یہ سماج عام اور خاص کی تقسیم پر مبنی ہے۔ہم پھلوں کی دُکان پر دیکھتے ہیں کہ اُوپر بہت ہی اچھے اورتازہ جبکہ نیچے’’ ایسے ویسے ‘‘پھل پڑے ہوتے ہیں ۔گاہک کو اچھے اور تازہ پھلوں کا جھانسا دے کر’’ ایسے ویسے‘‘ فروخت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یوں خاص کے دھوکے میں عام کا سودا ہوتا ہے۔یہاں کے جمہوری و غیر جمہوری نظام ،جو انسانوں پر مسلط رہے ،میں’’عام‘‘کا سوداہوتارہا۔خاص کو اپنی’’ چمک‘‘ کا احساس ہواتو اُس نے اس کا ہردَور میں فائدہ اُٹھایا،عام ،خاص کی چمک پر قربان ہوتارہا۔مُرورِ ایام کے ساتھ سماج میں عام اور خاص کی تقسیم مضبوط ہوتی گئی۔پھر یوں ہوا کہ جیسا عام انسان ،ویسی اُس کی زندگی ،ویسے خواب، ویسی خواہشیںاور ویسی موت۔جیسا خاص انسان ،ویسی اُس کی زندگی،ویسے خواب ، ویسی خواہشیں اور ویسی موت۔ عام انسان مشکل اور جدوجہد سے عبارت زندگی جیتا ہے ،خاص انسان سہولت سے زندگی جیتا ہے۔عام آدمی کے خواب ڈرائونے ہوتے ہیں ،کبھی خواب دیکھتا ہے کہ پیچھے سانپ پڑے ہوئے ہیں اور وہ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے ،مگر قدم آگے کی طرف اُٹھ نہیں پاتے۔کبھی خواب دیکھتا ہے کہ پانی میں ڈوب رہا ہے ،ہاتھ پائوں مارتا ہے ،مگر ڈوبتا ہی چلا جاتا ہے۔خاص آدمی کے پیچھے سانپ کیوں پڑیں گے؟وہ پانی میں کیوں ڈوبے گا؟ ایک عام آدمی نے مجھے بتایا ’’ میری ماں مری،یہ پورے اُنیس برس کی بات ہے۔مگر آج بھی وہ جب خواب میں آتی ہے تو کہتی ہے کہ میری دوائیاں ختم ہو چکی ہیں اور مَیں یہ سن کر جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوں ،مگر خالی جیب ہاتھ کاٹ لیتی ہے ،ہاتھ باہر نکالتا ہوں تو اُنگلیوں سے خون رِس رہا ہوتا ہے‘‘عام آدمی کی خواہشیں کیا ہوسکتی ہیں ؟ یہ خواہشیں بھی ضرورتوں کی تکمیل کی خواہشیںہی تو ہوتی ہیں۔ خاص آدمی کی خواہشیں، اقتداراور طاقت کے بے پایاں حصول پر مبنی ہوتی ہیں۔عام آدمی کی موت غیرطبعی جبکہ خاص آدمی طبعی موت پاتا ہے۔عام آدمی کے پیٹ میں عام سادرداُٹھے تو مرجاتا ہے ،خاص آدمی کینسر پر بھی قابو پالیتا ہے۔عام آدمی ہر اُس بیماری سے مرجاتا ہے ،جس کاعلاج معمولی پریکٹیشنر کے پاس ہوتا ہے ،عام آدمیوں کی عام مائیں سرکاری ہسپتالوں کے ٹھنڈے فرش پر اُنہیں جَنتی ہیں ،جبکہ خاص آدمی کا علاج اپنے ملک کے مہنگے ہسپتالوں میں ممکن نہ ہوتو وہ ایئرایمبولینس کے ذریعے لندن کے مہنگے ہسپتال میں پہنچ کر اپناعلاج ڈھونڈلیتا ہے۔کوئی مجھے بتاسکتا ہے کہ یہاں،جہاں ہم رہتے ہیں ،ملک کے معرضِ وجود میں آنے سے اب تک ، خاص آدمی نے طبعی عمر نہ پائی ہو،تاآنکہ کوئی حادثہ پیش آیا ہو،جبکہ عام آدمی معمولی بیماری سے چل نہ بسا ہو؟کوئی مجھے بتاسکتا ہے؟کوئی ایک مثال کوئی ایک واقعہ؟جبکہ مَیں بتاسکتا ہوں کہ ہزاروں ،لاکھوں ،کروڑوں عام آدمی اپنی طبعی عمر کو نہ پہنچ پائے۔ عام و خاص کی سو چ پر مبنی ایک چھوٹا ساواقعہ ملاحظہ کریں۔گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت میں ایک نوجوان خاتون کوپولیس اہلکار نے روکا اور اپنی گفتگو میں پنجابی کے ایک آدھ لفظ کا سہارا لیا،خاتون غصے سے بھڑک اُٹھی ،اُ س کا کہناتھا کہ پویس اہلکار کو مجھ سے اچھی (خاص)زبان میں بات کرنا چاہیے تھی۔انسان عام و خاص ہوئے تو زبانیں بھی عام و خاص ہوئیں،فرقے اور ذاتیں بھی عام و خاص ہوئے،نام و نسب بھی عام وخاص ٹھہرے۔ یہاں خاص انسانوں کے نام ، گھراور علاقے خاص۔ عام انسانوں کے گھرگندے نالوں پرجھونپڑیوں کی صورت،کچی آبادیاں ،بے نام علاقے اور بے نام شاہراہیں۔یہاں وفاقی دارالحکومت کے پوش ایریا میں ،مَیں دیکھتاہوں کہ پارک ساف ستھرے درآمدشدہ مہنگے درختوں سے بھرے ہوئے ،جبکہ عام سیکٹرز اور کچی آبادیوں کے اردگردپارک اُجڑے ہوئے،مقامی درختوں کے وجود سے بھی تہی۔جس طرح عام آدمی ،کسی بڑے ہوٹل میں گھسنے کی جرأت نہیں رکھتا،اسی طرح خاص آدمی مکھیوں بھرے ہوٹل پر ایک لمحہ گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ جہاں دن رات کئی انسان گندہ پانی ،گندہ کھانااپنے معدوں میں اُتارتے ہیں۔یہی ہماری ثقافت ہے۔ یہاں کبھی کبھار مَیں اپنی بیوی کے ساتھ اُن کے خاص رشتہ داروں کے گھرجاتا ہوں تو وہ چائے پانی پر ہزاروں خرچ کرڈالتے ہیں ،جبکہ عام آدمی ایک کپ اچھی چائے کو بھی بعض مرتبہ ترستا ہے۔ایک میرے جیسے عام آدمی نے مجھے ایک عرصہ پہلے بتایا تھا’’میری بے روزگاری کے دِن تھے،چائے اور سگریٹ تک کے پیسے نہیں ہوتے تھے،اُس دوران مَیں لمبی واک کرتا تھا،ایک دِن عصر کے وقت واک کے دوران ایک بھٹہ ،جو میرے گھر سے چھ سات کلومیٹر دُوری پرتھا،کے پاس سے گزرا تو محلے کا ایک بندہ اینٹیں تھاپ رہا تھا۔اُس نے مجھے دیکھ کر آواز دی ،مَیں سلام دُعا کے لیے رُک گیا،اسی اثناء میں اُس کی بیوی چائے کی چینک لے کر آگئی اور ایک پیالی مجھے بھی آفر کی گئی ،مجھے چائے کی شدید طلب تھی،اس موقع کو غنیمت جانا اور نہ نہ کرتے ایک پیالی لے لی۔چائے پینے کے بعد اُس بھٹہ مزدور نے سگریٹ سلگایااور ایک میری طرف بھی بڑھادیا۔مَیں جی اُٹھا۔پھر یوں ہوا کہ مَیںنے روزانہ اُدھر سے گزرنا شروع کردیااوروہ مجھے دُور سے آوازدے کر چائے اور سگریٹ کے لیے روک لیتا۔مَیں رُک جاتا‘‘ عہدِموجود کے عظیم تخلیق کار ،محبت کے والہانہ مگر اُداس گیت لکھنے والے جناب افتخار عارف جو ایک روز’’ماتلدے اُروتیا‘‘کے ساتھ گاڑی میں پابلونیردوا کے شہرسے گزررہے تھے۔ایک اشارے پر گاڑی رُکی اور اخبار بیچنے والے چند بچے لپکے،’’ ماتلدے اُروتیا‘‘نے ایک بچے سے اخبار خریدا۔ شاعر نے دیکھا، ایک بچہ دُور کھڑا رُورہا ہے،پاس بُلایا ،رونے کی بابت پوچھا،بچہ بولا’’میراقد چھوٹا ہے، گاڑی کے شیشے تک پہنچ نہیں پاتا،یوں اخبار بیچ نہیں پاتا‘‘شاعر اُ س سے سارے اخبار خرید لیتا ہے۔محبت گاڑی میں پڑی رہ جاتی ہے۔ اس واقعہ کو برسوں بیت گئے،مگر گزشتہ روز،جب آسمان میں بادل تھے،بادل زمین کی اُور بارش اُچھال رہے تھے، یہ واقعہ مجھ عام آدمی تک پہنچا۔ اور پھر افتخار عارف رُو دیے۔بارش جاری رہی،جاری ہے۔