ایک دن ہم نے ایسے ہی بیٹھے بٹھائے اپنے محبوب گھر پہ نظر کی تو دیکھا کہ اس کے در و دیوار پہ اداسی اور ویرانی دونوں بغیر بال کھولے سو رہی ہیں۔ گھر جب مَنّتوں مرادوں سے حاصل کیا گیا ہو،اس کی ایک ایک اینٹ اور گارے میں آپ کا خون پسینہ شامل ہو تو اُس کے سُونے اور بنجر پن پہ دل کا بھر آنا تو یقینی ہے ناں! سوچا، جانے اس خوبصورت اور بے مثال گھر کو کس کی نظر لگ گئی ہے کہ اس کے ایک ایک گوشے سے وحشت ٹپک رہی ہے، ایک ایک کونے میں اُلّو بول رہے ہیں۔مسئلہ چُونے سفیدی یا بیرونی مرمت اور معاملات کا ہوتا تو اپنے لالہ بسمل کے پاس اس کے ایک سو ایک حل ہیں، لیکن یہ تو اندرونی ٹوٹ پھوٹ تھی، اس کے لیے تو کسی گھر کے بھیدی سے معاونت درکار تھی۔ایسا بھیدی جو نہ صرف لنکا ڈھانے اور ڈنکا بجانے سے گریز کرے بلکہ بدخواہوں سے نمٹنے کا ہنر بھی جانتا ہو۔ چنانچہ بہت سوچ بچار کے بعد کُرہ اس گھر کی مبیّنہ خیر خواہ یعنی اپنی چہیتی بیگم صاحبہ کے نام نکلا۔ہم نے سوچا یہ کون سا اکیلا میرا نقصان ہے، یہ تو پورے کنبے کا دردِ سر ہے، اس لیے اس بات کا قوی اِمکان تھا کہ گھر کی یہ مُنصف چار و ناچار اِس گھر ہی کی خیرخواہی چاہیں گی، چاہے اس کے عزیزوں، رشتے داروں نے ہی اس گھر کی یہ حالت کی ہوگی۔ بقول شاعر: ؎ دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے سیانے کہتے ہیں کہ کبھی کبھار تو کٹھور سے کٹھور انسان کے منھ سے بھی سچ اور حق بات نکل ہی جاتی ہے۔کبھی نہ کبھی تو بے حس سے بے حس آدمی کا ضمیر جعفری بھی جاگ اٹھتا ہے۔ وہ انصاف دے نہ دے سچا فیصلہ سنانے میں تو کوئی امر مانع نہیں ہوتا۔زر واپس ملے نہ ملے، شر کا قلع قمع تو یقینی ہو جاتا ہے۔ اشک شوئی کرے نہ کرے آنسوؤں کا ذائقہ تو پہچان لیتا ہے، پلّے سے کچھ دے نہ دے چور، بدمعاش، اُچکے کی نشان دہی تو کر دیتا ہے، امید تو دلا دیتا ہے، ڈھارس تو بندھا دیتا ہے، بقول شاعر: ؎ امید تو بندھ جاتی ، تسکین تو ہو جاتی وعدہ نہ وفا کرتے ، وعدہ تو کیا ہوتا لیکن یہ کیا ؟ محترمہ تو رُتبۂ بلند عطا ہوتے ہی ہتھے سے اکھڑ گئیں۔ایک دم جست لگا کے گھر کے سب سے قیمتی صوفے پہ جا براجمان ہوئیں اور ارشاد ہوا: ’’دیکھو میاؤں ہوشیارپوری! ‘‘ (گویا وہ ایک پل میں میاں سے میاؤں پہ اتر آئی۔ کبھی کبھار لوگوں کی زبانی سنا کرتے تھے کہ: ہماری بلی، ہمی کو میاؤں!! آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔) ’’جب تک ہم اس عہدے پر فائز ہیں، تم پہ ہمارا احترام ہر حال میں واجب ہے! … اور یاد رکھو! اس دوران گھر کے جملہ امور بھی تم کو سنبھالنے ہوں گے!!‘‘چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق سرِ تسلیم خم کر دیا… اختیارات کی گیدڑ سنگھی ہاتھ میں آتے ہی عدالت بیگم نے وزیرِ خزانہ، عرفِ عام میں جسے شوہر وغیرہ کہا جاتا ہے، کی چھاتی پر مونگ، ماش، مسور اور نہ جانے کیا کیا دلتے ہوئے سب سے پہلے اپنے ذاتی ماہانہ جیب خرچ میں اپنے ہی دستخطوں سے ہوش ربا قسم کا اضافہ فرمایا۔پھر بہ یک جنبشِ قلم جملہ گھریلو ذمہ داریوں سے خود کو یوں آزاد کیا جیسے عام لوگ سڑک کنارے کھڑے ہو کر دس دس روپے والی چڑیاں آزاد کرتے ہیں۔