دوستو‘ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ ایک ایسی جنگ جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کے بعد دنیا ویسی نہیں رہے گی جیسی ہے۔ اس جنگ سے پہلے بھی ایک جنگ ہے۔ کسی نے اس دوسری جنگ کے حوالے سے بہت خوبصورت بات کہی ہے کہ یہ جنگ خوف کے خلاف ہے۔ خوف جو خود ایک وائرس ہے۔ کہنے والے نے مزید کہا ہے کہ یہ جنگ جیتنا ہے تو اس کے لئے وار ٹائم لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ میں بار بار سوچتا ہوں کیا ہمارے پاس ایسی قیادت ہے۔ یہ بات پہلے میں پوری دنیا کے تناظر میں سوچتا ہوں‘ کیونکہ یہ عالمی جنگ ہے۔ شاید دنیا کی پہلی جنگ عظیم ہے جس میں دنیا کا تقریباً ہر ملک شریک ہے اور جس میں کوئی ایک دوسرے کے خلاف نہیں لڑ رہا۔ سبھی ایک ہی دشمن کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ایسا دشمن جو ان دیکھا ہے۔ ایسا دشمن جسے ہم اپنے ذہن کی افسانہ تراشیوں میں غیر زمینی Alienکہا کرتے تھے اور اس کے خلاف فلمیں بنایا کرتے تھے۔ اب امتحان کی گھڑی سر پر آئی ہے تو پتا چلا ہے کہ یہ اَن دیکھا آسمانی دشمن حقیقی ہے۔ اور یہ جنگ ہمیں ہر حال میں جیتنا ہے کہ کرہ ارض کی بقا اسی میں ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے سائنسدان مل کر اس کام میں جت گئے ہیں کہ ’’اجنبی‘‘ حملے کا جواب کیسے دیا جائے۔ دوسری بات میں ایک چھوٹے ملک کا شہری ہوں۔ سپر پاور ہانپ رہی ہے۔ میری کیا بساط ہے۔ برسوں کے دشمن آپس میں تعاون کر رہے ہیں۔ یہ کسی آسمانی دشمن سے کرہ ارض کی بقا کا مسئلہ نہیں۔ کرہ ارض میں بسنے والے انسانوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔ یہ نسل انسانی باقی رہتی ہے یا نہیں۔ اس میں کتنے بچ پاتے ہیں۔ میں پھر عالمی تناظر میں چلا گیا ہوں۔ ملک میں واپس پلٹوں تو سوچنے لگتا ہوں ہماری قیادت اس چیلنج کا کیسے جواب دے گی۔ بیماری سے بچ رہے تو کیا غربت کے ہاتھوں تو یہ جنگ ہار نہیں جائیں گے۔ کئی دن یہ بحث چلتی رہی کہ لاک ڈائون ہونا ہے یا نہیں۔ وفاق کی ایک رائے تھی۔ صوبوں کی دوسری۔ ایک کا دوسرے سے قلابا نہیں ملتا تھا۔ بحث شروع ہو گئی لاک ڈائون کسے کہتے ہیں۔ لاک ڈائون اور کرفیو میں کیا فرق ہوتا ہے۔ چاروں صوبوں میں ایک ہی نہج پر کام ہو رہا ہے۔صرف ڈگری کا فر ق ہے‘ مگر ہم بحث کئے جا رہے ہیں‘ میں کہہ چکا ہوں ‘ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ چلئے کہے دیتا ہوں کہ جنگی قیادت ہی نہیں معاملے کو سنبھالا تو لوگوں میں اعتماد پیدا ہوا۔ ایک دن اعلان ہوا فوج پورے ملک میں دفعہ 245کے تحت سول انتظامیہ کی مدد کے لئے آ گئی ہے۔ یہ اعلان پہلے آتا تو جانے ہمارے جمہوریت پسند حلقے کیا کیا بات کرتے شاید میں بھی کرتا۔ آرمی چیف نے کہا ہم ملک کو عالمی دبائو کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ اس سے پہلے ہماری نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس ہوا تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ لگتا ہے ہم حالت جنگ میں ہیں۔پتا چلا کہ وائرس کے خلاف اس جنگ کے لئے کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی بنا دی گئی ہے۔ سیاست دان کچھ بھی کہیں‘ یہ اتھارٹی قابل اعتماد بیانات جاری کر رہی ہے۔ خوف کے وائرس کے خلاف جنگ خودبخود شروع ہو گئی اور اصل دشمن کے خلاف بھی حکمت عملی طے ہونے لگی۔ اب مجھے کسی ظفر مرزا کے بیان پر اعتبار نہیں کرنا پڑ رہا۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ مجھے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہوا کہ جب سیاستدان کچھ نہیں کر پاتے تو فوج کو مجبوراً آنا پڑتا ہے۔ مجھے کسی بات پر اعتراض نہیں‘ نہ میری جمہوریت پسندی کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ ویسے بھی جب ایسی قومی ایمرجنسی آتی ہے تو یہ ساری ذمہ داریاں فوج ہی ادا کرتی ہے۔ صرف قیادت دوسری ہوتی ہے۔ اب مجھے یہ بھی فرق نہیں پڑ رہا کہ قیادت کہاں ہے۔ چلئے یوں کہہ لیجیے یہ حالت جنگ کی قیادت ہے‘ اس لئے ناگزیر ہے۔ سیاسی قیادت سے مراد حکمران جماعت ہی نہیں ہے۔ ساری سیاسی قیادت ہے۔ کسی جماعت کے پاس ایسا نظام یا ایسے کارکن ہی نہیں جو فیلڈ میں اتر کر کام کر سکیں۔ سوائے جماعت اسلامی کے ‘جس کی الخدمت فائونڈیشن رضا کاروں کا واحد منظم گروپ ہے جو میدان عمل میں ہے۔ میرا مطلب ہے سیاسی جماعتوں میں سے‘ وگرنہ کئی فلاحی ادارے میدان میں آ گئے ہیں۔ ہاں مجھے اس موقع پر جماعت الدعوۃ یاد آ رہی ہے جسے ہم نے امریکہ کے حکم پر قید کر رکھا ہے۔ حافظ سعید ان کے ساتھی تو ایسے مواقع پر کیا کچھ نہیں کر دیتے۔کشمیر کا زلزلہ ہو یا پنجاب کا سیلاب‘ وہ کیا کیا کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے پاس ایک بلدیاتی نظام کا جیسا کیسا بھی تھا ایک ڈھانچہ تھا‘ وہ ہم نے مسمار کر دیا ہے۔ اب ٹائیگر فورس کے نام ہی سے اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ میں جو اس وقت اپنے سیاسی نظام سے اس قدر ناراض معلوم ہوتا ہوں‘ دراصل سیاسی نظام کے خلاف نہیں‘ بلکہ اس نظام کے نہ ہونے پر ناراض ہوں۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ وفاقی قیادت ازخود اپنے مخالفین سے دست تعاون بڑھانے کو تیار نہ ہو۔ مگر میں نے عرض کیا کہ یہ کام بھی اب کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ سب خود ہی کر لیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ اس کا کیا اثر ہوا۔ صاف کہتا ہوں کہ ہم خاصے سیدھے راستے پر آ گئے ہیں۔ اس وقت بھی عالمی قوتیں اپنی من مانی چاہتی ہیں۔ ان کے ذمے جو کام ہیں کرتی جا رہی ہیں۔ باز نہیں آ رہیں۔ سٹیٹ بنک کے ذمے دو کام تھے۔ ایک یہ کہ شرح سود بلند سطح پر رکھنا۔ سو وہ رکھ رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ڈالر کا ریٹ بڑھائے جانا۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ جون 20ئتک ڈالر کی قیمت 170کے لگ بھگ اور اس کے اگلے سال 180تک کرنا مقصود ہے۔ سو وہ ہو رہا ہے۔ ماہرین نے کہا سٹاک ایکسچینج کو چند رعائتیں دو۔ کیپٹل گین ٹیکس میں چھوٹ‘ وہ نہیں دی۔ اب ہم بہت کچھ کریں گے۔ آج ایک عالمی ایجنسی نے کہا ہے‘ شرح نمو 2 سے اڑھائی فیصد ہو گی۔ کیا اس سال کے شروع میں یہی اندازہ نہ تھا۔ اعداد و شمار کے چکر میں ہمیں الجھایا جا رہا ہے۔ یہ درست کہ اس وبا کا اثر زائل کرنے میں ہم جو کچھ کریں گے‘ اس کا اثر ہماری معیشت پر پڑے گا۔ اس کی تلافی کے لئے ہماری اتنی ہی مدد ہو گی۔جو ہمیں سہارا دینے کے لئے کافی ہو‘ وگرنہ صرف چین ہے جو میدان عمل میں ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ ملک کا سارا نظام تلپٹ ہے۔ خوف کے سائے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ صرف اس بات کی تسلی ہے کہ ہم بلا قیادت نہیں رہے۔ وگرنہ ہو یہ رہا تھا کہ یہ بھی پتا نہیں چلتا تھا کہ مسئلہ ہے کیا۔ گا‘ گی ‘گے کا استعمال بہت زیادہ تھا بلکہ اب بھی خاصا ہے۔ ایسے لگتا ہے ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ ڈر مجھے اس بات کا ہے کہ کہیں اس بات کے قائل ہی نہ ہو جائیں کہ ہمارے اہل سیاست کو ملک کی پروا ہے ہی نہیں۔ خیال رہے میں اہل سیاست کہہ رہا ہوں‘ صرف اہل اقتدار پر سارا دوش نہیں دے رہا۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ ملک کا سارا انتظامی ڈھانچہ کسی بحران کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں یہ تو نہیں چاہتا کہ دنیا اس بحران کے بعد کیسی ہو گی‘ مگر اس بات پر ضرور غور کر رہا ہوں کہ میرا ملک اس بحران کے بعد کیسا ہونا چاہیے۔بہت ہو گئی‘ اب تو بس کرو۔