سیاست خواہشات اور جذبات کا نہیں حالات کے مطابق فیصلوں کا کھیل ہے۔سیاستدان حالات کا رخ اپنی طرف موڑنے کے لئے سیاسی چالیں چلتے ہیں۔2008ء میں پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کا عمل شروع اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو حالات نے مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی کی اپوزیشن سے زیادہ اتحادی بنا دیا۔یہاں تک کہ مسلم لیگ ن پہلے حکومت میں شامل ہوئی پھر پیپلز پارٹی کو مضبوط کرنے کے لئے اپوزیشن کے کردارکا بوجھ بھی اٹھا لیا۔ آگ اور پانی کے اس ملاپ کا مقصد اس ’’ہوا‘‘ کا مقابلہ کرنا تھا جو پاکستان میں سیاسی حالات کا رخ بدلنے میں بنیادی کردار بتائی جاتی تھی۔نواز زرداری مشرف کو چلتا کرنے کے بعد ان ہوائوں کی رفتار کم کرنے کے لئے جت گئے۔نواز شریف کے زخم تازہ تھے اس لئے 2008ء سے 2013ء تک ان کی سیاست پر جذبات اور خواہشات غالب رہے مگر آصف علی زرداری موسم کے مطابق ’’ہوا‘‘ کا سامنا کرتے رہے۔نواز شریف کی فرینڈلی اپوزیشن کا واحد مطالبہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کردار ختم کرنا تھا۔ چاہتے تو آصف علی زرداری بھی یہی تھے مگر وہ اوتاولے ہونے کے بجائے وقت کا انتظار کرنے کے قائل تھے۔ فرینڈلی اپوزیشن بالخصوص نواز شریف نے بقول آصف علی زرداری کو پیغام میثاق جمہوریت کی شق ’’اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کردار کم کرنے کی کوشش تیز کی جائیں گی‘‘ یاد دلائی اور پیغام بھیجا کہ صدر صاحب شیر بنیں۔ آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ میں نے میاں صاحب کو جواب بھجوا دیا۔میاں صاحب شیر تو آپ کا انتخابی نشان ہے آپ ہمیں گیدڑ ہی رہنے دیں۔اگلے انتخابات کے بعد جب آپ کی باری آئے گی تو آپ شیر بن جانا۔ فرینڈلی اپوزیشن نے اتحادی حکمران پر دبائو بڑھانا اور صاحب تکریم ہونے کا مطالبہ کیا تو اس وقت کے حالات کے مطابق آصف علی زرداری نے نواز شریف کو نجیب احمد کے الفاظ میں یہ جواب دیا تھا۔ ہم نہیں صاحب تکریم تو حیرت کیسی سر پہ دستار نہ پیکر پہ عبا رکھتے ہیں سر پہ دستار نہ پیکرعبا رکھنے کے باوجود بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے حسین حقانی کے میمو نے آصف علی زرداری کو اس حد تک ذہنی دبائو کا شکار کیا کہ موصوف کو آسودگی کے لئے دبئی جانا پڑا۔مرد آہن نے حالات کا رخ موڑنے کی کوشش میں یہاں تک کہہ دیا کہ ایوان صدر سے تو وہ ایمبولینس پر ہی نکلیں گے۔ آصف علی زرداری کی حالات کو دیکھ کر چالیں چلنے کا اتنا فائدہ کم از کم ضرور ہوا کہ وزیر اعظم کی قربانی کے باوجود پیپلز پارٹی اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی اور آصف علی زرداری بھی پانچ سال صدر رہنے کے بعد اپنے قدموں پر چل کر ایوان صدرسے گارڈ آف آنر لے کر لوٹے۔2013ء میں نواز شریف حکومت کو زرداری کی فرینڈلی اپوزیشن میسر تھی مگر نواز شریف کی حالات کے بجائے جذبات اور خواہشات کے مطابق فیصلے کرنے کی ’ہٹ ‘نے ان کو وزیر اعظم کے عہدے پر رہتے ہوئے نااہل ہی نہیں کروایا بلکہ ماتھے پر کرپشن کا داغ لئے جی ٹی روڈ پر ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ دھائی دینے پر بھی مجبور کر دیا۔ 