وزیر اعظم شہباز شریف نے ترکی کی متعدد کاروباری کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات میں انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کا کہا ہے۔ وزیر اعظم ترکی کے تیسری بار صدر منتخب ہونے والے رجب طیب اردوان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے برادر ملک میں تھے ۔ وزیر اطلاعات کے ٹویٹ سے پتہ چلا ہے کہ البیراک گروپ، دولسار انجنئرنگ ، پاک یاترم نیل، لیمک ہولڈنگ ایبرو کے سربراہوں اور ترک کنٹریکٹروں نے جلد پاکستان کا دورہ کرنے کا یقین دلایا ہے۔وزیر اعظم کی جانب سے اپنے دورے کو کئی امور پر محیط مصروفیات میں تبدیل کرنا اس لحاظ سے اچھا ہے کہ پاکستان مالیاتی وسائل کی کمی کا شکار ہے۔ وزرا اور سرکاری حکام کا بین الاقوامی سفر ریاست کے خزانے پر بوجھ بن سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے جن کمپنیوں کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے ان میں سے متعدد پہلے سے پاکستان میں کام کر رہی ہیں یا کام کر چکی ہیں۔ وزیر اعظم کی یہ کوشش مستحسن سہی لیکن مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ موجودہ اور سابق حکومتوں کی غیر سنجیدہ پالیسیوں نے سرمایہ کاروں کو پاکستان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ان حالات میں وزیر اعظم ترک سرمایہ کاروں کو کس نوع کی ضمانت دے کر سرمایہ کاری پر راضی کر سکتے ہیں ،اس سے متعلق تفصیلات سامنے آنے کی منتظر ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 222.6 ملین ڈالر رہی ۔ حکومت پاکستان اسے اطمینان بخش قرار دیتی ہے ۔ اسی عرصے میںبنگلہ دیش میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 940 ملین ڈالر رہی یعنی پاکستان سے چار گنا ۔جنوبی ایشیا میں سنگین مالیاتی بحران کا شکار سمجھے جانے والے سری لنکا میں غیر ملکی سرمایہ کاری 306.8 ملین ڈالر رہی ۔یہ فقط براہ راست سرمایہ کاری کے اعداد و شمار ہیں ، برآمدات، ٹیکس محاصل ،گورننس، قانون کی بالا دستی، اچھی جمہوریت ، کرپشن کے خاتمے سے متعلق اقدامات میں بھی بد قسمتی سے پاکستان خطے کے تمام ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔سیاسی قائدین نے ہمیشہ ملک کی اقتصادی ترقی کے لئے بلند آہنگ دعوے کئے لیکن ہر بار یہ دعوے سچ ثابت نہ ہو سکے ، اس دوران غیر ملکی سرامیہ کاری لانے کے لئے وزرا اور اعلیٰ سرکاری افسران کے دوروں پر اٹھنے والے اربوں روپے کے اخراجات ضائع ہوئے ۔ سرمایہ کاریکے راستے میںبڑی رکاوٹیں شہری تشدد، متضاد معاشی پالیسیاں اور سرکاری افسر شاہی کا رویہ شامل ہیں۔ خرابیاں دور کرنے کے لئے اصلاحاتی پالیسی اقدامات ضروری ہیں۔ ایک مسئلہ توانائی کے شعبے پر ایف ڈی آئی کا ارتکاز ہے۔ جس کے نتیجے میں غیر ملکی زرمبادلہ کی بڑی لاگت اور ترسیلات زر ہوتی ہیں۔پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کم کیوں؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لئے دہشت گردی کے خطرات، میکرو اکنامک عدم استحکام، سیاسی اتار چڑھاؤ، توانائی کی قلت وغیرہ جیسی کئی وجوہات کا جائزہ لینا ہو گا جنہوں نے ماضی میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں پیسہ لانے سے روکے رکھا۔ شرح مبادلہ، جی ڈی پی، افراط زر، تجارتی وسعت اور تجارتی توازن کو اس جائزہ میں ذیلی عوامل کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری یا FDI میں تیزی سے کمی حکومت کی مالیاتی ٹیم کے لیے تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔تین سال قبل کے سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کورونا وبا، جس نے دنیا کے بیشتر حصوں کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا ، پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی پرصرف وبائی مرض کو مورد الزام ٹھہرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ سرمایہ کاری میں کمی ایک واحد واقعہ نہیں ہے۔اگرچہ بڑی معاشی تصویر میں کچھ بہتری نظر آ سکتی ہے تاہم پاکستان طویل المدتی غیر ملکی نجی سرمائے کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ 62 ارب ڈالر کے CPEC منصوبے کے تحت چینی سرمایہ کاری بڑی پاور اور ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کی تکمیل کے بعد سکڑنی شروع ہوئی تھی۔ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اپنی کمپنیوں اور بینکوں سے رقوم کی آمد میں کمی کے باوجود چین اب بھی پاکستان میں سب سے بڑا سرمایہ کار ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ کئی دہائیوں کے تجارتی اور سیاسی تعلقات کے باوجود مغربی معیشتوں سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی آمد میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔اس کی وجہ وہاں پاکستان کے جمہوری نظام اور عدم شفافیت پر مبنی نظام کے متعلق پائے جانے والے شکوک ہیں۔ ملک کے روایتی تجارتی اور اقتصادی شراکت داروں کی جانب سے ایف ڈی آئی کا کم ہوتا ہوا حجم بھی مغرب کے ساتھ سیاسی تعلقات میں کمی کا عکاس ہے۔ لہٰذا گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں FDI کی آمد میں کمی دیکھی گئی ہے، سرمایہ کاروں کے بنگلہ دیش، ویتنام وغیرہ جیسے ممالک کی طرف بھاگنے کے عالمی رجحان کا پاکستانی حکومتیں بر وقت تجزیہ کر سکیں نہ اپنی مسابقتی پالیسی تشکیل دے پائیں۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ٹیکنالوجی کی منتقلی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، کاروباری انتظام کے طریقوں کو بہتر بناتی ہے اور مارکیٹ میں مسابقت لاتی ہے۔ پاکستان کی معیشت کے لیے ایف ڈی آئی کو راغب کرنا مشکل ہوسکتا ہے ۔ شاید یہاں غیر ملکی سرمایہ کاروں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بد عنوانی اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود اپنا پیسہ پاکستان میں لائیں گے ۔