کی سماجی خدمات میں ’کوڑے خان سکول‘ جو خالصتاََ غرباء کے بچوں کے لئے قائم کیا گیا تھا اب یہاں صرف اْمراء کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ سابق گورنر پنجاب مشتاق احمد گورمانی، سابق گورنر و وزیراعلیٰ پنجاب غلام مصطفی کھر، بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر اللہ خان، سابق وفاقی وزیر ِ خارجہ و موجودہ وفاقی وزیر ِ مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر، سابق وزیر غلام نور ربانی کھر،سابق صوبائی وزیر میاں عطاء محمد، سابق ایم این اے جمشید دستی، سابق وفاقی وزیر مواصلات انجینئر شاہد جمیل قریشی، سابق وفاقی وزیر دفاعی پیداوار سردار عبدالقیوم خان جتوئی، سابق وفاقی وزیر سردار معظم خان جتوئی، سابق وفاقی وزیر مخدوم زادہ سید باسط سلطان بخاری، سابق صوبائی وزیرمخدوم زادہ سید ہارون سلطان بخاری سمیت کئی قد آور شخصیات ضلع مظفر گڑھ سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہر لحاظ سے یہ ضلع پاکستان کے لئے لازوال خدمات کے لئے سرِ فہرست رہا ہے۔ کبھی پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اِسے ’مِنی لاڑکانہ‘ کہا گیا تو کبھی پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے نواز لیگ کا گڑھ کہا جاتا رہا ہے۔ مگر گزشتہ پچیس سال سے اِس ضلع میں کوئی قابل ِ قدر ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ یہاں کی سڑکوں کو ’قاتل روڈ ز‘ کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں ٹریفک حادثات اور اْن حادثات میں اَموات معمول کا حصہ ہیں۔ یہاں کئی دہائیوں سے صرف ایک گورنمنٹ پوسٹ گریجوائیٹ کالج ہے جسے نہ تو کسی نے یونیورسٹی کادرجہ دینا گورا کیا اور نہ ہی الگ سے یونیورسٹی بنانے کا سوچاگیا۔ مندرجہ بالا قد آور شخصیات نے ملکی سطح پر یقیناً خدمات سرانجام دیں مگراِن کی موجودگی میں علاقائی مسائل جوں کے توں رہے۔ تعمیر و ترقی اور مسائل کے لحاظ سے یہ پنجاب کا ایسا ضلع ہے جو آج بھی طاقتور سیاسی خاندانوں کے نرغے میں ہے۔ کیونکہ آج تک کسی ایک بھی وزیر نے اقتدار کے ایوانوں میں یہاں کے مسائل کو حل کرنے کی آواز نہیں اْٹھائی۔ ضلع کی ساری سیاست جماعتوں کی سیاست تھانہ اور کچہری کے گرد گھومتی ہے۔علاقائی سطح پر سیاستدان اپنے سیا سی حریفوں کے ووٹر ز پر جھوٹے مقدمات قائم کرنے اور اْن کی زندگیاں اجیرن کرنے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ یہاں تخریبی سوچ ہمیشہ سے تعمیری سوچ پر غالب ہے۔ یہاں سرداراور جاگیردار ووٹر کو نوکر اور اْن کی اولادوں کو غلام سمجھتے ہوئے اْن کے سروں پر تلوار کی مانند لٹکنے کو اپنی عزت سمجھتے ہیں۔ مسائل کا انبار دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کے شہریوں کے لئے ضلع مظفر گڑھ تاحال ’کالا پانی‘ ہی سمجھا جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایوانِ اقتدار میں مظفر گڑھ کا نام کب گونچتا ہے!