کیا مولانا فضل الرحمن کے مارچ/ دھرنے کا ڈراپ سین ہونے جا رہا ہے۔ اتوار کی شام مولانا خاصی تاخیر سے پشاور موڑ جلسہ گاہ میں پہنچے۔وہ مائیک پر آئے تو اگرچہ نیوز چینلز پر خبر چل چکی تھی کہ مولانا کی جماعت نے اے پی سی بلوانے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم ہر ایک نظریں ان کی تقریر پر تھیں۔مولانا فضل الرحمن کی تقریر ان کے مخصوص انداز کا عمدہ نمونہ تھی، مگرخاصے عرصے بعد ان کی گفتگو بے ربط محسوس ہوئی۔ ذہنی طور پر بھی وہ الجھے ہوئے تھے ،ایک دو بار ڈی ٹریک بھی ہوئے ، مگر پھر اصل نکتہ کی طرف لوٹ آئے۔ ایک بات شدت سے محسوس ہوئی کہ مولانا اپنے کارکنوں کو مطمئن کرنے، انہیں تسلی دینے اور ان کا مورال بلند کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔ مارچ سے پہلے، مارچ کے دوران اور پھر جلسہ گاہ میں مولانا اور ان کے دیگر پارٹی لیڈروں نے بڑی پرجوش ، دھواں دھار تقریریں کیں۔ ہمارے جیسے ملکوں میں سب سے سستے ، بے قیمت لفظ ہی ہوتے ہیں۔ جدھر چاہو، جتنے چاہو لٹا دو۔ مولانا نے کامیاب مارچ اور اچھا جلسہ کرنے کی خوشی میں تین دن پہلے کئی دعوے کر ڈالے تھے ۔وزیراعظم پاکستان کو وزیراعظم ہائوس میںگھس کر گرفتار کرنے کی بات بھی کہی۔ کسی بھی اعتبار سے یہ کوئی مناسب، معقول ، منطقی بات نہیں تھی۔ ایسی پرجوش تقریریں ہم نے پانچ سالہ پہلے ڈی چوک کے دھرنے میں بھی سنی تھیں۔ عمران خان بھی ان دنوں لمبی لمبی ہانکتے تھے۔ وہ بیوروکریٹس، پولیس افسروں کو دھمکی لگاتے، وزیراعظم پر تند وتیز حملے کرتے اور گاہے ذاتیات پر اتر آتے تھے۔ وہ سب غلط تھا ۔ وقت کے ترازو نے ان تمام باتوں کو ہلکا، غیر معقول اوربے وزن ہی قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمن باقاعدہ خطیب ہیں، بولنے کا ہنر ان کے پاس ہے اور الفاظ، جملوں کی بھی کمی نہیں۔ وہ ذاتیات پر اترنے سے گریز کرتے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کی تقریریں شائستگی اور تہذیب کا نمونہ ہوتی ہیں۔ سیاسی مخالف کو یہودی ایجنٹ قرار دینا، یہودی اور قادیانی لابی کو اس کا سرپرست کہنا اور اس طرح کے دیگر بے بنیاد، غلط ، خوفناک الزامات لگانا گندی گالی دینے سے کم نہیں۔ پاکستان میں کسی کو یہودی یا قادیانی کہنا اسے ماں ، بہن کی گندی ، ناشائستہ گالیاں دینے سے زیادہ تکلیف دہ اور خطرناک ہے۔ گالیوں سے تواسے ذہنی تکلیف پہنچے گی، مگر یہودی، قادیانی کے الزامات لگانے سے جان کا خطرہ بھی لاحق ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے بیشتر مولوی صاحبان کی طرح مولانا فضل الرحمن بھی اس حوالے سے کسی بھی قسم کی احتیاط نہیں برتتے۔ حالیہ دنوں میں ٹی وی ٹاک شوز میں مولانا کی جماعت کے لیڈروں کو بولنے کا موقعہ ملا تو مفتی کفایت اللہ جیسے سینئر رہنما نے غیر شائستہ ، غیر مہذب گفتگو کی۔ حافظ حسین احمد نے مخالف جماعت کی خواتین رہنما سے لونڈوں ، لپاڑوں جیسی زومعنی، گھٹیا گفتگو کی۔ اس سے بہرحال ہمارے ان مذہبی رہنمائوں کی اخلاقیات کا بھی بخوبی اندازہ ہوگیا۔ سیاست کے حمام میں افسوس سب لبرل، مولوی، ماڈرنسٹ ایک ہی انداز سے بے لباس نظر آتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے جلسے میں ز ور دے کر کہا کہ آج کے اجتماع سے دنیا میں دو ہی لابیاں ناخوش اور پریشان ہیں، ایک اسرائیل اور دوسرا قادیان۔ اب یہ فقرہ عقل وفہم سے بالاتر تھا۔ مولانا کے دھرنے سے اسرائیل کو بھلا کیا پریشانی لاحق ہوسکتی ہے؟ وہاں کی حکومت، ماہرین، انٹیلی جنشیا، میڈیا، عوام میں اس سے کچھ خوشی یا آس تو پیدا ہوسکتی ہے کہ دھرنے کے لوگوں سے پاکستانی حکومت کا ٹکرائو ہو، خون خرابا ہو اور یوں ملک میں عدم استحکام پیدا ہو۔ ظاہر ہے ایسی ہر سیچوئشن سے ہر پاکستان دشمن قوت خوش ہوگی۔ مولانا فضل الرحمن کے اجتماع سے اسرائیلیوں کے ناخوش یا پریشان ہونے کی مگر کیا تک ہے؟ کوئی نہیں؟ اسی طرح قادیان بھلا کیوںپریشان ہوگا؟ یہ سب بے بنیاد، بے تکی باتیں تھیں، مگر ان کی ایک خاص منطق، دلیل اور وجہ تھی۔ دراصل مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت نے ملک بھر سے اپنے کارکنوں، ووٹروں کو انہی جذباتی (اگرچہ بے بنیاد )نعروں پر متحرک کیا تھا۔ جلسہ اور دھرنے کے دنوں میں مختلف چینلزکے اینکر صاحبان شرکا سے گفتگو کرتے اور ٹی وی پر دکھاتے رہے۔ بیشتر لوگ یہی کہہ رہے تھے کہ ہم اس لئے آئے کہ ہمارے امیر کا حکم تھایا ہمارے امیر نے کہا تھا اور جب وہ کہیں گے ہم واپس چلے جائیں گے، مجھے تو یہ رویہ روبوٹک سالگا۔ گویا ان کی اپنی کوئی مرضی، فہم نہیں تھا، لیڈر نے جو کہا، اس پر لبیک کہہ ڈالا۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ عمران خان پاکستان میں یہودی لابی کو سپورٹ کر رہا ہے، اسرائیل تسلیم کر نے والا ہے، اس لئے ہم اس کے خلاف اٹھے ہیں۔ بعض نے ختم نبوت قوانین کا ذکر کیا، اسلامی دفعات کا کہا کہ ہم انہیں بچانے آئے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ پاکستان میں پچھلے ایک سال کے دوران ایسی کوئی معمولی سی موو بھی نہیں ہوئی۔ حکومت نے ایسا سوچا نہ اس کا اشارہ دیا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا تو ویسے بھی ایک بڑا سٹریٹجک فیصلہ ہے، کوئی سیاسی حکومت اپنے طور پر اسے کر ہی نہیں سکتی۔ یہ تو ریاستی سطح پر لمبے چوڑے حساب کتاب کے بعد ہی ہو سکتا ہے اور جب تک سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم نہ کر لیں، پاکستان خود کبھی پہل نہیں کر سکتا۔ ختم نبوت قوانین میں تبدیلی تو کوئی احمق سے احمق حکومت بھی نہیں کر سکتی۔ اس کا سوچ بھی نہیں سکتی۔پچھلی مسلم لیگی حکومت میں ان قوانین کے الفاظ میں تبدیلی ہوئی ، تب بھی ہنگامہ کھڑا ہوگیا تھا۔ مسلم لیگی حکومت کو فوری پسپا ہونا پڑا۔ اسی طرح آئین میں شامل اسلامی دفعات تو دو تہائی اکثریت کے ساتھ ہی بدلے جا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو قومی اسمبلی میں بمشکل درجن بھر ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ ان کے لئے بجٹ منظور کرانا بھی باقاعدہ ایکسرسائز ہے، کوشش کر کے بندے پورے کرنے پڑتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنا تحریک انصا ف کے لئے ناممکن ہے جبکہ سینٹ میں توسرے سے اس کا امکان ہی نہیں۔ وزیراعظم عمران خان اپنے کئی بیانات میں واضح طور پر ان تمام الزامات، تاثر کی تردید کر چکے ہیں۔ ایسے میں یہ الزامات لگانے، ان کی بنیاد پر پروپیگنڈہ کرنا، اپنے مخلص مذہبی کارکنوں کا جذباتی استحصال کرنا بذات خود زیادتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے مگر اپنی پوری مہم انہی جذباتی ، مذہبی نعروں کی بنیاد پر استوار کی تھی۔ وہ اوپر والی سطح پر سیاسی بیانیہ ہی دیتے رہے، مگر اپنی جماعت، کارکنوں کے اندر مذہبی بیانیہ ہی چلاتے رہے۔ اس لئے انہیں یہ تمام وضاحتیں کرنا پڑیں اور کارکنوں کو تسلی دینا پڑی کہ آپ کے اس اجتماع کی وجہ سے اسرائیل، قادیان پریشان ہوئے۔ اسلامی دفعات کا تحفظ یقینی ہوگیا، ختم نبوت قوانین میں تبدیلی کا خدشہ رفع ہوگیا، جبکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح وہ بار بار یہ کہتے رہے کہ ہمارا تو دھرنے کا پروگرام تھا ہی نہیں، ہم نے کبھی 126دنوں کے دھرنے، کئی ماہ، کئی ہفتوں کے دھرنے کی بات ہی نہیں کی تھی۔انہوںنے دھرنے سے آگے بڑھنے یعنی تحریک چلانے، ملک بھر میں اجتماعات کرنے ، شہر شہر دھرنا دینے، ایک اسلام آباد کی جگہ پر ملک بھربند کر دینے کا اشارہ دیا ۔ اپنے کارکنوں کوسمجھانے کی کوشش کی کہ یہ حکمت عملی دھرنے کو آگے لے جانے کے مترادف ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی طور پر یہ بھی غلط اور غیر منطقی بات ہے۔ ہمیشہ ملک بھر میں اجتماعات کرنے، شہر شہر احتجاج کرنے کے بعد ہی آخری فیصلہ اور آخری وار کیلئے دارالحکومت کا رخ کیا جاتا ہے۔ یہ آخری اقدام ہوتا ہے جس کے بعد واپسی کی راہ نہیں بچتی۔ اس لئے اچھی طرح پلان کر کے، یکسو ہو کر ہی اس انتہائی آپشن کی طرف جانا پڑتا ہے۔ خود مولانا نے مختلف شہروں میں ملین مارچ کئے اور پھر اس کے بعد ہی اس آزادی مارچ کو شروع کیا اور شروع ہی سے واضح کیا کہ ہم استعفا لئے بغیر واپس نہیں آئیں گے۔ یعنی یہ مارچ نہیں بلکہ مارچ پلس دھرنا تھا۔ اب اچانک ہی انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ہم تو دھرنا کر ہی نہیں رہے تھے، صرف مارچ تھا اور اب اس کے بعد ملک بھر میں مارچ، جلسے ، اجتماعات کریں گے۔ اب یہ ان کے کارکنوں پر ہے کہ وہ مولانا کے دلائل کو کس طرح لیتے ہیں۔ غیر جانبدار سننے والے تو مولانا کی اس غیر موثردلیل اور کسی حد تک بے ربط مجموعی تقریر سے متاثر نہیں ہوئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مولانا اپنی اے پی سی سے کیا اعلامیہ برآمد کراتے ہیں؟ وہ جو بھی اعلان کریں، بظاہر ان کے دھرنے کا ڈراپ سین ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس میں سب سے اچھی بات صرف یہی ہوگی کہ پرامن اختتام کرنا بہتر ہے چاہے اس میں کسی حد تک ندامت یا مایوسی کا عنصر بھی شامل ہو۔ ناسمجھ جذباتی کارکنوں کاریاست سے ٹکرائو کرانا تباہ کن اور بہت خطرناک ہوگا۔ دھرنے کا ڈراپ سین ہوا تب دونوں فریقوں ،مولانا اور خود حکومتی حلقوں کے پاس مناسب وقت ہوگا کہ وہ اپنی اپنی غلطیوں، خامیوں اور حکمت عملی کا جائزہ لے سکیں۔ تب ہم بھی اپنی معروضات پیش کریں گے۔