اوگرا نے ملک بھر میں گیس صارفین کے لئے گیس کی قیمتوں میں اوسطاً 50 فیصد اضافے کی منظوری دی ہے۔ بے روزگاری اور روز افزوں مہنگائی نے پہلے ہی غریب کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے ۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امسال مہنگائی کی شرح میں 38 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے جبکہ غیر سرکاری ادارے یہ شرح 45 فیصد بتاتے ہیں۔ حکومت کے گندم کے نرخ 39 سو روپے فی من مقرر کرنے کے باوجود گندم کی قلت کی وجہ سے چکی کا آٹا 175روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے تو رہی سہی کسر بجلی کے بلوں نے نکال دی ہے۔ اس سے مفر نہیں کہ حکومت گھریلو صارفین کو ایل پی جی سلنڈر سے بہت زیادہ سستی گیس فراہم کر رہی ہے اور روپے کی مسلسل گرتی قدر کی وجہ سے گیس کی قیمتیں بڑھانا حکومتی مجبوری ہے کیونکہ حکومت مہنگی درآمدی گیس گھریلو صارفین کو ارزاں نرخوں فراہم کر رہی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک بھر میں گیس لیکج اور چوری یو ایف جی 19 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ سال چوری کی شرح 15 فی صد تھی اور ایک فیصد یو ایف جی چوری بڑھنے سے کمپنی کو دو سے ڈھائی ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ گیس کے نرخوں میں پچاس فیصد اضافے سے غریب کے لئے دو وقت کی روٹی محال ہو جائے گی۔ بہتر ہو گا حکومت گیس کے نرخوں میں اضافے کے بجائے گیس چوری کے سدباب کے لئے اقدمات کرے تاکہ غریب کا چولہا جلتا رہے۔