صاف نظر آتا ہے امریکہ کی ترجیح اب کائونٹر ٹیررازم نہیں رہی ۔ امریکہ کے تمام ادارے اور تھنک ٹینکس اب دہشت گردی کو امریکہ کے لیے سب سے پہلا خطرہ نہیں سمجھتے ۔امریکہ کے اہداف تبدیل ہو چکے ہیں ۔ اس کا پہلا ہدف چین کا مقابلہ کرنا اور اسے سپر پاور بننے سے روکنا ہے یعنی امریکہ کی تمام توانائیوں کا محور و مرکز اب چین ، اس کے اتحادی اور چین کے سپر پاور بننے میں معاونت فراہم کرنے والے ممالک ہوں گے۔ اپنے اہداف کے حصول کے لیے امریکہ خطے میں اپنے اتحادی تلاش کر رہا ہے ۔ بھارت ایک فطری اتحادی کے طور پر پہلے ہی امریکہ سے مل چکا ہے اوریہی چین کے خلاف امریکہ کا پہلا ہتھیار ہے ۔ امریکہ کی مشکل یہ ہے کہ شدید تھکاوٹ کا شکار ہو جانے کے بعد اسے افغانستان سے نکلنا ہے۔ وہ اپنے پیچھے جو افغانستان کی سب سے بڑی طاقت چھوڑ کر جا رہا ہے وہ چین سے جا ملی ہے اور افغانستان میں جسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے اسے مسلسل شکست کا سامنا ہے۔ پاکستان پہلے ہی اپنے اور چین کے مشترکہ معاشی ترقی کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے جس کا امریکہ مخالف ہے ۔ ایسے میں بھارت کے سوا خطے میں امریکہ کا کوئی اور سہارا موجود نہیں ۔اس تناظر میں پاکستان کے سامنے کچھ چیلنجز آن کھڑے ہوتے ہیں۔ پہلا چیلنج امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنا ہے ۔ امریکہ کو Absolutely Not کہنے کا مطلب اس سے قطع تعلقی نہیں ہے۔ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف کا حالیہ دورۂ امریکہ بروقت بھی تھا اور انتہائی اہمیت کا حامل بھی۔امریکہ کی پاکستان سے بات چیت کا مطلب یہ ہے کہ اسے اب بھی پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان کو بھی امریکہ سے تعلقات برقرار رکھنے ہیں ۔کہا جاتا ہے امریکہ کی نقصان پہنچانے کی صلاحیت فائدہ پہنچانے کی صلاحیت سے زیادہ ہے ۔ دوسری طرف پاکستان کو یہ ادراک بھی ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات دو طرفہ مفاد کی بنیاد پر استوار ہونے چاہیے۔ آج کل ایشو بیسڈ الائنسز بنتے ہیں اور اسی کو نیشنل انٹرسٹ یا قومی مفاد کہا جاتا ہے۔ لہذا چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں توازن اہم بھی ہے اور ضرورت بھی۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو سکیورٹی کے لینز سے نہیں اکانومی کے لینز سے دیکھ رہا ہے ۔ پاکستان جیو اکنامکس کی بات کر رہا ہے ۔ چین ، روس، وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان کے ساتھ تو تجارت کی بات ہو ہی رہی ہے ، پاکستان امریکہ کو بھی قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ تجارتی سرگرمیوں کا حصہ بنے ۔ پاکستان کو یہ ادراک بھی ہوچکا ہے کہ امداد کے ذریعے خوشحالی نہیں لائی جا سکتی، تجارت ہی دیر پا ترقی کا واحد راستہ ہے۔ یہی وجہ وزیر اعظم عمران خان اپنے ہر دورے میں دوسرے ممالک کو تجارتی راہداریوں کا حصہ بننے کے لیے اُکسا رہے ہیں ۔ پاکستان کے لیے دوسرا بڑا چیلنج طالبان اور افغان حکومت کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنا ہے ۔ افغان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات سے انکار ممکن نہیں اور طالبان کو افغانستان کی سب سے بڑی عسکری اور سیاسی طاقت تسلیم کرنے سے بھی انکار ممکن نہیں۔تین لاکھ کی افغان فوج جلدی ہتھیار نہیں ڈالے گی۔ امریکہ اور بھارت کی معاونت اسے حاصل رہے گی جس کے نتیجے میں افغانستان میں ایک بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے جس کے اثرات پاکستان پر بھی ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو کسی بھی ممکنہ دہشت گردی کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے حکمت عملی کو حتمی شکل دینے کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین کی ممکنہ آمد کے معاملے کو بھی حل کرنا ہو گا۔ پاکستان کی پہلی کوشش ہو گی کہ طالبان اور افغان حکومت میں سمجھوتہ ہو جائے اور جنگ کی نوبت نہ آئے لیکن حکمت عملی تو بہرحال امکانات کی بنیاد پر ہی تیار کرنی ہوتی ہے ۔ پاکستان کے لیے خطے میں ایک اور چیلنج بھی ہے اور وہ یہ کہ مودی کے انڈیا کو کیسے کنٹرول کرنا ہے ۔ مودی کے ہندوتوا نظریے نے خود بھارت کے اندر بے شمار دشمن پیدا کر دیے ہیں ۔ کیسے ممکن ہے مسلمانوں ، سکھوں اور دیگر قومیتوں کی ایک بہت بڑی تعداد میں لاوا پک رہا ہو اور کسی روز آتش فشاں پھٹ نہ جائے ۔ اس موضوع پر کام کرنے والے بڑے تھنک ٹینکس کا خیال ہے کہ جب یہ آتش فشاں پھٹے گا تو اس کے اثرات دنیا بھر پہ ہوں گے۔ بھارت میں روز بروز بڑھتی نفرت پاکستان مخالف اذہان کو پاکستان کے خلاف اکسا رہی ہے ۔ فلم کا میڈیم ہو یا سوشل میڈیا ہر فورم اس مقصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے جسے کاونٹر کرنے کے لیے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ بھارت پاکستان میں تین چیزیں کرنے کی کوشش میں ہے ۔ اس کی پہلی کوشش یہ ہے کہ پاکستان کو سیاسی عدم استحکام کا شکار رکھے۔ دوسری کوشش یہ کہ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور رکھے۔ تیسرا یہ کہ پاکستان اور اس کے اداروں کو دنیا بھر میں مورد الزام ٹھہراتا رہے ، خاص طور پر پاکستانی فوج کو بدنام کرنے کے حربے جاری رکھے۔ پاکستان بھارت کی اس کوشش سے آگاہ ہے ۔لہذا اس پر موثر کائونٹر سٹریٹیجی بنانے کی ضرورت ہے۔ ایک اور اہم سوال بھی ہے اور وہ یہ کہ امریکہ ، افغان حکومت ، بھارت اور اسرائیل پر مبنی اتحاد کی کارستانیوں کا توڑ کرنے کے لیے پاکستان کی حکمت عملی کیا ہے ؟پھر کشمیر کا مسئلہ الگ ہے جو ایک مستقل جدو جہد اور توجہ کا متقاضی ہے ۔ ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کو فوڈ سیکیورٹی، واٹر سکیورٹی، ماحولیاتی تبدیلی اور سائبر حملوں جیسے خطرات کا بھی سامنا ہے ۔اسی میں اگرچند مزید چیزیں بھی شامل کر لیں تو شاید اسی کے لیے ہائبرڈ وار فئیر کی اصطلاح بھی استعمال کی جا سکے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت اور اس کے ادارے ہائبرڈ وار کے اس چیلنج سے کیسے نمٹتے ہیں ۔