سچی بات ہے میں استنبول کے اس کشمیری نوجوان سے پھر بات نہ کر سکا ،میرے پاس سوائے کھوکھلے الفاظ کے اور تھا ہی کیا اور وہ بھی اس پائے کے نہ تھے جو اقوام متحدہ میں میرے’’کپتان ‘‘ نے دنیا کے سامنے رکھے تھے پھر میں اس سے کیا کہتا،کیا بات کرتا، لفاظی کے شیرے میں ڈبو ئی ہوئی دلاسے کی جلیبیاں تو ہم کئی دہائیوں سے سری نگر کے سامنے رکھ رہے ہیں حالاںکہ یہ جانتے بھی ہیں کہ ہمارے پاس آنے والا کشمیر قراردادوں ،کانفرنسوں سے نہیں بارود اور خون سے حاصل ہوا تھا ۔ میری اس کم گو کشمیری نوجوان سے سال بھر پہلے ترکی کے شہراستنبول میں ملاقات ہوئی تھی ،آپ سمجھ لیں کہ اس کا نام عبدالرشید ہے اور اسکا تعلق جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر سے ہے، درمیانی قد وقامت اور سرخ و سپید رنگ والے اس پروقار نوجوان کا تعارف کراتے ہوئے جب ڈاکٹر ندیم نے بتایا کہ یہ سری نگر سے ہیں تومجھ سے رہا نہ گیا میںنے بے ساختہ اسے ایک بارپھر سینے سے لگا لیا مجھے حریت پسند وں سے ایسی ہی محبت ہے اور یہ توپھر وہ ہیں جو اپنے شہداء کو سبزہلالی پرچم میں لپیٹ کر دھرتی کی آغوش میں یوں رکھتے ہیں جیسے کوئی نوزائیدہ بچے کو ماں کی گود میں اس احتیاط سے دیتا ہے کہ اسکی آنکھ نہ کھلے ،وہ نوجوان ان دنوں خاصا پریشان تھا وہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے استنبول آیا تھا اور پیچھے بھارتی سرکار نے جماعت اسلامی پر پابندی لگادی،جماعت اسلامی کی قیادت جیلوں میں ڈال دی گئی سرگرم کارکنوں کے گھروں میں چھاپے مارے جانے لگے اسے گھر والوں نے پیغام دیا کہ خبردار واپس نہ آنا یہاں حالات بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں اب وہ نوجوان استنبول میں کسی نہ کسی طرح رہنے کی تدبیر کر رہا تھا اور پاکستانی نژاد ترک ڈاکٹر ندیم اسکی بھرپور معاونت کر رہے تھے وہی اسے لے لے کرادھر ادھر پھر رہے تھے کہ کسی طرح اس نوجوان کا یہاں ٹھہرنا ممکن ہوجائے ان ہی دنوں میں اس نوجوان سے ایسا تعلق قائم ہوا جو پاکستان لوٹنے کے بعد بھی قائم رہا کبھی وہ سوشل میڈیا کی کسی صورت رابطہ کرلیتے اور کبھی میں انہیں واٹس اپ پر کال کر لیتاآج میں نے انہیں واٹس اپ پر آن لائن دیکھا تو واٹس اپ پروڈیو کال کر لی ’’کیا حال ہے میرے حرئت پسند بھائی کا‘‘ میں نے بے تکلفی سے کہا جواب میں عبدالرشید بھائی نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ’’وہی جو اکیلے شیر کا لکڑ بھگوں کے غول میں ہوتا ہے ‘‘ آج عبدالرشید افسردہ سا لگ رہا تھا میرے کریدنے پر کہنے لگا’’میرا چند ماہ کا بیٹا ہے پہلے انٹر نیٹ تھا تو وڈیو کال کرکے اسے دیکھ لیتا تھا اسکی کلکاریاں سن لیتا تھا اب اسے دیکھے ہوئے کئی مہینے ہوچکے ہیں ،پوری وادی بندوقوں کے گھیرے میں ہے بارہ ملین کی آبادی کچھ بول سکتی ہے نہ سن سکتی ہے اپنی مرضی سے گھر سے باہر نکل سکتے ہیںنہ جا سکتے ہیں وادی کو جیل بنا دیا گیا ہے انٹر نیٹ سروس بند ہے کچھ خبر نہیں کیا ہورہا ہے اور کیا ہوا ہے ،ایسا تو دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ہوا لیکن مہذب دنیا گونگی بہری بنی ہوئی ہے ،کوئی دن نہیں جاتا کہ وہاں سے شہیدوں کے جنازے نہ اٹھتے ہوں لیکن کسی پر کوئی فرق نہیں پڑرہا لگتا ہے اس دنیا میں انسانوں سے انسانیت علیحدہ کر لی گئی ہے ‘‘۔ میں نے عبدالررشید کی تائید کی اورساتھ ہی تسلی دینے کے لئے کہا کہ اس کے باوجودآوازیں اٹھ رہی ہیں خود بھارت میں اس پر سخت ردعمل آیا ہے ،بھارتی سیاستدان اس پر آواز اٹھا رہے ہیں،بھارتی صحافی بھارت بھوشن،سیاست دان یشونت سنہا اور سابق ائیر وائس مارشل کپل کاک سری نگر گئے اور ان کی پریس کانفرنس بڑی سخت رہی کپل کاک نے تو کشمیر کو ٹھنڈی جیل قرار دیا اور یہ سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوا،میری اس بات پر عبدالرشید نے طنزا کہا آپ درست کہہ رہے ہیں پاکستان اور بھارتی اپوزیشن ایک پیج پر آگئی ہے دونوں ایک ہی جیسا بول رہے ہیں۔ ’’کیا مطلب ‘‘ میں چونک گیا ’’بھائی ! دونوں ہی سے ہمیں صرف اخلاقی سپورٹ مل رہی ہے ‘‘عبدالرشید کے لہجے میں تیز کاٹ تھی اسے ہم سے ناراضگی تھی غصہ تھا اور یہ غصہ بجا بھی تھا ،کشمیری تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رے ہیں وہ پاکستان کے جغرافیے میں آئے بنا،پاکستانی شہرئت لئے بنا پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستانی ہیں ،ہماری پاکستانیت کسی آزمائش کی کسوٹی پر نہیں پرکھی گئی ہمارے یہاں شہیدوں کے قبرستانوں کے قبرستان نہیں ہیں ،ہم half widowکی اصطلاح سے بے خبر ہیں ہمیں کوئی گورکھا سڑک پر گرا پر بھاری جوتا سینے پر نہیں رکھتا،ہمیں فوجی جیپ کے بونٹ پر باندھ کر انسانی ڈھال نہیں بنایا جاتا، ہماری ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عصمتیں محفوظ ہیں ،سیاہ دل کے سیا ہ رنگت والے متعصب نوجوان سرخ و سپید بچوں کے لئے گوری دولہنیں اٹھانے کے لئے ٹوئٹر پر اسٹیٹس نہیں لگاتے، ہمارے بیٹے صبح گھر سے نکلتے ہیں تو شام ڈھلے واپس آجاتے ہیںہمیںکیا پتہ حریت کیا ہوتی ہے آزادی کیا نعمت ہے ہم نے تو بنے بنائے پاکستان میں آنکھ کھولی ہے میں نے کھوکھلے لہجے میں عبدالرشید کو تسلی دی اور کہنے لگا ’’ایسا نہیں ہے ہم ہر طرح سے آپکے ساتھ ہیں اپنے کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ ہیں ‘‘ ’’شکریہ لیکن آپ سے زیادہ خوبصورت اور جوشیلا لہجہ آپکے وزیر اعظم کا تھا انہوں نے اقوام متحدہ میں بہترین تقریر کی تھی لیکن کیا صرف تقریر ہی کافی تھی ؟‘‘ ان کییورپ کے بااثر سیاستدانوں سے ملاقاتیں ہوتیں انسانی حقوق کی تنظیموں کو آن بورڈ لیا جاتا لیکن کڑوا سچ یہی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا دو جمعے آدھا آدھا گھنٹہ خرچ کرنے کے بعد ہمارے پاس کشمیریوں کے لئے یہ آدھا گھنٹہ بھی نہیں بچا گزشتہ ہفتے وزارت خارجہ کی سابق ترجمان اور معروف سفارتی تجزیہ کار تسنیم اسلم سے ایک نیوز شو میں ملاقات ہوئی ان سے پوچھا کہ کیا نہیں لگتا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد جدوجہد کا مومنٹم ٹوٹ گیا ہے؟ جس پر تسنیم صاحبہ نے بہت صاف کہا کہ ایسا نہیں ہے پاکستان سے باہر میڈیا میں کشمیر کو اچھی کوریج مل رہی ہے صرف ہمارے ہی میڈیا نے بات کرنا چھوڑ دی ہے انہوں نے سوال اٹھایا کہ بتائیں گزشتہ تیس دنوں میں کسی بھی پاکستانی نیوز چینل میں کشمیر پر تین شو بھی ہوئے ہیں ؟ اخبارات میںبھر بھی خبریں لگ جاتی ہیں لیکن الیکٹرانک میڈیا تو جیسے بھولتا جا رہا ہے ، تسنیم اسلم صاحبہ نے خبردار کیا کہ ہمارا یہ رویہ کشمیریوں کو فاصلے پر کر دے گاتسنیم اسلم صاحبہ کی بات بالکل بجا ہے ہمیں کشمیریوں کو اشک صاف کرنے کے لئے صرف ٹشو پیپر ہی نہیں دینے ہوں گے کچھ اور بھی کرنا ہوگا۔