دنیا میں نشے کی جتنی قسمیں پائی جاتی ہیں، ان میں ایک نشہ سیاست کا بھی ہے۔ یہ بڑا خطرناک نشہ ہے۔ ایک بار منہ کو لگ جائے تو چھوٹتا نہیں اور چھوٹ جائے تو پھر آدمی کسی کام کا نہیں رہتا، یہاں تک کہ گمنام ہو جاتا ہے۔ گمنامی اچھی چیز نہیں جو گمنام ہوتا ہے وہ عام آدمی کہلاتا ہے۔ عام آدمی کو کوئی پوچھتا نہیں۔ سرکاری دفتروں میں جائے تو دھکے کھائے، سڑک پہ حادثے کا شکار ہو تو اخبار میں دو سطری خبر چھپ جائے۔ عام آدمی بننے سے پیدا نہ ہونا بہتر ہے۔ قدرت کسی کو محروم نہیں رکھتی۔ عام آدمی کا بول بالا الیکشن کے زمانے میں خوب ہوتا ہے۔ ہر پارٹی اس کی خوشنودی چاہتی ہے تاکہ اس سے ووٹ لے سکے۔ پارٹی لیڈر عام آدمی کو خوب سبز باغ دکھاتے ہیں۔ اس کی تقدیر بدلنے کے دعوے کرتے ہیں۔ ایسے ایسے وعدے کرتے ہیں کہ کیا کوئی عاشق اپنے محبوب سے کرتا ہوگا۔ الیکشن کے بعد عام آدمی اپنی اوقات پر واپس آ جاتا ہے۔ سیاسی لیڈر اسمبلی میں پہنچ کر عام آدمی کو بھول جاتا ہے، اپنے وعدے بھی اسے یاد نہیں رہتے۔ سیاست میں ایسا ہونا کوئی معیوب بات نہیں۔ وہ لیڈر ہی کیا جو وعدہ فراموش نہ ہو اور وہ عام آدمی ہی کیسا جو بار بار لیڈر سے ڈسا نہ جائے۔ ہمارا ملک سیاسی لیڈروں کی جنت ہے۔ یہاں بھانت بھانت کے لیڈر پائے جاتے ہیں۔ وہ روزانہ بیانات دیتے ہیں، جس روز وہ بیان نہ دیں، اگلی صبح کا اخبار بھی نہیں پڑھتے۔ ان کے خیال میں اخبار میں پڑھنے کے قابل چیز ان کا بیان ہی ہے جو نہ چھپے تو اخبار پڑھنے کے لائق نہیں رہتا۔ جب سے پرائیویٹ چینلوں کی بہار آئی ہے، اکثر سیاست دان اور وزراء حضرات شام ہوتے ہی ٹیلی وژن چینلوں پر نمودار ہو جاتے ہیں اور رات گئے تک نمودار رہتے ہیں۔ وہ چینلوں پر کچھ نہیں کرتے، باتوں اور مباحثوں کے سوا۔ انہیں کچھ اور آتا بھی نہیں، باتوں کے سوا۔ اتنی باتیں، ایسی ایسی باتیں کہ سننے والوں کے کان زخمی ہو جائیں مگر ان کی باتیں ختم نہ ہوں۔ سیاست اور شہرت کا چولی دامن کا ساتھ ہے جو سیاست دان مشہور ہوتا ہے وہ اتنا ہی بڑا سیاست دان ہوتا ہے۔ سیاست میں چھوٹے اور بڑے کا پیمانہ شہرت ہی ہے جس سیاست دان کا بیان اخبارات فرنٹ پیج پر چھاپیں وہ درجہ اول کا سیاست دان ہوتا ہے جس کا بیان سٹی پیج پر چھپے وہ مقامی سیاست دان ہوتا ہے۔ اخبارات اور چینلز کچھ نہیں کرتے سیاست دانوں کو مشہور کرنے کے سوا۔ جو سیاست دان حکومت کی مخالفت کرتا ہے اسے اپوزیشن لیڈر کہتے ہیں۔ میڈیا میں اپوزیشن لیڈروں کی بڑی آئو بھگت ہوتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ اپوزیشن لیڈر بگلا بھگت ہوتے ہیں جو اپنے بیانوں، دھمکیوں اور الٹی میٹموں سے بھگت سنگھ لگتے ہیں لیکن حکومت سے مک مکا ہو جائے تو سیاست ان کے لیے معاملہ بھگتانے کی حد تک رہ جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا بلکہ دماغ بھی نہیں ہوتا اگر کچھ ہوتا ہے تو صرف زبان ہوتی ہے جو چرخی کی طرح چلتی رہتی ہے۔ سیاست اور دولت بھی لازم و ملزوم ہیں۔ سیاست ہمارے ہاں دولت کمانے کا ذریعہ ہے۔ لیکن سیاست میں مال کمانے سے پہلے مال لگایا بھی جاتا ہے جو جتنا مال لگاتا ہے اسی حساب سے کماتا بھی ہے۔ سیاست میں مال کمانے کے کئی طریقے ہیں۔ ایک مشہور طریقہ احتجاجی سیاست کا ہے جس میں عوام کو عوامی مفاد میں سڑکوں پر لا بٹھایا جاتا ہے اور انہیں واپس گھر بھیجنے کے لیے سرکار سے خطیر رقم وصول کرلی جاتی ہے اسے انڈر ہینڈ ڈیلنگ کہتے ہیں۔ اس ڈیلنگ میں یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ جس سیاست دان کو رقم دی جا رہی ہے اس کے پاس دوہری شہریت ہے اور وہ کسی اور ملک سے اسی مقصد سے وطن عزیز میں در آتا ہے۔ ایک اور طریقہ سیاست میں مال کمانے کا یہ ہے کہ سیاست دان حکومت کا حصہ بن جائے اور پھر اپنے نام پر ترقیاتی فنڈ الاٹ کرالے یا اپنے اثرورسوخ کو استعمال کر کے بینکوں سے تجارت کے نام پہ قرضے حاصل کرلے اور بعد میں خسارہ ظاہر کر کے قرضے معاف کرالے۔ سیاست میں مال کمانے کے اور بھی طریقے ہیں جو ہمیں معلوم نہیں۔ معلوم ہوتا تو ہم خود سیاست میں نہ آ جاتے۔ سنا ہے سیاست میں تاثر دینے کی بڑی اہمیت ہے۔ مثلاً لیڈر کا یہ تاثر دینا کہ وہ عوام کا سچا بہی خواہ ہے۔ عوام کی بہبودی کے لیے اسے جان بھی دینی پڑے تو وہ اس سے دریغ نہ کرے گا۔ عوام لیڈروں کے دیئے گئے تاثر کو سچ جانتے ہیں اور لیڈر کے دیوانے ہو جاتے ہیں لیکن جو سیانے ہیں وہ جانتے ہیں کہ لیڈر اپنے مفاد میں کسی کی جان لینی پڑ جائے تو وہ یہ بھی کر گزرتا ہے۔ ہمارے ملک میں بڑے بڑے لیڈر آئے اور آ کر چلے گئے۔ کہاں گئے؟ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ان میں سے کوئی فخر ایشیا تھا کوئی عالم اسلام کا قائد تھا اور کوئی صرف وہ محض قائد۔ لیکن ان قائدین کا حشر کچھ اچھا نہیں ہوا۔ عبرت پکڑنے والے کہتے ہیں کہ قدرت نے انہیں ان کے انجام تک پہنچایا۔ کیونکہ عوام نے پہنچایا ہوتا تو وہ آج بھی ان کے نام پر ووٹ نہ دیتے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ سیاست ڈھلتی ہوئی چھائوں ہے۔ دھوپ چھائوں کا یہ کھیل ہر ایک کو راس نہیں آتا جو اس کھیل میں پڑتا ہے وہ کبھی نہ کبھی منہ کے بل ضرور گرتا ہے۔ جنہیں حکومت کی کرسی مل جاتی ہے، ان سے بھی یہ کرسی ایک نہ ایک دن ضرور چھن کر رہتی ہے۔ کرسی سے محروم ہو کر لیڈر کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے جو غیرت مند ہوتے ہیں وہ گوشہ عافیت میں دن گزارتے ہیں اور جن میں اسی کا فقدان ہوتا ہے وہ پھر کرسی کی لالچ میں سیاست کے پھیر میں پڑے رہتے ہیں، اپنے نام کے نعرے لگواتے ہیں اور پرانی بوتل میں نئی شراب، وعدوں کی نئی شراب پیش کرتے ہیں۔ سیاست میں چونکہ صاحب کردار ہونا مہلک ہوتا ہے اس لیے ہمارے ہاں سیاست میں وہی لوگ پڑتے ہیں جو سیرت و کردار کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ہاں سیاست میں صاحب کردار سیاست دان نہیں پائے جاتے۔ صاحب کردار سیاست دان کی پہچان بہت آسان ہے۔ جس کو سب سے کم ووٹ پڑیں، سمجھ لینا چاہیے کہ وہ صاحب کردار ہے ورنہ جیت نہ جاتا۔ ایک جماعت ملک میں ایسی بھی ہے کہ جو اس وعدے کے ساتھ سیاست میں آئی تھی کہ سیاست کو گندگی سے پاک کیا جائے۔ اس جماعت کو عوام نے کبھی منتخب نہیں کیا۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہ ہوگا کہ عوام سیاست میں گندگی کو پسند کرتے ہیں۔ اصل میں عوام یہ جانتے ہی نہیں کہ سیاست میں گندگی کس چیز کا نام ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں سارے سیاست دان صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں اور اچھی باتیں کرتے ہیں۔ سیاست دنیا میں ہر جگہ عوام کے دل جیتنے کا نام ہے جو عوام کا دل جیت کر عوام کی ایسی تیسی کردے وہی بڑا سیاست دان کہلاتا ہے۔