مختصر یہ کہ اپنے تازہ تازہ اختیارات کی دکان پہ نانا جی کی دل پشوری قسم کی فاتحہ دلوا چکنے کے بعد ہم سے یوں مخاطب ہوئیں: ’’ دیکھو جی! اس وقت توہمارے دوپہر کے آرام کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ ‘‘ ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ محترمہ ابھی ساڑھے گیارہ بجے خوابِِ خرگوش سے بہ مشکل بے دار ہوئی تھیں اور اس وقت گھڑی بقول مشتاق احمد یوسفی، کسی ہشاش بشاش آدمی کی مونچھوں کی طرح دو بج کر دس بجا رہی تھی۔ایسی صورتِ حال میں وہ فلمی ڈائیلاگ ہماری زبان پر آتے آتے رہ گیا کہ ’’ صاحب بہادر ! جرم چوبیس گھنٹے تے عدالت چھے گھنٹے! ایہہ کتھوں دا انصاف اے!!‘‘ کہ ارشادِ عالیہ کا سلسلہ مزید دراز ہوا۔ ’’بھول نہ جانا ، شام کو ہمیں شاپنگ، فلم اور گرینڈ ڈنر کی خاطر تیار ہونے کے لیے پارلر بھی جانا ہے۔ اور ہاں! مجھے تمھارا چہرہ کب سے سوالیہ نشان جیسا لگ رہا ہے۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو ترنت بیان کر دو، عدالت کو اور بھی بہت سے کام ہوتے ہیں… مَیں نے اکثر دیکھا ہے کہ تم جیسے لکھاری ٹائپ لوگ اور ضرورت سے زیادہ ہوشیار شوہر ، لوگوں کے سامنے خواہ مخواہ مظلوم بننے کے لیے اسی گھسی پٹی کہاوت : Justice delay, Justice deny کا سہارا لیتے ہیں… بندہ پُچھے…!!‘‘ اگلے کئی روز تک عدالت بیگم کی جانب سے اسی طرح کے معمولات کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔ ہم بھی یہ آنیاں جانیاں دل پہ پتھر رکھ کے ملاحظہ کرتے رہے۔ پھر ایک دن عدالت بیگم کا موڈ اور مناسب وقت دیکھ کے ہم اپنا مدعا زبان پر لے ہی آئے کہ: ’’محترمہ ! اب اگر اللہ کی عطا اور ہماری رضا سے تمھیں عزت، وقار، اعتبار اور بھاری ذمہ داری والا یہ قلم دان نصیب ہو ہی گیا ہے۔ عدل کے اعلیٰ معیار کا تقاضا بھی یہی ہے کہ حساب و احتساب کا یہ عمل پہلے اپنے گھر سے شروع کرو۔ ‘‘یہ سن کر وہ ایک دم ہتھے سے اُکھڑ گئی، کہنے لگی: ’’اس بارے میں تو مَیں پہلے ہی رات سے بلکہ کئی روز سے سوچ رہی ہوں کہ میرے کسی رشتے دار کی ترقی و خوشحالی یا حالات کی تبدیلی تمھیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔کبھی فرصت میسر ہو تو اس بات پہ بھی ٹھنڈے دل سے غور کرو کہ خود ساری عمر جوتیاں گھس گھس کے بہ مشکل ایک ۶۶۰ سی سی کار خرید پائے ہو۔لوگوں کو بڑے فخر سے اور منھ بھر بھر کے اپنا انیسواں، بیسواں سکیل بتاتے ہو، ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ چکے ہو لیکن اپنے اور عام آدمی کے رہن سہن میں انیس بیس کا فرق بھی پیدا نہیں کر سکے۔اب اگر کسی وجہ سے یا ان کی دن رات کی کوششوں سے میرے اعزہ و اقربا کے وارے نیارے ہو ہی گئے ہیں تو ہاتھ دھو کے ان کے پیچھے پڑ گئے ہو!! تمھارا کیا خیال ہے کہ میرے یہ پیارے بھی تمھاری طرح ترس ترس کے آٹھ دس مرلے کے گھر میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کے، لوگوں سے جھگڑ جھگڑ کے یہی معمولی ریکٹر سکیل والی زندگی گزار دیں… تمھاری طرح اگلی نسلوں کے لیے وہ بھی دھکے، ٹھوکریں اور بے آرامی چھوڑ کے چلے جائیں !!!‘‘عدالت محترمہ ابھی پوری طرح جلال میں تھیں کہ چھوٹی بیٹی نے ایک دم لقمہ دیا۔ ’’امی امی! منصف بنو، پٹوارن نہ بنو۔‘‘ یہ سنتے ہی محترمہ ایک دم طیش میں آ گئیں اور جلدی میں میرزا غالب کا ایک معروفِ زمانہ شعر اپنے ابا جی کے نام سے سنا کر اپنے ذاتی بیڈ روم میں چلی گئیں… مختصر یہ کہ محترمہ اگلے ہی دن اپنا بوریا بستر سمیٹ کر اور بظاہر روٹھ کر میکے سدھار گئیں…آخری خبریں آنے تک وہ اپنی ہم جولیوں کے ہمراہ دبئی چوک کے ایک روشنیوں والے ہوٹل میں رنگ رلیاں مناتی پائی گئیں ہیں!!!!!