دنیا پر حکمرانی ہمیشہ سے طاقت ہی کی رہی ہے۔ یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جن کو اپنی طاقت پر ناز ہوتا ہے، طاقت ہی انہیں تباہ کر دیتی ہے۔ اونٹ جب پہاڑ کے نیچے آتا ہے تو اسے اپنے قدوقامت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ نہتے اور بظاہر کمزور کشمیری جس بے خوفی سے گرانڈیل بھارت کے ظلم و استبداد کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ وہ آج نہیں تو کل اپنا نتیجہ ضرور مرتب کریں گے۔ اصل طاقت سازو سامان اور فوجی وسائل کی نہیں ہوتی، وہ اخلاقی قوت ہوتی ہے جو کمزور کو طاقتور اور مظلوم کو ظالم کے سامنے کھڑا کرتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ویتنام میں امریکہ کو ہزیمت نہ اٹھانی پڑتی اور افغانستان سے روسیوں کو ذلیل و خوار ہو کر نکلنا نہ پڑتا اور امریکہ اور نیٹو کی افواج طالبان پر لازماً غلبہ حاصل کر چکی ہوتیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں جو معرکہ آرا تقریر کی ہے اس سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو ہندو ذہن کو پڑھنے اور پہچاننے سے معذور ہیں اور اسے کفر و اسلام کی جنگ کے بجائے اسے سیدھا سادہ سیاسی مسئلہ یا محض خود ارادیت کا ایک ایشو سمجھتے ہیں۔ یہ بھی کیسی ستم ظریفی ہے کہ کشمیری خاتون لیڈر محبوبہ مفتی جو کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ رہ چکی ہیں، وہ تو نئی صورت حال میں دو قومی نظریے پر ایمان لانے کا اعلان کرتی ہیں اور ہمارے نام نہاد دانشور اسے ایک سیاسی پس منظر رکھنے والے مسئلے سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ملک و قوم کو درپیش اہم ترین مسائل میں جس طرح کے اتفاق رائے کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے ہم محروم ہیں۔جو اصحابِ قلم اس معاملے کو کفر و اسلام کی جنگ نہیں سمجھتے وہ ذرا ہوش مندی سے ہمیں یہ سمجھا دیں کہ یہ کفر و اسلام کی اگر جنگ نہیں تو پھر یہ کس کی جنگ ہے؟ کیا یہ جنگ زرگری ہے؟ یا یہ محض قبضۂ زمین کا تنازع ہے؟ یہ جھگڑا اگر دو قومی نظریے کا نہ ہوتا تو محبوبہ مفتی نے اپنی پہلی رائے سے رجوع کر کے کیوں اس نظریے کی سچائی کی گواہی دی۔ ہمارے نام نہاد دانشور حضرات کو کچھ اور نہیں اپنے ہی مذاہب سے کد ہے کہ جوں ہی اسلام کا حوالہ آئے وسعت قلبی اور وسیع النظری کا لبادہ اوڑھ کر ایک سیکولر اور لبرل نقطۂ نظر اختیار کر لو۔ ان سے بہتر تو کانگرسی لیڈر راہل گاندھی اور بھارتی مصنفہ اور دانشور ارون دھتی رائے ہیں جو مودی سرکاری کے نئے اقدام کو بھارت کی تباہی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں شہباز شریف جیسے سیاست دان جو اپنی ہی سیاسی اور ملی تاریخ سے نابلد ہیں اور جنہوں نے اپنے ادوار حکومت میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے بجائے بھارت سے تجارتی تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی دکھائی، آج وہ کس منہ سے وزیر اعظم عمران خان سے ایسی توقعات کر رہے ہیں، جس پر خود وہ اور ان کی حکومت ماضی میں پوری نہیں اتری۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ وقت نہیں کہ ہم آپس میں الجھیں اور باہم دست بگریباں ہوں۔ آج ہمیں جتنی اتفاق رائے (Coasensus)کی ضرورت ہے، شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ 1971ء میں جب بھارت نے ہمارے وطن عزیز کو دولخت کرنے میں جو کردار ادا کیا تھا اس پر تبصرہ کرتے ہوئے چینی وزیر اعظم چوائن لائی نے کہا تھا کہ بھارت نے ہوا میں جو تخم ریزی کی ہے اسے مستقبل میں آندھیوں کی فصل کاٹنی ہو گی۔ بھارتی نیتا آر ایس ایس کی پالیسی پر جس اکھنڈ بھارت کو وجود میں لانے کے خواب دیکھ رہے ہیں، وہ خود اس ملک کے حصے بخرے کر دے گا۔ بھارت میں مقیم اقلیتیں اور علیحدگی پسند تحریکیں کشمیریوں کے ولولے اور جذبے سے قوت حاصل کریں گی۔ سکھ، عیسائی اور شودروں کی بے اطمینانی اور بے چینی بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنا رنگ دکھائے گی۔ وزیر اعظم نے اسمبلی کے فلور پہ اگر قائد اعظم کی فراست کو داد دی تو بالکل صحیح دی کیوں کہ یہ قائد اعظم ہی تھے جو کانگریس میں رہ کر ہندوئوں کے ذہن اور مزاج کو پڑھ چکے تھے اور خوب جانتے تھے کہ انتہا پسند ہندو ذہنیت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے لیے کس درجہ نفرت اور بیزاری چھپی ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کی بابت تو نفرت کے ساتھ انتقام کا جذبہ بھی ہے کہ آٹھ سو سالہ مسلم اقتدار اب جبکہ روبہ زوال ہو چکا ہے تو وقت آ گیا ہے کہ ان سے انتقام لیا جائے اور اب انہیں غلام بنا کر رکھا جائے۔ 1937ء کی کانگرسی وزارتوں کی مسلم دشمن پالیسی اس بات کی شاہد تھی کہ گائو کے ذبیحے پر پابندی، گاندھی جی کی تصویر کو پرنام کرنا اور بندے ماترم گیت اسکولوں کے بچوں سے بلا امتیاز مذہب گوانا، یہ سارے اقدامات میں اس بات کی جھلک موجود تھی کہ انگریزوں کے ہندوستان سے رخصت ہونے کے بعد کانگرس کی حکومت مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔ چنانچہ کانگرس وزارتوں سے مستعفی ہوئی تو قائد اعظم نے ’’یوم نجات‘‘ منانے کا جو اعلان کیا تھا، اسی نے مسلم لیگ کی سیاست میں جان ڈالی اور پاکستان کا مطالبہ تین برسوں میں مسلمانوں کا مقبول ترین مطالبہ بن گیا اور 1940ء میں قرارداد پاکستان منظوری ہو گئی۔ قائد اعظم نے کشمیر کے شیخ عبداللہ کو بھی دعوت دی تھی کہ وہ بھی مطالبہ پاکستان میں شریک ہو جائیں لیکن سیکولر ذہنیت کے حامل شیخ عبداللہ نے جن کی پنڈت جواہر لال نہرو سے ذاتی دوستی بھی تھی، قائد اعظم کی پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ شیخ عبداللہ کا یہی انکار تھا جس کی سزا آج کشمیری بھگت رہے ہیں۔ اگر شیخ عبداللہ مطالبہ پاکستان میں شریک ہو جاتے تو کشمیری مہاراجہ کو ہتھیار ڈالنے پڑتے اور کشمیر پاکستان کا حصہ بن جاتا۔ کہتے ہیں کہ نہرو بھی اپنی ہی زندگی میں تنازع کشمیر طے کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے شیخ عبداللہ کو بھارتی قید سے رہائی کے بعد پاکستان مصالحت ہی کی نیت سے بھیجا تھا جو یہاں آئے اور صدر ایوب سے ملاقات کی۔ بدقسمتی سے شیخ عبداللہ کی واپسی کے فوراً بعد نہرو کا انتقال ہو گیا اور مسئلہ کشمیر حل نہ ہو سکا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد کہ مودی نے انہیں ثالثی کے لیے کہا تھا، جو ردعمل بھارت میں پیدا ہوا اس ردعمل سے نکلنے ہی کے لیے ایک قدم آگے بڑھ کر کشمیر کی حیثیت آئین تبدیل کر دی گئی ہے تا کہ مسلم دشمن اقدام سے ہندو ذہنیت میں اپنی ہر دلعزیزی جگائی جا سکے لیکن مودی سرکاری نے ترپ کا جو پتہ پھینکا ہے، وہ جلد یا بدیر ان ہی پر الٹ پڑے گا اور حق بہ حقدار رسید کے مصداق کشمیری مسلمان اپنی تقدیر کے فیصلے میں آزاد ہو کر رہیں گے۔انشاء اللہ