گینگ،ٹولہ،مافیا، کرپٹ ، سہولت کار،رشوت خور۔نہ جانے سپریم کورٹ کے ججز کے لیے کیا کیا کہہ دیا گیا ہے ۔گناہ ان ججز کا صرف یہ ہے کہ وہ آئین کے مطابق نوے دن میں انتخابات چاہتے ہیں۔ چند ماہ پہلے جب لاہور ہائیکورٹ کے جج جواد الحسن نے نوے دن کے اندر انتخابات کا حکم دیا تھا تو بھی عدالت کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر دیا گیا تھا۔ لاہورہائیکورٹ کو داماد ہائیکورٹ کہہ کر پکارا گیا تھا۔حالانکہ یہی ہائیکورٹ نواز شریف کو پچاس روپے کے سرکاری کاغذ پر کرائی گئی یقینی دہانی کے عوض باہر جانے کی اجازت دینے کے علاوہ مریم نواز کی پاسپورٹ واپسی، رانا ثنا اللہ،خواجہ آصف سمیت کئی رہنمائوں کی ضمانتیں دے چکی ہے۔ تب یہی لاہور ہائیکورٹ مسیحا تھی مگر نوے روز کے اندر انتخابات کا حکم دیا تو یہی عدالت داماد ہائیکورٹ بن گئی۔ قومی اسمبلی کے اندر پارلیمان کی بالادستی کے نام پر ایک طوفان برپا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 68کے تحت سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کو پارلیمان کے اندرزیر بحث نہیں لایا جا سکتا مگر یہاں ججز کو رگیدنے کا سلسلہ پورے طمطراق کے ساتھ جاری ہے۔اعلان کیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے آگے نہیں جھکیں گے۔ اپنے وزیر اعظم کی قربانی نہیں دیں گے،عدالت کا فیصلہ نہیں مانیں گے، ججز سے حساب مانگیں گے، پارلیمان کی کارروائی کی رپورٹ سپریم کورٹ کو نہیں دیں گے۔الٹا سپریم کورٹ کی کارروائی کی رپورٹ پارلیمان میں طلب کریں گے۔ یہی نہیں سپریم کورٹ کے ججز کو پارلیمان کی استحاق کمیٹی میں بلاکر سرزنش کی جائیگی کہ ان کی وجہ سے پارلیمان کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔ قومی اسمبلی کی ایک سب سے اہم کمیٹی ہے جسے پبلک اکائونٹس کمیٹی کہا جاتا ہے ۔ اس کمیٹی کی سربراہی تحریک انصاف کے ایک منحرف رکن نور عالم خان کرتے ہیں ۔ موصوف نے سپریم کورٹ کے دس سالہ آڈٹ کا اعلان کیا ہے اور اس سلسلے میں رجسٹرار سپریم کورٹ کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہوں اور مراعات کا موازنہ ارکان پارلیمنٹ اور وزرا کی تنخواہوں اور مراعات سے کیا جائے۔ نور عالم خان نے یہ بھی فرمایا کہ اگر ان کے اس آرڈر کے خلاف حکم امتناعی آیا تو وہ دوبارہ ایسا ہی حکم جاری کریں گے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ ایسے تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔مہذب معاشروں میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پہ عملدرآمد نہ ہونے کا کوئی تصور بھی کیسے کر سکتا ہے۔عدالت کو اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کا چیلنج درپیش ہے۔14 مئی کو انتخابات ہونے ہیں یہ فیصلہ ابھی تک فیلڈ میں ہے، اس فیصلے کو ابھی تک ہٹایا نہیں گیااور حکومت واضح اعلان کر چکی کہ 14 مئی کو انتخابات نہیں کرائے گی۔ آج ساڑھے گیارہ بجے سپریم کورٹ میں اسی مقدمے کی پھر سماعت ہونے جا رہی ہے۔ کیا عدالت عظمی ایک اور تاریخ دے کر اسی نوعیت کا تیسرا فیصلہ دینے جا رہی ہے۔ اور کیا ایسا کرنے سے عدالت کا مزاق نہیں بن جائے گا کہ ہر بار اپنی حکم عدولی پہ وہ نئی تاریخ دے دیتی ہے۔یوں بھی حکم عدولی کرنے والوں کا حوصلہ بڑھ چکا ہے۔یقینا ان کے ذہن میں ہو گا کہ تین بار حکم نہ مان کر جب کچھ نہیں ہوا تو چوتھی بار کیا ہو جائے گا۔ اور ہو بھی جائے توبھی کیا فرق پڑتا ہے۔ حکومتی جماعت تہیہ کیے بیٹھی ہے کہ اگر وزیر اعظم کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت میں سزا دے کر نا اہل بھی کر دیا تو بھی عدالت کا حکم نہیں مانا جائے گا اور وزیر اعظم اپنا چارج نہیں چھوڑیں گے۔ زیادہ تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی تاریخ ایسی بنیادوں پر استوار ہو رہی ہے کہ جس پر مستقبل کی عمارت کھڑی کرنا خطرناک ہو گا۔ اب آنے والی حکومتوں کے لیے مثال پیدا ہو گئی ہے کہ انہیں اگر الیکشن سوٹ نہیں کرتے تو وہ بہانہ بنا کر الیکشن میں نہ جائیں اور اگر عدلیہ آئینی مداخلت کرنے کے کوشش کرے تو اسے مخالفین کا عدالتی سہولت کار کہہ کر تضحیک کریں، انہیں استحقاق کمیٹی میں بلا کر سرزنش کرنے کے دھمکی دیں، ججوں کے درمیان پھوٹ ڈلوائیں اور گروپ بندی کا تاثر دیں۔ آئیندہ عدالت کا احترام نہ کرنے کا کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس اختیار ہو گا۔ اگر قتل کے ایک مقدمے میں کسی طاقتور کو سزائے موت سنا دی جائے تو حکومت ججز کو جانبدار یا کرپٹ کہہ کر اس سزائے موت پہ عمل نہ کرنے کا جواز رکھتی ہو گی۔ آپ سوچیے عدالت عظمی غیر موثر ہو کے رہ جائے گی۔ جب کسی ملک میں عدالت عظمی ہی غیر موثر ہو جائے تو نظام کیسے چلے گا۔ پچھلے چند ہفتے میں بہت سی نئی خطرناک روایات نے جنم لیا ہے۔ عدالت سے اپنی مرضی کے بینچ بنانے کی فرمائش ہو رہی ہے۔ عدالت کے خلاف قانون سازی ہو رہی ہے۔ اس متنازع قانون سازی کو ماننے کے لیے اصرار بھی ہو رہا ہے۔ ججز کو کھلے عام دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔کیا کبھی کسی نے ایسا دیکھا تھا کہ کمرہ عدالت سے باہر آ کر ایک سیاسی شخصیت احاطہ عدالت میں کھڑے ہو کر برملا کہے کہ وہ اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرے گاجس نے جو کرنا ہے کر لے۔ عدالتوں کے صبر کا امتحان لیا جا رہا ہے ۔ انہیں توہین عدالت کی کارروائی کرنے کے لیے اکسایا جا رہا ہے۔ کھیل کو اس جانب لے جایا جا رہا ہے جہاں بال کسی کے ہاتھ میں نہ رہے بلکہ کوئی اور ہی آ کے چارج سنبھال لے۔ ایسا جان بوجھ کے کیا جا رہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومتی جماعتیں اپنی شکست پر یقین کر لینے کے بعد یہ فیصلہ کربیٹھی ہیں کہ اگر ہم نہیں جیت سکتے تو پھر میدان تمہارے حوالے بھی نہیں کریں گے۔ لگتا ہے انہیں یہ تو قبول ہے کہ کوئی تیسرا آ کے میدان سنبھال لے لیکن یہ قبول نہیں کہ ان کا مخالف جیت کر میدان سنبھال لے۔