کہتے ہیں پانی نیچی جگہ کا رخ کرتا ہے، ہمارے ہاں انصاف کا یہی چلن بہت عرصہ رہا کہ کمزور کی نسلیں انصاف کو ترس جاتیں لیکن طاقتور آڑے آتا۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بقول 2009ء کے بعد کی عدلیہ بدل گئی ہے۔انصاف کے بہائو میں اگرچہ بہتری ہوئی ہے اور گزشتہ کچھ برسوں سے طاقتوروں کو انصاف کا سامنا ہے اور وزراء اعظم سے لیکر جنرل مشرف تک کٹہرے میں ہیں اور انکے مقدمات کے فیصلے دھڑا دھڑ ہو رہے ہیں۔ یہ فیصلے پسند کئے جائیں یا نہیں لیکن بحر حال اس ملک کے بڑے اور طاقتور لوگ اب پہلے کی طرح اپنے خلاف فیصلوں کو رکوانے کے لئے عدالتوں میں دندناتے نہیں پھر رہے بلکہ قانون سے چھپنے کے لئے اکثر بیمار پڑ گئے ہیں باقی جان بخشی کے لئے کسی مفاہمتی آرڈیننس کے منتظر ہیں جسکے بارے میں وزیر اعظم عمران خان اگرچہ بضد ہیں کہ نہیں دیں گے لیکن غیر محسوس طریقے سے ملزمان انکے ہاتھوں سے نکلتے جا رہے ہیں۔انصاف کے بہائو میں بہتری کے ساتھ ہم ایک ٹرینڈ بھی دیکھ رہے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس صاحبان کی تبدیلی کے ساتھ ہمیں اسکی مقدمات کے بارے میں اپروچ میں بھی تبدیلی نظر آتی ہے۔اسکا یہ مقصد نہیں ہے کہ فیصلے آئین اور قانون کے مطابق خدا نخواستہ نہیں ہوتے بلکہ ترجیحات میں فرق محسوس کیا جاتا ہے۔یہ نیا عدالتی دور چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ جب جسٹس افتخار چوہدری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو جوڈیشل ایکٹیوازم اپنی انتہا کو چھو رہا تھا۔ لیکن افتخار چوہدری قوم سے اتنا زیادہ افتخار پانے کے بعد اپنی ذات کے اسیر رہے اور عدلیہ کی بہتری اور انصاف کی بر وقت فراہمی کے بنیادی کام کو آگے بڑھانے یا بہتر بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔البتہ انہوں نے عدلیہ میں اپنے جانثاروں کی بھرتی خوب کی ۔پیپلز پارٹی کی حکومت تو آئے دن انکے نشانہ پر ہوتی تھی ادھر کچھ گڑ بڑ ہوئی اور ادھر از خود نوٹس ہوا۔سموسوں کی قیمتوں تک ہمیں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس یاد ہیں۔ ان کے بعد چیف جسٹس صاحبان میں تصدق حسین جیلانی، جسٹس ناصر الملک اور جسٹس ظہیر جمالی نسبتاً محتاط یا دوسرے لفظوں میں روایتی ججزکے طور پر معاملات کو نپٹاتے رہے۔ درمیان میں جسٹس جواد ایس خواجہ کا تئیس روزہ مختصر دور تھاجس میں انہوں نے اردو کے قومی زبان کے طور پر اطلاق کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ دیا اور یہ فیصلہ بھی انہوں نے اردو میں سنایا۔لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے اس پر کوئی خاص عملدرآمد نہیں کیا اور نہ ہی حکومت کو اس حوالے سے کسی مشکل کا سامنا رہا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار کے دور کا موازنہ ہم کسی حد تک افتخار چوہدری سے کر سکتے ہیں انہوں نے بھی از خود نوٹس کے حوالے سے بہت ایکٹو رول ادا کیا۔انہوں نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ججوں کے احتساب کے آغاز کا اعلان بھی کیا اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ہمارا نظام عدل بر وقت فیصلہ کرنے میں ناکام رہتا ہے۔