2018ء میں عمران خان کو اتحادی بیساکھیوں کے سہارے وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھنا نصیب ہوا۔ عمران خان نے کرپشن اور شفافیت کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ نواز شریف اور زرداری نے عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے مقدمات بنا رکھے تھے اس لئے تحریک انصاف کی حکومت کا آغاز مقدمات بنانے کے بجائے مقدمات کو انجام تک پہنچانے سے ہوا۔عمران خان کی حکومت نے شہباز شریف پر کرپشن کے نئے مقدمات ضرور بنائے مگر ان کو مایہ ناز وکیل اعتزاز احسن نے اوپن اینڈ شیٹ کہا۔ عمران خان کی احتساب عمل اور این آر او نہ دینے کی ہٹ دھر می نے ان کو حالات کے بجائے خواہش کے مطابق فیصلے کرنے پر اکسایا۔ بقول عمران خان جب انہوں نے مقدمات کو منطقی انجام پر پہنچانے کے لئے زور لگانا شروع کیا تو’’ ہوا‘‘ نیوٹرل ہو گئی اور عمران خان کی پھونکوں سے کرپشن کے چراغ بجھنے والے تو نہ تھے۔ عمران خان حالات کے بجائے خواہش کے تابع رہنے کی ضد میں اقتدارسے ہاتھ دھو بیٹھے اور جلسوں کے ذریعے عوام کو پھونکیں مارنے پر اکسانے کے لئے نکل پڑے۔ دروغ بر گردن راوی لندن سے عمران خان کو خواجہ سعد رفیق کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر دوبارہ سننے کا مشورہ آیا ۔ خواجہ صاحب سے اسمبلی میں عمران خان کو کہا تھا۔’’ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی بھی کبھی تحریک انصاف کی طرح ایک دوسرے کی کرپشن پکڑیں کے لئے زور لگایا کرتی تھیں پھر ہمیں سمجھ آ گئی آپ کو بھی ایک دن سمجھ جائے گی‘۔ راوی جو آج بھی لندن میں موجود ہے کا دعویٰ ہے کہ ’’وہ عمران نواز ڈیل‘‘ کے گواہ ہیں۔ دعویٰ تو یہ بھی ہے کہ نواز شریف کا جو’’ دانہ ‘‘ زرداری نے چگنے سے انکار کیا تھا وہ عمران نگل چکے۔ جس کو کل نواز شریف اور آصف علی زرداری خلائی مخلوق کہتے تھے آج عمران خان ان کو نیوٹرل کہہ رہے ہیں فرق ہے تو بس یہ کہ اس بار خلائی مخلوق نے نیوٹرل کہنے کو گالی سمجھ لیا اور عوام کی ہوا کا رخ موڑنے کے لئے مقابل کھڑے ہو گئی۔ایک بات جو عمران خان سمجھنے سے قاصر ہیں وہ صرف یہ ہے کہ عمران سمیت 22کروڑ عوام کی پھونکیں سیاست کے حالات کی بساط کو پلٹنے کی سکت نہیں رکھتیں۔ سیاست میں فیصلے طاقت اور حالات کے بل بوتے پر ہوتے ہیں یہ حالات ہی تھے جن کی وجہ سے ترکی سو سال تک اپنے حقوق سے دستبردار ہوا یہ حالات اور طاقت ہی تھے جنہوں نے سوویت یونین کی ریاستوں کو تنکوں کی طرح بکھیر دیا اور آج حالات اور طاقت ہی ہیںجو چین اور روس کو دنیا کی واحد سپر پاور سے’’ آنکھ مٹکے‘‘ کی جرأت فراہم کر رہے ہیں۔ عمران خان تنکوں سے اسلام آباد کے ساتھ راولپنڈی کا تخت ہلانے نکلے ہیں مگر یہ بھول رہے ہیں کہ اس زمین پر صرف جذبات اور خواہشات کے ساتھ پائوں نہیں جمائے جا سکتے۔ عمران خان عوام کو پھونکیںپھونکنے پر ضرور ابھاریں مگر نجیب احمد کا مشورہ بھی ذہن میں رکھیں: زمیں پہ پاؤں ذرا احتیاط سے دھرنا اکھڑ گئے قدم توپھر کہاں سنبھلتے ہیں