امریکی ایوان نمائندگان میں ایغور حقوق انسانی پالیسی ایکٹ 2019 کی منظوری کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکہ اور چین کے مابین کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کا یہ فیصلہ عالمی سطح پر حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور عالمی میڈیا کے ان متواتر الزامات کے بعد سامنے آیا جن کے مطابق چینی حکومت ایغور مسلم برادری پر ظلم و ستم اور ان کے انسانی حقوق کی پامالی کررہی ہے۔ البتہ چین ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔ چینی حکومت کے مطابق اس امریکی اقدام کی نوعیت سیاسی ہے جس کا مقصد عالمی دنیا میں چین کو بدنام کرنا ہے۔ چین کے مطابق وہ اپنے ملک میں موجود برادریوں کو سماج کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لئے انسداد انتہاپسندی کا منصوبہ چلائے ہوئے ہے۔چینی کیمونسٹ پارٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ریاستی حکمت عملیوں کا بنیادی محرک ’’ہم آہنگی‘‘ ہے جسے بیلٹ اینڈ روڈ پہلکاری کے تصور میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہم آہنگی یا ہم آہنگ ہونے کے تصور کو متواتر جمہوری عمل کے متبادل کے طور پر بھی لیا جا سکتا تھا لیکن یہ تعلیم نو کی حکمت عملی سمیت قانون سازی اور انتظامی اصلاحات کے محرک کی صورت سامنے آیا ہے۔ تاہم چین ابھی تک بھی اپنی مذہبی اور نسلی برادریوں کو ہم آہنگ بنانے کے مؤثر ضابطہ کار کو وضع کرنے کی کوشش میں ہے۔اگرچہ چینی حکام کو ایسا لگتا ہے کہ وہ سیاسی و ثقافتی سطح پہ کایا پلٹنے کے اپنے منصوبے کے اہداف حاصل تو کرلیں گے تاہم وہ عالمی سطح پر چینی شبیہہ کے متعلق تشویش کا شکار ہیں۔ امسال چینی حکام نے اس منصوبے سے متعلق عالمی تصور کو بدلنے کے لئے کاشغر میں قائم تعلیم نو کے ایک مرکز کو دنیا بھر کے سفارتکاروں، صحافیوں اور ماہرین تعلیم کے دورے کے لیے کھولا تھا۔ تاہم اس اقدام نے عالمی معائنہ کاروں کو زیادہ متاثر نہیں کیا۔ اگرچہ یہ مرکز اس تصویر سے بہت مختلف تھا جو عالمی میڈیا میں ایسے مراکز سے متعلق بنی ہے۔ چینی حکام نے اس طرح کے مراکز کے بارے میں درست تعداد نہیں بتائی تاہم عالمی میڈیا میں کہا جارہا ہے کہ اس نوعیت کے کم ازکم 85 مراکز ملک بھر میں قائم کیے گئے ہیں جن میں سے اکثر سینکیانگ میں واقع ہیں۔انسداد انتہاپسندی کے چینی ضابطہ کار کا ایک شعبہ انتہاپسند بیانیے کے تدارک کے لیے متعین کیا گیا ہے جس کی وجہ سے مسلم برادری کی ایک نئی نسلی و ثقافتی شناخت جنم لے رہی ہے۔ وہ سینکیانگ اور چین میں مسلم تاریخ کی تعبیر نو کررہے ہیں۔ معائنہ پر آئے ہوئے مہمانوں کو جو کتابیں اور کتابچے دکھائے گئے ان کے مندرجات کے ذریعے چینی مؤرخین اور دانشور خطے کے مسلمانوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ وہ ہزاروں سال سے چینی تہذیب کا حصہ ہیں۔ ثقافتی انضمام کی یہ پرزور کوشش اِس کثیر الجہت منصوبے کا حصہ ہے۔ ایک کتابچہ جس کا عنوان ’’سینکیانگ کے متعلق تاریخی حقائق‘‘ ہے اور جسے سال 2019ء میں ریاستی کونسل برائے دفتر اطلاعات نے شائع کیا وہ اس تصور کو رد کرتا ہے جس کے مطابق سینکیانگ کو مشرقی ترکستان کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس میں درج ہے کہ ایسی کوئی ریاست کبھی موجود نہیں تھی۔ ایک اور کتابچے کے مطابق جو کہ حکام کی جانب سے دیا گیا ہے بیسویں صدی کے آغاز میں ’’پان ترک ازم اور پان-اسلام ازم‘‘ جیسی اصطلاحیں سینکیانگ میں داخل کی گئیں اور چین کے اندر اور باہر موجود علیحدگی پسندوں نے ان اصطلاحوں کے ذریعے خطے کے جغرافیے کی سیاسی تفہیم کی اور اس کے ذریعے خطے میں آباد تمام برادریوں (مسلمانوں) کو اکسایا کہ وہ مشرقی ترکستان کے نام سے ایک مذہبی ریاست کے قیام کے لیے جدو جہد کریں۔ چینی حکام کے مطابق ایغور برادری اور دیگر چینی حکام کے مابین لسانی رکاوٹیں ختم کرنے کے لیے ان مراکز میں چینی زبان کی تعلیم لازمی ہے۔ اس سرگرمی کا ایک غیرمعمولی پہلو حکام کی جانب سے مقامی چینی خصوصیات کا حامل اسلام متعارف کروانے کی انہی بنیادوں پرکوشش ہے جن بنیادوں پر وہ چینی خصوصیات کے حامل اشتراکی نظام کی تربیت فراہم کرتے رہے ہیں۔ ان مقاصد کے لیے بیجنگ حکومت نے اسلامی مراکز قائم کئے ہیں جہاں ائمہ یا نماز پڑھانے والوں کی تربیت کی جاتی ہے تاکہ وہ چینی خصوصیات کے حامل اسلام کی تعلیمات پھیلا سکیں۔ ان اسلامی مراکز میں مذہب کی تعلیم کے علاوہ چینی زبان، تاریخ ، ثقافت، قانون اور دستور کی تعلیم لازمی ہے۔ ان مراکز کو دیگر مسلم دنیا میں قائم اسلامی مراکز سے تعاون کی اجازت نہیں ہے۔ ارومچی میں قائم ایک ایسے مرکز کے سربراہ نے وضاحت کی کہ مسلم ممالک میں قائم مذہبی درسگاہوں میں مذہبی تعلیم پر زور دیا جاتا ہے اور وہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہوتے ہیں لیکن چین میں قائم اسلامی مراکز نے اشتراکی اقدار کو قبول کرتے ہوئے مذہب، حب الوطنی اور سماجی انضمام میں ہم آہنگی قائم کی ہے۔ ایک کتابچہ جسے ریاستی کونسل برائے دفتر اطلاعات نے ’’سینکیانگ میں فنی تعلیم اور تربیت‘‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے اس معاملے پر چینی نکتہ نظر کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ انتہاپسند قوتیں ’’مسخ شدہ مذہبی قوانین اور مقامی بودو باش‘‘ کے تحت ملکی آئین اور قوانین کو پامال کرتی ہیں۔یہ صورتحال دلچسپ ہے کہ جب تمام دنیا میں نسلی برتری، انتہاپسندانہ حب الوطنی اور نسل پرستی عروج پکڑ رہی ہے چین نے اپنی طرز کے ’’ہم آہنگ سماج‘‘ منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ اپنی اصل میں یہ تصور عالمی سطح کے رواج کی نفی ہی سہی تاہم اس کے مقاصد بھی وہی ہیں اور اس میں تنوع اور تکثیریت کے لئے زیادہ گنجائش موجود نہیں ہے۔