اگر کوئی فیصلہ ہو بھی جائے تو اسے ضبط تحریر میں لانے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ انہوں نے لاہور ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں کی کارکردگی پر خصوصاً سوال اٹھائے۔یہ سوالات نئے نہیں ہیں اور یہ ایسی حقیقتیں ہیں جو کئی دہائیوں سے ہمارا منہ چڑا رہی ہیں ۔سستا اور فوری انصاف یا انصاف آپکی دہلیز پر، جیسے نعرے حکمرانوں نے بہت لگائے لیکن نہ تو حکمران اور نہ ہی عدلیہ اس بنیادی حق کی بھرپور طریقے سے حفاظت کر پائی۔ ہمارے ہاں نظام ایسا ہے کہ اسکا ڈھانچہ جھوٹ اور بد دیانتی پر مبنی ہے جس میں کیس کے بنانے، بھلے وہ سول معاملہ ہو یا فوجداری، جعلسازی زیادہ ہوتی ہے۔ جھوٹے گواہ سونے پر سہاگہ۔ دو روز قبل ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جھوٹے گواہوں کے خلاف ایک منظم مہم شروع کی۔ دیکھتے ہیں یہ معاملہ سرے چڑھتا ہے یا انکے جانے کے ساتھ دم توڑ جاتا ہے۔ انصاف میں تاخیر پر بھی جسٹس کھوسہ نے ناقابل یقین حد تک کام کیا، سپریم کورٹ میں زیر التوا ہزاروں اپیلیں نپٹا دیں جبکہ ماڈل کورٹس قائم کرکے ملک بھر میں ہزاروں مقدموں کو نچلی عدالتوں نے انجام تک پہنچایا اور اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان ٹرائیلز پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔جسٹس کھوسہ از خود نوٹس کے حوالے سے ایک مختلف نظریہ رکھتے تھے اس لئے انہوں نے اپنے پورے دور میں اس سے اجتناب کیا۔اس میں شک نہیں کہ وہ بہت قابل اور لائق احترام ہیں اور انکا نام عدلیہ کی تاریخ میں ایک روشن ستارے کے طور پر رہے گا۔ آخری دنوں میں وہ بوجوہ کچھ طبقات کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنے جسکی بنیادی وجہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا مقدمہ سننا تھا۔ یہ ایک ایسا کیس تھا جس میں کوئی قانونی یا آئینی خلاف ورزی نہیں تھی۔ وزیر اعظم نے مروجہ اصولوں کے مطابق یہ عمل کیا تھا لیکن سپریم کورٹ میں ایک ایسے وقت پر اسکی شنوائی نے، جب آرمی چیف کی دوسری ٹرم شروع ہونے میں چند دن تھے ،ابہام اور غلط فہمی پیدا کی۔ اس مقدمے کے فیصلے سے بھی واضح ہے کہ یہ غلط تقرری کا معاملہ نہیں تھا بلکہ عدالت کی دانست میں فوج کے سربراہ کی تقرری کی مدت اور توسیع کے حوالے سے قانون کی عدم موجودگی ایک مسئلہ ہے۔ نئے چیف جسٹس گلزار احمد نے حلف اٹھا لیا ہے۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس کی الوداعی تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ ریاست کے ہر ادارے سے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا کیونکہ کرپشن ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔حکومت بھی کرپشن کے خاتمے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے لیکن جیسے پہلے عرض کیا کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے آہستہ آہستہ قانون کی گرفت سے دور ہوتے جارہے ہیں۔اگر انصاف کا بہائو کرپٹ عناصر کو بہا لے جاتا ہے تو پھر امید رکھی جا سکتی ہے کہ ملک کے اندر ایک ایسا ماحول پیدا ہو سکتا ہے جہاں عدل کا ترازو کسی طاقتور کی طرف نہیں جھکے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کرپشن سے پاک معاشرے کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