وزارت تجارت کی منظوری کے بعد بزنس ٹو بزنس بارٹر میکانزم 2023 نافذ کر دیا گیا ہے۔ بارٹر میکانزم کے تحت سرکاری و نجی ادارے روس، افغانستان اور ایران سے مال کے بدلے مال کی تجارت کر سکیں گے۔ میکانزم میں طے کیا گیا ہے کہ وہی نجی ادارے اس نظام سے فائدہ اٹھا سکیں گے جو ایکٹو ٹیکس دہندگان کی فہرست میں ہوں گے ،بارٹر تجارت کے لئے امپورٹ ایکسپورٹ کا لائسنس ہونا لازم ہے ۔جس ملک سے تجارت کی جائے گی وہاں موجود پاکستانی مشن سے تجارت کی تصدیق کرانا ہو گی ۔یہ میکا نزم پاکستان کو موقع دے گا کہ وہ ڈالر کی قلت کے باعث درآمد برآمد سے منسلک سرگرمیاں انجام دینے سے قاصر تھا۔ بارٹر سسٹم پر پاکستان نے کئی برسوں سے کام شروع کررکھا ہے ۔ دنیا کے وہ ممالک جنہیں قرضوں کی ادائیگی میں دقت کا سامنا ہو یا جن کے پاس ڈالر میں زر مبادلہ کے ذخائر ناکافی ہو جائیں وہ دیوالیہ ہونے سے پہلے بارٹر سسٹم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نوع کا ایک نوٹیفکیشن حکومت پاکستان سات اپریل 2022 میں جاری کر چکی ہے جس میں کوئٹہ چیمبر آف کامرس کی درخواست پر پاک ایران بارٹر تجارت کی منظوری دی گئی، اس سے پہلے دسمبر 2021 میں پاک ایران تجارت کو بارٹر سسٹم پر منتقل کرنے کا معاہدہ ہوا۔ مال کے بدلے مال کے تازہ میکا نزم کی تفصیلات کا جائزہ لیا جائے تو روس ، ایران اور افغانستان سے پاکستان جو اشیا حاصل کر سکے گا ان میں تیل، گیس، خشک میوہ جات ،، کھاد ، مشینری وغیرہ شامل ہے۔ دوسری طرف پاکستان سے دودھ ، کریم، انڈے، گوشت ، مچھلی، سبزیاں ، چاول، نمک ، چمڑا اور کاسمیٹکس شامل ہیں ۔اس وقت پاکستان کی درآمدات کا حجم چالیس ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے جبکہ برآمدات بیس ارب ڈالر سے بڑھ نہیں پا رہیں۔ پچھلے پندرہ سال سے برآمدی ہدف تیس اور پنتیس ارب ڈالر رکھا جاتا ہے لیکن سال کے آخر پر ناکامی کھڑی ہوتی ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور پھر تحریک انصاف اچھے معاشی فیصلے نہیں کر سکیں ۔ملک کی خراب معیشت کے یہ سب ذمہ دار ہیں ، کوئی کم کوئی زیادہ۔ پیسہ استعمال کیے بغیر سامان کے تبادلے کا نظام بارٹر سسٹم کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس نظام سے کئی دشواریاں جڑی ہوئی ہیں۔ بارٹر سسٹم موخر ادائیگیاں کرنے میں ناکام رہتا ہے ، مشترکہ طور پر قیمت طے کرنے کا فقدان ہوتا ہے ، سامان کو ذخیرہ کرنے میں دشواری رہتی ہے ، متعدد امور پر دو طرفہ اتفاق نہ ہونا بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ بارٹر سسٹم کے کئی فائدے ہیں، یہ نظام سادہ ہے، اس میں کرنسی نظام کے برعکس کوئی پیچیدگیاں نہیں ، قدرتی وسائل کا زیادہ استعمال نہیں کیا جاتا، طاقت چند حلقوں تک مرکوز نہیں ہوتی، ادائیگیوں کے توازن کے مسائل نہیں ہوں گے۔ گلوبلائزیشن کے ساتھ ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی اقتصادی شراکت داری اور ایک شدید مقابلہ دوسروں پر انحصار کی طرف جاتا ہے۔مارکیٹیں اور معاشی بحران عالمی حیثیت اختیارکر سکتے ہیں۔قومی اور بین الاقوامی تجارت میں پیدا ہونے والی گنجائش اور توسیع کو پورا کرنے کے لیے قومی معیشتوں کے بلاکس اکثر ناکافی ہوتے ہیں۔اس لئے کچھ ممالک بارٹر سسٹم سے رجوع کرتے ہیں۔کرنسی کا استعمال تجارت کا سب سے اہم عنصر ہے۔ بنا کرنسی تجارتی طریقوں کا استعمال بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ ان طریقوں میں سے ایک جو کمپنیاں دونوں میں مسابقت بڑھانے کے لیے لاگو کرتی ہیںقومی اور بین الاقوامی منڈیوں اور بحران کے دور میں نقدی کی پریشانیوں پر قابو پانا ہے۔بارٹر ایک ایسی معیشت ہے جو صدیوں سیمال کے بدلے مال اور خدمات کے تبادلے کے طور پر رائج ہے۔ پاکستان اور اس کے مغربی پڑوس کے درمیان، خاص طور پر وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان تجارتی صلاحیت اربوں ڈالر کی ہے ۔ایران کے مقابلے میں پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے مختصر ترین زمینی راستہ فراہم کرتا ہے۔ترکی ایک بندرگاہ سے جڑ سکتا ہے۔ تاہم پاکستان اور وسط ایشیائی ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت پچھلے کئی برسوں سے ایک ارب ڈالر رہی ہے جو صلاحیت سے بہت کم ہے۔ پاکستان نے سی پیک اور دیگر معاہدوں کی صورت میں دنیا بھر میں اپنے تجارتی اور ٹرانزٹ روٹس کو وسعت دی ہے۔ اس کی مثال 2015 میں اقوام متحدہ کے کنونشن TIR (ٹرانسپورٹ انٹرنیشن آکس روٹیرز) پر دستخط کرنا اور اسے فعال بنانا۔2018 میں TIR کارنیٹ زمینی/ٹرین کے راستوں پر سامان اور کارگو کی نقل و حمل کی اجازت ہے۔ای سی او کے رکن ممالک بالخصوص ایران، ترکی اور آذربائیجان کے لئے پاکستان نے اب تک بہت کم نقل و حمل کا انتطام کیا ہے۔زمینی سے ایران کے راستے ترکی اور آذربائیجان تک پہنچنے میں تقریباً ایک ہفتہ لگتا ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی تجارت کے لئے پاکستان اور پڑوسی ممالک کو ابھی بھی ٹرانسپورٹ قانون سازی کے بین الاقوامی معیاروں پر پورا اترنے کا چیلنج درپیش ہے ۔ آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان میں موجود زرمبادلہ کی رکاوٹوں کے پیش نظر ان ممالک کے تاجر اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ پاکستان سے خریدے گئے سامان کی مالیت متبادل نقدی میں طے کر سکیں۔ لیکن وہ مال کے بدلے مالکی سپلائی کی شکل میں وہی ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ روس اور ایران سے بارٹر تجارت سے ہمیں مشکل وقت میں کچھ آسانی کی امید ضرور ہے لیکن ادارہ جاتی نظام میں بہتری اور ان ممالک کی ضرورت کی اشیا کی پیداوار میں اضافہ کئے بنا بارٹر میکانزم سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