لیجئے جناب ایک اورضمنی الیکشن کا نتیجہ سامنے ہے ۔خوشاب والوں نے بھی اپنی خوشی اپنی مرضی واضح کر دی کراچی کے حلقے این اے 249کے برعکس یہاں کپتان کی ٹیم نے اچھا مقابلہ کیا۔پنجاب اسمبلی کی نشست پی پی 84کی یہ نشست ن لیگ کے ملک وارث کلو کے پاس تھی ا ن کے انتقال کے بعدن لیگ نے ان کے بیٹے ملک معظم کلوکو اپنا امیدوار بنا کر ضمنی انتخاب کے میدان میں اتارا ،یہاں 2018کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے اچھے ووٹ لئے تھے۔ جیتنے والے ملک معظم کلو کے 66775ووٹوں کے مقابلے میں سردار شجاع محمد خان نے 60288ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس بار کپتان نے سردار حسین علی خان بلوچ کو میدان میں اتارا ،تجزیئے یہی کہتے ہیں کہ ضمنی انتخاب میں آدھا انتخاب حکومت وقت کاامیدوار کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہی جیت لیتا ہے ۔یہاں توپھر سردار حسین علی خان کے پیچھے بزدار صاحب کی صوبائی اور وفاق کی حکومت کی تھپکی تھی گذشتہ عام انتخابات میںپی ٹی آئی یہ نشست 6487ووٹوں سے ہار گئی تھی لیکن اب اور تب میں بڑا فرق ہے تحریک انصاف صوبے اور مرکز میں حکمران ہے،بلوچ صاحب کو زیادہ محنت کی ضرورت نہیں تھی خوشاب میں تمام امیدواروں نے بنا کسی ناخوشگوار واقعے کے اپنی انتخابی مہم چلائی اور اس ضمنی انتخاب کی مہم کو پانچ مئی پولنگ کے دن تک لے آئے،229پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالے گئے شام کے بعد ووٹوں کی گنتی ہوئی اور شروع ہی میں ن لیگ آگے بڑھتی دکھائی دی۔ تحریک انصاف نے تیزی سے اسکا تعاقب کیا لیکن آگے نہ بڑھ سکی ،یہ میدان بھی مسلم لیگ ن نے دس ہزار ووٹوں سے مار لیا ۔خوشاب کے نتائج میں نوٹ کرنے والی بات ن لیگ کی جیت کا مارجن ہے ۔عام انتخابات میں لگ بھگ ساڑھے چھ ہزار ووٹوں سے جیتنی والی جماعت جو اب پنجاب اور وفاقی حکومت میں اپوزیشن بنچوں پر ہے نے، عام انتخابات کے مقابلے میںدس ہزارسے زائد ووٹوں سے کامیابی حاصل کی زیادہ حاصل کی جبکہ عام انتخابات میںدونوں جماعتوں میں یہ فرق 6487 کا تھا جو اچھا خاصا بڑھ گیا،آپ خوشاب ،ڈسکہ ،مردان اور کراچی کے ضمنی انتخابات کے نتائج پر ایک نظر ڈالیں،پی ٹی آئی کی مسلسل شکست سے صاف لگ رہا ہے کہ اسکے لئے خطرے کا الارم بج چکا ہے یہ محض چار حلقوں کے نتائج نہیں بلکہ کپتان کے سونامی کے تھم جانے کا پیغام ہے،ان حلقوں میں پی ٹی آئی کی مخالف جماعتوں کا ہوم ورک اپنی جگہ لیکن حکمران جماعت کی شکست میں بنیادی کردار’’ حکومت مخالف ووٹوں‘‘ کا ہے سچ یہی ہے کہ ملکی تاریخ کی ریکارڈ مہنگائی نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے ،۔بجلی کی قیمتیں کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہیں،آٹا چینی دالوں کے نرخ ہی دیکھ لیں ادارہ شماریات کی پانچ دن پہلے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے مہنگائی کی شرح 16 اعشاریہ 69تھی ،فروری میں مہنگائی کی ماہانہ شرح 8اعشاریہ 7فیصد تھی جو مارچ میں 9اعشاریہ 1فیصدتک جا پہنچی اوراپریل میں یہ دوہرے ہندسے لے کر 11اعشاریہ 1فیصد پر کھڑی ہمارے سینوں پر مونگ دلتی رہی ، مشیر نجانے کیا بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم کی پیشانی پر شکن تک دکھائی نہیں دیتی۔ وہ تسبیح کے دانے پھیرتے ملتے ہیں، ضمنی انتخابات کے یہ نتائج سرگوشی نہیں اعلان کر رہے ہیں کہ اپوزیشن سے بڑا خطرہ مہنگائی ،بے روزگاری اور کورونا کی وبا ہے حالات نے حکومت کی مقبولیت تیزی سے گھٹائی ہے ۔ اس پر مستزاد حکومت کے نہ سمجھ میں آنے والے فیصلے ،کپتان کے رومانس میں مبتلایار لوگ کچھ بھی کہیں، کچھ بھی سمجھیں لیکن جو خلق خدا کہہ رہی ہے اس پر بھی کان دھریں۔ معاملہ یہ ہے کہ پانچ روزہ ٹیسٹ میچ میں سے دو دن کا کھیل ہو چکا تیسرے دن کا کھیل جاری ہے اور تبدیلی الیون کے کپتان صاحب فیلڈر پر فیلڈر بدل رہے ہیں۔جناب کبھی سلپ میں تین فیلڈر لگاتے ہیں کبھی ایک فیلڈر گلی میں کھڑا کردیتے ہیں انہیں یہ حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کی فیلڈنگ لگائیں۔ بے شک جارحانہ انداز اپنائے لیکن پھر گیند فاسٹ بالر کے بجائے لیگ اسپنر کو تھما نے کی کیا منطق! ظاہر ہے اس بے تکی فیلڈنگ اور غلط فیصلوں کا فائدہ پچ پر کھڑے بلے باز ہی اٹھائیں گے ۔ ایک طرف گھمبیرحالات ،ہچکولے کھاتی معیشت ،سفارتی سطح پرکھڑی پے درپے مشکلات اور کورونا کی وبائی صورت حال ہے اور دوسری جانب کپتان کے ختم نہ ہونے والے تجربات ہیں ،ملک کو تجربہ گاہ بنا دیا گیا ہے،وزیر اعظم کے فیصلوں کی کسی کو سمجھ نہیں آرہی شاید انہیں بھی نہیں آرہی ،آج تک یہ معمہ نہیں کھل سکا کہ چار وزرائے خزانہ کی آمد و رخصت کی وجہ کیا تھی ،کپتان آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئے ؟ وہ فیصلہ درست تھا تو آئی ایم ایف کے پاس لے جانے والے حفیظ شیخ کو ہٹایا کیوں گیا ؟ ان کی جگہ آنے والے وزیر خزانہ نے قلمدان سنبھالنے سے پہلے ہی آئی ایم ایف کے معاہدے پر کڑی تنقید کرکے درحقیقت حکومت کے اس بڑے فیصلے کو رد کردیا تھا ،اب شوکت ترین کہہ رہے ہیں کہ شرح نمو پانچ فیصد تک نہ پہنچی تو سمجھیں کہ گئی بھینس پانی میں اس فیصلے کو جانے دیں یہ راز بھی نہیں کھلا کہ فواد چوہدری کی فیلڈنگ کون سا کیچ چھوڑنے کی پاداش میں تبدیل کی گئی تھی،کہاں وزارت طلاعات اور کہاں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور پھر دوبارہ سائنس و ٹیکنالوجی سے وزارت اطلاعات ۔۔۔یہ معمہ حل طلب ہے کہ انہیں کس بات پروہاں سے ہٹایا گیا اور پھر انکی وہاںغیر موجودگی میں ا ن کی ایسی کون سی خوبی کا انکشاف ہوا کہ انہیں دوبارہ وزارت اطلاعات کی جھنڈے والی کار دے دی گئی ،یہ فیصلے اپنی جگہ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عوام کو ان تبدیلیوں سے دلچسپی نہیں ،انہیں تو مہینے کا بیس کلو آٹا، چار کلو چینی ،پانچ کلو گھی اورایک ایک کلو دال کا راشن چاہئے اوریہی کچھ تو ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے پھر وہ سر پرکیوں بٹھائیں،آ پ کی مہنگائی گرانی افراط زر نے انہیںدیوار سے لگا دیا ہے تو وہ آپ کو دیوار کے سائے میں بٹھا کر مورچھل جھلیں گے ؟ خوشاب والوں کا فیصلہ بھی ردعمل کا فیصلہ ہے ۔