سیلاب کا موسم قریب ہے اورہم سیلاب کی تباہی کے بارے میں سوچ رہے ہیں جبکہ ملک کے حکمران اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنے مخالفین کی گفتگو اور نقل و حرکت کو ریکارڈ کرنے کے لیے ہر ڈیجیٹل ٹول کو استعمال کیا جارہا ہے۔ ان حالات میںاہم بات یہ ہے کہ کون سیلاب سے متاثر ہونے والے ممکنہ لوگوں کو قابل اعتماد ابتدائی وارننگ فراہم کرے گا، کون انخلا کرائے گا اور انہیں بچائے گا، کون ضرورت مندوں کو امداد فراہم کرے گا۔ کون بے گھر لوگوں کو تحفظ فراہم کرے گا؟ یہ واقعی ایک خوفناک صورتحال ہے۔ خاص طور پر جب ریاستی ادارے ماضی میں سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے میں ناکام رہے ہوں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب برسراقتدار جماعت اپنی اپوزیشن کو دبانا چاہتی ہے تو قانون نافذ کرنے والے انتہائی موثر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ گورننس یا خدمات کی فراہمی کا معیار براہ راست سیاسی مرضی سے جڑا ہوا ہے۔ قابل توجہ امر تو یہ ہے کہ گزشتہ سیلاب سے بچ جانے والوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی متعدد چیلنجوں سے مقابلہ کے لئے سخت جدوجہد کر رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ایک اور سیلاب کی تباہی قریب ہے۔ اگر آنے والے مہینوں میں دوبارہ سیلاب آتا ہے تو کیا صورت حال ہو گی ؟ چونکہ تاریخ اکثر اپنے آپ کو میرے ملک میں حکمرانی کے تقریباً ہر شعبے میں دہراتی ہے، اس لیے 2023ء کے سیلاب کا جواب دینے کی تیاری 1992ء سے مختلف نہیں ہو سکتی۔ میں 2010ء اور 2022ء میں 1992 کے سپر فلڈ سے سیلاب زدہ کمیونٹیز کے ساتھ کام کر رہا ہوں اور پچھلے 30 سال کے دوران ہماری تنظیم نے آفات کے مختلف پہلوؤں پر متعدد سٹڈیز بھی کی ہیں۔ جن سے مجھے پانچ بڑے سبق سیکھنے کو ملے ۔1، اس شاندار کہاوت کو اپنائیں 'وقت پر ایک سلائی نو سلائیوںسے بچاتی ہے'۔ 2،مقامی مردوں اور عورتوں پر بھروسہ۔ 3، مقامی حکمت اور سائنسی علم کو ملا دیں۔ 4، تباہی کو بہتری کے لئے اقدامات کرنے کا موقع سمجھیں۔ 5، حکام کو جوابدہ بنانے کے لیے مقامی سے قومی سطح تک کمزور اور پسماندہ کمیونٹیز متحد ہوں۔ پاکستان کی عوامی پالیسی اور منصوبے جو آفات کے انتظامات اور آفات کے خطرے میں کمی کا دعویٰ کرتے ہیں، درحقیقت وہ دوسروں سے مستعار لیے گئے ہیں۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ عملی طور پر ان کی ملکیت کا فقدان ہے اوراس کا اظہار اداروںاور منصوبوں پر بھاری وسائل لگانے کے باوجود ہو رہا ہے۔ نتیجتاً ہم بحیثیت ملک آفات سے ہونے والے انسانی اور معاشی نقصانات کو کم کرنے میں ناکام ہیں۔ 2022 ء کے میگا سیلاب کوہی لے لیں۔ 2010ء میں وفاقی اور صوبائی سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کے قیام کے بعد سے شاید ہی کسی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ نے اس کا اجلاس بلایا ہو۔ محض اس لیے کہ وہ قائد حزب اختلاف کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتے،جو کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ 2010 کے تحت قانونی طور پر لازمی ہے۔ ان کی انا قومی مفاد سے بڑی ہے اور یہ گورننس کی خرابی کی بڑی وجہ ہے ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے نہ صرف لوگوں کو دھوکہ دیا ،جب انہیں حکومتی تعاون کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، بلکہ انہوں نے سینڈائی فریم ورک فار ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن یا SDGs پر پیش رفت کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کو دھوکہ دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔یقین نہ آئے تو صرف پیشرفت کی رپورٹوں پر نظر ڈال لیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ SFDRR چار ترجیحی اقدامات پر مشتمل ہے:اس کی پہلی ترجیح تباہی کے خطرے کو سمجھنا ہے۔ ہر دستخط کرنے والے ملک سے ہر ترجیحی کارروائی کے ہر اشارے پر ٹھوس اقدامات کی توقع کی جا تی ہے۔ مثال کے طور پر، خطرے کو سمجھنے کا زیادہ تر انحصار خطرے کی مشترکہ تفہیم پر ہوتا ہے۔ اس لیے روایتی اور مقامی علم کا سائنسی علم کے ساتھ متوازن استعمال ضروری ہے۔ یہ انفارمیشن ایج ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے خطرے کی جہت اور سطح کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ انتہائی کٹھن مسئلہ ثابت ہوا ہے۔ 2022ء کے سیلاب کے لیے قبل از وقت وارننگ اور معلوماتی مواد کو لے لیں جو آفت کے بعد حکومتی محکموں، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، آئی این جی اوز اور این جی اوز نے سندھ اور جنوبی پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ لوگوں میں تیار اور تقسیم کیا تھا۔ PATTAN اور Clear Global کے زیر اہتمام مشترکہ طور پرکی گئی تحقیق معلومات تک رسائی کی جانچ کرنے کے لیے کیے گئے سروے کے نتائج انتہائی تشویشناک ہیں۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں ‘سیلاب سے متاثرہ کمیونٹیز کے پاس وہ معلومات نہیں تھیں جو انہیں امداد تک رسائی، مزید نقصان سے بچنے اور مستقبل کے سیلاب کی تیاری کے لیے درکار تھیں۔ خواتین کو زیادہ تر معلومات سے محروم رکھا گیا۔ کچھ اپنے بچوں پر بھروسہ کررہے تھے کہ وہ انہیں بلند آواز میں معلومات پڑھکر سنا دیں۔ زیادہ تر خواتین کے پاس اپنے فون نہیں تھے، انہیں معلومات کے لیے خاندان کے مردوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ہاٹ لائن کا استعمال ان کے لیے ناممکن تھا۔ ناقص مواصلات خطرات کو بڑھاتی ہیں۔ قابل اعتماد معلومات تک رسائی کی کمی اور غلط معلومات کی وجہ سے کرپشن ممکن ہوئی۔ ریلیف کی تقسیم اور حقداروں کے بارے میں الجھن کمیونٹیز کے اندر تناؤ کا باعث بنی۔ معلومات کی ناقص فراہمی نے عوامی غصے اور ناانصافی کے جذبات میں اضافہ کیا ہے۔ سندھ کے شرکاء نے غصے کا اظہار کیا کہ حکومتی امداد ان تک نہیں پہنچی اور یہ خیال ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں امداد کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ مواصلاتی رکاوٹیں اس مایوسی کو بڑھا دیتی ہیں کیونکہ لوگ اس وقت رپورٹ نہیں کر سکتے جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے حق سے انکار کر دیا گیا ہے۔ عملی اقدامات کے ذریعے کلیدی نتائج حاصل کرنا، اس لیے ضروری ہے کہ آسانی سے سمجھ میں آنے والی مقامی زبان میں مناسب معلومات تیار کریں اور اس کی ترسیل کریں۔ تحریر کے بجائے سمعی اور بصری ذرائع استعمال کریں۔ بروقت عمل کریں اور تاخیر کو روکیں کیونکہ آفات سے پہلے تھوڑا وقت اور پیسہ خرچ کرنا بہتر ہے با نسبت اس کے بعد بہت زیادہ وسائل خرچ کرنے کے۔ امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق 'خطرے میں کمی اور ابتدائی وارننگ میں لگائے گئے ہر ایک ڈالر سے طویل مدت میں 7 ڈالر کی بچت ہوتی ہے۔ لہٰذا کیا چیز حکومتوں کو کمزور کمیونٹیوں کو قبل از وقت وارننگ فراہم کرنے سے روکتی ہے، خاص طور پر جب سیلاب کی آمد آمد ہو، اس راز کو کھوجنے کی ضرورت ہے۔