کوئی مانے نہ مانے احتساب بیورو کریسی اور کاروباری برادری کے روبرو سرنگوں ہو گیا‘ دیکھیں سیاستدانوں کے حضور کب کورنش بجا لاتا ہے؟ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔ جنرل پرویز مشرف میاں نواز شریف کو ایوان اقتدار سے بے دخل کر کے اسلام آباد کے تخت پر فروکش ہوئے تواپنے سات نکاتی ایجنڈے میں احتساب بلکہ بلا تفریق احتساب کو سرفہرست رکھا۔ اُصول پسند‘ دیانتدار اور دبنگ جنرل سید امجد کو احتساب بیورو کا سربراہ مقرر کیا اور گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ سید امجد کی شہرت ایسی تھی کہ طاقتور لوگوں کا پتہ پانی ہونے لگا۔ مجھے یاد ہے کہ چودھری شجاعت حسین کونسل آف نیشنل افیئرز کی نشست میں تشریف لائے تو سب سے زیادہ ذکر احتساب کے عمل کا ہوا‘ چودھری صاحب نے بتایا کہ سرکاری اہلکار ان کے گھر کے واش روم تک کھنگال رہے ہیں کہ سینٹری کا سامان مقامی لگا ہے یا غیر ملکی اور اس کی مالیت کیا ہے؟ ایک دوست نے بتایا کہ پنجاب کی ایک معروف سیاستدان بیرونی دورہ نامکمل چھوڑ کر بھاگم بھاگ اپنے آبائی قصبے پہنچیں اور زمینوں کے معاملات کی جانچ پڑتال شروع کر دی ۔ڈر یہ تھا کہ کہیں اگر کمی کوتاہی ہوئی تو احتساب بیورو کی گرفت سخت ہو گی اور بچنے کی اُمید نہ ہونے کے برابر۔ چند ماہ کے ڈھول ڈھمکے کے بعد مگر سید امجد رخصت ہو گئے اور نیب کا کام صرف جنرل پرویز مشرف کے سیاسی مخالفین کی گردن ناپنارہ گیا۔ پرویز مشرف دور کے اہم جرنیل شاہد عزیز نے اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کب تک‘‘میں احتساب ‘انتقام اور مصلحت و مصالحت کی پوری داستان تفصیل سے لکھ دی ہے۔ عمران خان سے یہ کریڈٹ کوئی نہیں چھین سکتا کہ اس نے کرپشن کے خاتمے اور انصاف کی بلا تخصیص و تفریق فراہمی کا نعرہ لگا کر قوم کو احتساب کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کیا اور جو لوگ اپنے آپ کو پاکستان کا مستقل حکمران سمجھ بیٹھے تھے‘انہیں جیلوں کی راہ دکھائی مگر یہ اندازہ شائد عمران خاں کو تھا ‘نہ احتساب اور تبدیلی کے نعرے سے متاثر اسٹیبلشمنٹ کو کہ بیورو کریسی اور کاروباری برادری میں سابقہ حکمران خاندانوں کی جڑیں ناقابل تصور حد تک گہری ہیں اور تحریک انصاف میں بھی سٹیٹس کو کے حامیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔یہ علم عمران خان کو ہونا چاہئے تھا کہ مسلم لیگ (ن) ‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ق) سے جو ق در جوق تحریک انصاف میں شامل ہونے والے الیکٹ ایبلز بھی کرپشن کی بہتی گنگا میں دھو چکے ہیں اور نیب جب سابقہ ادوار میں ہونے والی کرپشن کا کھاتہ کھولے گی تو اس کے اپنے ساتھی بھی حمام میں ننگے نظر آئیں گے لہٰذا احتساب کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے قریبی ساتھیوں کی قربانی دینی پڑے گی اور سابقہ دور کی فیضاب بیوروکریسی و کاروباری برادری کی کالی بھیڑوں کو گٹھ جوڑ سے باز رکھنے کے لئے بھی ایسی ٹیم درکار ہو گی جس کا ماضی بے داغ ‘دامن صاف ‘ کام کرنے کا جذبہ توانا اور اخلاص شک و شبہ سے بالاتر ہو۔ ایک سال گزرنے کے بعد مگر عمران خان کی ٹیم کا دفاع ممکن ہے نہ بعض اقدامات کی تائید آسان۔وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نیب قوانین میں جو ترامیم لا رہے ہیں ان کا بظاہر مقصد بیورو کریسی اور تاجر برادری کے تحفظات دور کرنا اور نیب کی مداخلت کے باعث سرکاری و کاروباری معاملات میں موجود تعطل کا خاتمہ ہے ۔شیخ رشید احمد باربار یہ کہہ چکے ہیں کہ نیب کے ڈر سے سرکاری افسر فائلوں پر دستخط کرنے سے ڈرتے ہیں جبکہ بعض دوسرے وزراء کاروباری طبقے کے عدم تعاون کا سبب نیب کے خوف کو قرار دیتے ہیں مگر اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ کیا ساری بیورو کریسی بدعنوان ہے اور ملکی صنعت و تجارت کا پہیہ صرف اور صرف قانون شکنی ‘ٹیکس چوری‘ ذخیرہ اندوزی‘ سمگلنگ اور لوٹ مار کی پٹڑی پر چل رہا ہے۔ نیب کے ڈرسے کوئی بیورو کریٹ کام کرنے پر تیار نہ کوئی تاجر و صنعت کار اور سرمایہ کار کاروباری سرگرمی جاری رکھنے پر آمادہ؟ اگر واقعی نوبت باایں جارسید تو پھر ہمارا اللہ حافظ‘ اس حد تک کرپٹ‘ قانون شکن‘ مفاد پرست ‘غیر محب وطن اور ہوس زر کا مارا معاشرہ کب تک زندہ رہ سکتا ہے۔ میرے خیال میں وجہ یہ نہیں۔ یہ مفاد پرست گروہوں اور کرپشن مافیا کا گٹھ جوڑ ہے۔ ماضی کے لٹیرے سیاستدان‘ بیورو کریٹس اور سرمایہ کار پہلے بھی اکٹھے تھے اب بھی یک جان و دو قالب ہیں۔ انہیں اپنے ہم مشرب میڈیا کی کھلی تائید و حمائت حاصل ہے اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ بھی لازماً ان کی حوصلہ افزائی میں مصروف ہوگا۔ عمران خان اگر اقتدار کی بھول بھلیوں میں گم ہونے اور اپنے موقع پرست و بے عمل ساتھیوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کی بجائے تبدیلی کے خواہش مند نظریاتی نوجوانوں سے جڑے رہتے‘ پنجاب‘ خیبر پختونخواہ اور مرکز میں فیصلہ سازی و حکمرانی کے اُمور فصلی بٹیروں اور موقع پرستوں کے سپرد نہ کرتے جن کا کوئی نظریہ ہے نہ اخلاقی پیمانہ تو بیورو کریسی کو من مانی کی جرأت ہوتی نہ کاروباری طبقہ احتساب کے بہانے سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچتا۔1971ء میں بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو ابتدا میں پولیس بیورو کریسی اور کاروباری طبقے نے عدم تعاون کا مظاہرہ کیا مگر ہر سطح پر نظریاتی سیاسی کارکنوں نے گھیرا تنگ کیا تو سب راہ راست پر آ گئے اور اس وقت تک ساتھ چلے جب تک بھٹو صاحب نے دوبارہ موقع پرستوں اور فصلی بٹیروں کو حکومت اور پارٹی پر مسلط نہ کر دیا۔ بیورو کریسی اورکاروباری برادری کو احتساب سے بالاتر قرار دینے کے بعد نیب صرف سیاستدانوں سے تعرض کرے گی‘ ظاہر ہے کہ نیب کی گرفت میں وہی سیاستدان آئیں گے جو ماضی میں برسر اقتدار رہے ‘موجودہ حکومت میں شامل سیاستدانوں کو اگر اس مصلحت کے تحت بخشا گیا کہ کہیں چھ آٹھ ووٹوں کی برتری کا خاتمہ کار حکمرانی کو دشوار نہ کر دے تو یہ یکطرفہ احتساب ہو گا اور اپوزیشن یہ کہنے میں حق بجانب کہ اسے سیاسی مخالفت کی سزا مل رہی ہے‘ حکمران انتقام کے خوگر ہیں۔ سیاست اور جرم کے ملاپ کا جو کلچر پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر چکاہے اس میں کرپٹ سیاسی حکمرانوں کا ساتھ کائیاں بیورو کریٹس اور ہوس زر کے مارے کاروباری طبقے نے دیا۔ اعلیٰ مناصب پر فائز سیاستدانوں کو چالاک سرکاری افسروں نے مال پانی بنانے کے طریقے بتائے اور ان کی آڑ میں خوب ہاتھ رنگے‘ پارٹی فنڈز کے نام پر کاروباری برادری نے سیاستدانوں کو نوازا اور جواباً ملک و قوم کو کنگال کر دیا۔ ٹیکس چوری معیوب رہی نہ قرض خوری اور ذخیرہ اندوزی و گراں فروشی باعث ننگ و عار۔ اگر قانون شکنی پر بیورو کریٹس اور کاروباری طبقہ قابل گرفت نہیں’ نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہے تو سیاستدانوں نے کون سا’’کھوتی‘‘ کو ہاتھ لگایا ہے کہ انہیں جیلوں میں ڈال کر مال مسروقہ کی واپسی کا مطالبہ کیا جائے؟۔ بیورو کریٹس اور تاجر و صنعت کار اگر نیب اور حکومت کو بلیک میل کر کے احتساب سے مستثنیٰ قرار پائیں تو سیاسی اشرافیہ کے حوصلے کیوں بلند نہ ہوں اور وہ قومی اتحاد ویکجہتی اور سیاسی استحکام کے نام پر این آر او کیوں نہ مانگے؟ عمران خان نے جس منطق کے تحت بیورو کریسی اور تاجر برادری کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے وہی منطق ایک نہ ایک روز سیاستدانوں کے حوالے سے بروئے کار آئے گی اوروہ چاہیں نہ چاہیں شریف خاندان اور زرداری خاندان کو بھی این آر او دینے اور نیب کا ادارہ بند کرنے پر مجبور ہوں گے۔ کڑوا کڑوا تھو‘ میٹھا میٹھا ہپ کی حکمت عملی ماضی میں کبھی کامیاب رہی نہ اب کامران ہو سکتی ہے۔ جنرل (ر) سید امجد کی رخصتی کے بعد نیب محض نمائشی ادارہ بن کررہ گیا اور مسلم لیگ و پی پی کی قیادت نے بھر پور فائدہ اٹھایا ‘اب شائد ایک بار پھر نیب کو ہاتھی کے دانت بنانے کا ارادہ ہے‘ کھانے کے اور ‘دکھانے کے اور۔ احتساب بیورو کریسی اور کاروباری برادری کے سامنے سرنگوں ہو‘ سیاستدانوں کے روبرو سربلند و سرفراز رہے‘ ناممکن۔ یہ یوٹرن قومی معیشت کے لئے ہو نہ ہو قومی اخلاقیات اور قانون کی حکمرانی کے لئے تباہ کن ہے۔ گویا قانون کی نظر میں سب شہری برابر نہیں اور گردن زدنی صرف سیاستدان ہیں۔سبحان اللہ