پاکستان میں کورونا کی دوسری لہر میں شدت تشویشناک صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے۔ ہر روز کورونا سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 12سے 16کے درمیان ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ سوموار کے روز ملک بھر میں کورونا کے 1123نئے مریض سامنے آئے ہیں۔ دو ہفتے قبل فعال کیسز کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار رہ گئی تھی جو پھر سے بڑھ کر 13242تک پہنچ چکی ہے۔ 707افراد کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ متعدد اہم شخصیات کے کورونا میں مبتلا ہونے کی خبریں ہیں۔ حکومت نے کئی مقامات کو سیل کر دیا ہے جبکہ ہوائی اڈوں پر ملاقاتیوں کا داخلہ بند کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کی بندش، ایس او پیز پر عملدرآمد اور دیگر تدابیر پر قومی رابطہ کمیٹی میں فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان، دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں کورونا وائرس کی صورتحال خطے کے دیگر ممالک سے قدرِ بہتر ہے، تاہم ملک میں مجموعی طور پر اب تک 3 لاکھ 36 ہزار 260 افراد وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 3 لاکھ 15 ہزار 446 صحتیاب جبکہ 6 ہزار 849 انتقال کر چکے ہیں۔تازہ رپورٹ ہونے والے کیسز میں سندھ کے 443 کیسز 2 اموات، خیبرپختونخوا کے 100 کیسز ایک موت جبکہ بلوچستان کے 23 کیسز ایک روز قبل کے اعداد و شمار تھے۔یاد رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے ابتدائی 2 کیسز 26 فروری 2020 ء کو رپورٹ ہوئے تھے جس کے بعد اس میں پہلے وقفے وقفے سے اضافہ ہوا بعد ازاں صورت حال میں بہتری آئی ۔اس عرصے کے دوران سب سے زیادہ تشویش ناک صورتحال جون کے مہینے میں دیکھنے میں آئی تھی،جس کے دوران یومیہ رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 6 ہزار اور اموات 100 سے زائد تک جا پہنچی تھیں۔ جولائی کے مہینے میں صورتحال بہتری کی جانب گامزن نظر آئی اور کیسز کم ہونا شروع ہوئے اور پھر اگست میں اس میں مزید بہتری رپورٹ ہوئی۔ستمبر میں کورونا وائرس کی صورتحال مزید بہتر ہونے کے بعد 6 ماہ سے زائد عرصے سے بند تعلیمی اداروں کو بھی کھول دیا گیا تاہم ستمبر کے اواخر سے کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ماہ اکتوبر میں کیسز مزید بڑھے اور حکومتی سطح پر مہینے کے آخر میں یہ بتایا گیا کہ ملک میں وائرس کی دوسری لہر بتدریج شروع ہوچکی ہے۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کورونا وائرس کے 340 کیسز اور 7 اموات کا اضافہ ہوا۔ں گزشتہ کچھ روز سے پنجاب میں کورونا وائرس کے کیسز بڑھ رہے تاہم ایک طویل عرصے بعد یہ تعداد 300 سے عبور کرگئی ہے۔سرکاری رپورٹ کے مطابق صوبے میں 340 نئے کیسز کے بعد مجموعی تعداد ایک لاکھ 4 ہزار 894 ہوگئی ہے۔اس کے علاوہ 7 اموات نے مجموعی تعداد کو 2 ہزار 372 تک پہنچا دیا۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کورونا وائرس کے مزید 154 کیسز کی تصدیق ہوئی۔سرکاری پورٹل کے مطابق ان 154 کیسز کے بعد وہاں مجموعی تعداد 20 ہزار 243 تک پہنچ گئی۔ جن علاقوں میں کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ان میں ایک آزاد کشمیر ہے اور وہاں کیسز گلگت بلتستان سے زیادہ ہوگئے ہیں۔گزشتہ 24 گھنٹوں میں وہاں 93 نئے مریض اور 3 اموات کی تصدیق ہوئی۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سامنے آنے والے ان 93 کیسز کے بعد وہاں اب تک کے کیسز کی مجموعی تعداد 4 ہزار 330 تک جاپہنچی۔اس کے علاوہ 3 اموات نے مجموعی تعداد کو 98 تک پہنچا دیا۔ گلگت بلتستان میں کورونا وائرس مزید 14 افراد کو متاثر کرگیا۔گلگت بلتستان میں ان دنوں انتخابی مہم جاری ہے جس میں احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرنے سے کورونا کا پھیلائو آسان دکھائی دینے لگا ہے۔سرکاری پورٹل کے مطابق ان 14 نئے مریضوں کے بعد وہاں کیسز کی مجموعی تعداد 4 ہزار 293 تک پہنچ گئی۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 430 مریضوں کے شفایاب ہونے کے بعد مجموعی طور پر یہ تعداد 3 لاکھ 15 ہزار 446 ہوگئی۔ اس حقیقت سے چشم پوشی کسی طورممکن نہیں کہ وطن عزیز کی معیشت کو درپیش مشکلات میں مکمل لاک ڈاون مزید دشواریورں کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے میں ہمارے پاس صرف ایک آپشن رہ جاتا ہے اور وہ مکمل احتیاط ہے اس میںاہم سرکاری دفاتر کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا ۔دوسری جانب ہر شہری کو انفرادی طور پر اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی جہاں تک انتظامیہ کے انتظام اور ذمہ داریوں کاتعلق ہے تو اس میں بھی کمیونٹی کو شریک کیا جا سکتا ہے اس مقصد کیلئے تعلیمی اداروں کے مالکان اور تاجر تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے قاعدہ قانون ترتیب دیا جاسکتا ہے اس سب کیساتھ ضرورت آگہی مہم جاری رکھنے کی ہے تاکہ ہر شہری نہ صرف صورتحال سے آگاہ ہو بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر بھی توجہ مرکوز کر سکے ۔ کورونا کی وجہ سے سماجی اور کاروباری زندگی کئی ماہ تک مفلوج رہی ہے، پاکستان کی معیشت نے اس کے منفی اثرات کو بھگتاہے۔ ضروری ہے کہ ایسی تمام اجتماعی سرگرمیوں کو فوری طور پر محدود کیا جائے جو کورونا کے پھیلائو کا سبب بن رہی ہیں تا کہ روزگار اور معاشی سرگرمیوں کو بچایا جا سکے۔ حکومت کو رائے ونڈ تبلیغی جماعت کے اکابرین سے اس سلسلے میں ضرور بات کرنی چاہیے کہ آئندہ ہفتے اجتماع کے انعقاد پر اگر ممکن ہو تو نظرثانی کی جائے یا کم از کم حفاظتی اقدامات پر علمدرآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ اس جان لیوا مرض کے پھیلائو کو روکا جا سکے۔